’’یہ کیا تم نے نئے کپڑے پہن لئے؟‘‘۔ آج مُحرّم کی پہلی تاریخ ہے۔ بڑی آپا کی آواز ایمن کے کانوں میں گونجنے لگی۔ ایمن کی شادی کو ابھی صرف دو ماہ ہوئے تھے اور ہر موقع پر وہ بری یا جہیز کا کوئی نہ کوئی جوڑا نکال کر پہن لیتی تھی۔ آج بھی خالہ ساس آرہی تھیں۔ ’’ میں نے تم سے پوچھا ہے کہ آج تم نے نیا جوڑا کیوں پہنا ہے؟‘‘۔ ہمارے دادا مرحوم اللہ جنّت نصیب کرے کہا کرتے تھے کہ یہ غم کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں نواسہ رسولﷺ کو شہید کیا گیا تھا۔ بڑا علم رکھتے تھے دادا مرحوم۔ ایمن ابھی پہلی بات ہی پوری طرح نہیں سمجھ پائی تھی کہ دوسری بات آگئی۔
’’جی بڑی آپا بدل لیتی ہوں۔‘‘ و ہ یہ کہ کر رہ گئی۔ ظاہر ہے حکم کی تعمیل تو بہت ہی ضروری تھی کیونکہ گھر میں ساس سسر سے زیادہ بڑی آپا کا حکم مانا جاتا تھا۔
ایمن سارا دن اس سوچ مین مبتلا رہی کہ آج سے پہلے اس نے یہ نئی اور انوکھی بات کبھی نہیں سنی تھی اور وہ اس سوچ میں پڑ گئی تھی کہ آخر مُحرّم کی کس تاریخ نئے کپڑے نہ پہنے۔یہ سوال کرنے کی تواس میں ہمّت ہی نہ تھی۔ دوسری طرف وہ اس سوچ میں مبتلا ہو گئی کہ مُحرّم میں اور کیا کیا نہیں کرنا چاہیئے؟۔اسکی وجہ یہ تھی کہ بڑی آپا اس سے پہلے کئی اور موقعوں پر کافی سخت لیکچر دے چکی تھیں۔نئے کپڑوں پر تو اعتراض ہوا ہی تھا ہاتھوں کی چوڑیاں بھی اتروادی گئیں۔
مگر ایک عجیب بات جو اس کی سمجھ میں بالکل نہیں آئی وہ یہ کہ آج مُحرّم کی پہلی تاریخ تھی اور۹ اور ۱۰ مُحرم کو پکنے والے پکوان زیرِ بحث چل رہے تھے۔ بڑی آپا کی آواز پھر کانوں میں گونجی۔۔۔ ’’ایمن! ارے کیا کرتی رہتی ہواکیلے کمرے میں؟ کیا سانپ سونگھ گیا ہے تم کو؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے تک آگئیں۔
جی آپا بولیں۔ ایمن نے بے ساختہ کہا۔
دیکھو کھچڑا میں پکائوں گی، تمہیں ابھی گھوٹا صحیح نہیں لگانا آتا، کھیر بھی میں ہی پکالوں گی ہاں چاول تم پیس دینا، اور ہاں پلائو تم پکائو گی۔ ٹھیک ہے نہ مگر خیال رہے مرچ ہلکی رکھنا، امی اباّ سے کھایا نہیں جائے گا۔
جی آپا ابھی وہ یہ کہ کر پلٹی بھی نہیں تھی کہ آواز آئی سنو! ایسا ہے کہ مصا لحہ تم نہ ڈالنا میں خود ہی پیاز، گوشت، چاول اور مصالحہ الگ کردوں گی۔
جی اچھا کہتی ہوئی وہ پھر کمرے میں چلی گئی اوراسی کشمکش مین مبتلا ر ہی کہ نئے کپڑے پہننے پر کتنا اعتراض تھا اور یہ طرح طرح کے کھانے۔۔۔
’’مُحرّم خوشی کا مہینہ ہے یا غم کا؟‘‘ اسے یہ سمجھنا قدرے مشکل لگ رہا تھا۔ اور نہ ہی آج تک کسی نے اس کو اس طرح ٹوکا تھا۔ اپنے کمرے میں وہ اکیلے بیٹھی اداسی کی تصویر نظر آرہی تھی۔ اور اس کے دل میں کئی نئی و پرانی باتیں یکجا ہورہیں تھیں۔ اسے اچانک یاد آیا کہ وہ ہمیشہ شادی سے پہلے۹ اور ۱۰ مُحرّم کے روزے باقاعدگی سے رکھا کرتی تھی۔ اور یہ بات وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ روزے غم کی وجہ سے نہیں رکھے جاتے بلکہ سابقہ فتوحات کے نتیجے میں شکرانے کے احساس کے تحت رکھے جاتے ہیں۔ اور وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اس سال بھی انشأاللہ وہ ان تاریخوں میں ضرور روزے رکھے گی۔
وہ اپنے خیالات میں گم تھی کہ اذانِ مغرب کا وقت ہو گیا اور اذان کے بعد امام صاحب کی آواز نے اسے تازہ دم کردیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ’’تمام عالم اسلام کو نیا اسلامی سال مبارک ہو!۔ اللہ پاک اس نئے سال کو ہمارے لئے، ہمارے وطن کے لئے اور تمام عالم اسلام کے لئے امن کا گہوارہ بنائے۔ (آمین)۔
وہ اٹھی اور اپنے خیالات کو جھٹک کر نماز کی تیاری کرنے لگی۔
nice one