اخوان المسلمون کا نام لبوں پر آتا ہے تو محبت، صبر، برداشت، قربانی، جذبہ ایمانی، جذبہ شوق شہادت سے سرشار اور کفر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی کھڑی ایک تصویر ذہن میں ابھر آتی ہے۔ پوری دنیا کے جمہوریت کے علمبردار اور انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار اخوان کو ختم کرنے کی سازش میں مصروف عمل ہیں۔ اخوان المسلمون کا نام آتے ہی ذہن میں مفکر اسلام سید ابوالاعلی مودودی رح یہ کے الفاظ گردش کرنے لگتے ہیں کہ “اگر حق کو نہیں پہچان سکتے تو باطل کے تیروں پر نظر رکھو جہاں پر لگ رہے ہوں وہی حق ہے”۔
اخوان کی دعوت سے باطل اور اپنوں دونوں کو خوف و خطرہ نظر آرہا ہے۔ پورے عرب خطے میں جسطرح اسلامی تحریکوں نے بادشاہوں اور آمروں کے تاج و تخت
الٹے ایسی مثال نہیں ملتی۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
”تم بہترین امت ہو جو لوگوں کےلیے پیدا کی گی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو”۔
(ال عمران ۳)۔
آج پوری دنیا کا سیکولر و لبرل طبقہ اور یہودیوں کے جوتے چاٹ گروه اخوان کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔ مصری عوام نے آمریت اور فرسودہ نظام کے خلاف 60 سال تک جدوجہد کی۔ آمریت کا سورج غروب کیا۔ انتخابات کے ذریعے اخوان بھاری عوامی مینڈیٹ لے کر مصر کے ایوان اقتدار میں پہنچی۔ مگر مغرب اور اسلام دشمنوں کو اسلام پسندوں سے خوف اور مستقل میں اپنا برا انجام نظر آیا تو ان سے کہاں اخوان کی کامیابی ہضم ہوسکتی تھی سو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سازشیں کیں اور اخوان کے محمد مرسی کی اسلامی اور عوام کی رائے سے منتخب جمہوری حکومت کو جنرل سیسی کے ذریعے ختم کردیا۔ یہاں سے اخوان کا پھر سے ایک مرتبہ امتحان شروع ہوا۔ اسلامی حکومت کی بحالی کےلیے اخوان کے پرامن مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ فرعونیت کے پیروکار حکمرانوں نے خواتین اور بچوں سمیت ھزاروں پرامن مظاہرین کا قتل عام کیا۔ پرامن مظاہرین پر ظلم، تشدد اور بربریت کے پہاڑ توڑے گے۔ لاکھوں پرامن مظاہرین مصر کی سڑکوں پر قرآن پاک ہاتھوں میں اٹھائے تلاوت کرتے ہوئے نظر آئے مگر جنرل سیسی نے تشدد ظلم اور مظاہرین کو کچلنے کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں چھ ھزار سے زائد مرد، خواتین اور بچے شہید ہوئے۔ ھزاروں زخمی اور ھزاروں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
امریکہ و اسرائیل کے پاؤں میں سجدہ ریز اور مغرب کی مغرب کی خوشنودی کی خاطر پوری دنیا کے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے ایسی بےحسی کا مظاہرہ کیا کہ جیسے سب گونگے، بہرے اور اندھے ہوں۔ سوائے ترکی اور تیونس کے کسی مسلم ملک نے ظلم کو ظلم کہنے کی اخلاقی جرات نہ کی۔ کسی نے جمہوریت پر شب خون مارنے کی مذمت نہ کی۔ خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن اور جمہوریت کا علمبردار کہنے والی مغربی دنیا کی زبان سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ ان جمہوریت جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والوں کو اور کتے کی موت پر بھی آسمان سر پر اٹھالینے والوں کو نہ مصر میں شہید ہونے والے چھ ھزار پرامن اخوان مظاہرین نظر آئے اور نہ انصاف کا قتل عام کرکے 529 اخوان کو سزائے موت کا کالا عدالتی فیصلہ نظر آیا۔ ان انسانی حقوق کے سیکورٹی گارڈز کو اپنی انسانی حقوق کی کتابوں سے مذمت کےلیے دو الفاظ بھی نہ مل سکے۔ کیونکہ شہید ہونے والے اور سزائے موت کی سزا پانے والے مسلمان ہیں اور مسلمان کےلیے انسانی حقوق کے تمام قانون قاعدے غائب ہوجاتے ہیں۔ ہمیشہ کیطرح اس ظلم پر بھی دنیا کو تہذیب سکھانے والے، امن کے نام نہاد ٹھیکیدار، انسانی حقوق کے علمبردار بلکہ کتوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والوں پر موت کا سناٹا طاری ہے۔ وه جو دنیا کے کسی کونے میں اگر کوئی پتہ ہلنے پر طوفان کھڑا کردیتے ہیں ان سب کی زبانیں بند ہیں جیسے گونگے ہوں۔ ایسی خاموشی جیسے مصر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ اہل مغرب اور انکے ایجنٹوں اور تمام سیکولر و لبرلز سے سوال کرنے کی گستاخیۂ جرات کرتا ہوں کہ اگر کسی سیکولر و لبرل ریاست یا مغرب کے کسی ملک میں فوج اقتدار پر قبضہ کرکے، پہلے ھزاروں پرامن شہریوں کا قتل عام کرتی پھر انصاف کا گلا دبا کر بغیر تحقیق و ثبوتوں کے شہریوں کو پھانسیاں دیتی تو کیا تم ایسی ہی خاموشی اختیار کرتے؟ مگر بات پھر وہی آگی مرنے والے مسلمان ہیں۔ تم سب اخوان کو نشانے پر لیے ہوئے ہو۔ مغرب سمجھتا ہے کہ اخوان کو تشدد، شہادتوں، قید و بند کی تکلیفوں، تختہ دار سے ڈرا کر راستے سے ہٹادیا جائے گا۔ مگر یاد رکھو ایک اخوان سے کسی نے جب پوچھا:
”اتنی شہادتوں کے باوجود آپ مسکرارہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟” جواب ملا
”ہماری مائیں ہمیں پیدا ہی اللہ کی راه میں قربان کرنے کےلیے کرتی ہیں”۔
بیشک امام حسن البناء رح کو شہید کرکے نہ اس روشنی کو روکا جاسکا، نہ سید قطب شہید رح کو پھانسی گھاٹ پر لٹکا کر اخوان کے آگے بند باندھا جاسکا، السیده زینب الغزالی رح کے ساتھ وحشیانہ اور انسانیت سوز سلوک سے ڈرا کر اخوان کو راستے سے ہٹایا جاسکا اور نہ اب پرامن مظاہرین کو ٹینکوں، گولیوں، فارسفورس بموں سے خوفزدہ کیا جاسکا، انشااللہ ان 529 کی پھانسی کی سزا سے بھی اخوان کے حوصلوں کو کمزور نہیں کیا جاسکے گا ۔کیونکہ اخوان کی تاریخ شہادتوں سے بھری پڑی ہے ان کی مائیں تو انہیں پیدا ہی اللہ کی راه میں قربان کرنے کےلیے کرتی ہیں۔ اہل مغرب تم انہیں ڈرا دھما کر ان کے دلوں میں موت کا خوف ڈال دو گے یہی تمہاری بھول ہے۔
امام حسن البنا شہید رح اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے تھے کہنے لگے حیرت ہے قصر شاہی اور اپوزیشن سب ہم پر حملہ آور ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ہمارے خلاف ہوتو اپوزیشن پارٹیاں ہماری مدد کریں اور اپوزیشن خلاف ہوتو حکومت ہمارا ساتھ دے، لیکن دونوں ہمارے خلاف ہیں”۔ قدرے توقف کے بعد کہا:
”جانتے ہو ایسا کیوں ہے؟ یہ اسلئے ہے تاکہ ہمیں یقین ہوجائے کہ اللہ کے علاوہ ہمارا کوئی مددگار نہیں۔ ہم اللہ کے سوا کسی سے تائید و نصرت کے طالب نہ رہیں۔ اب اللہ ہی سے خشوع و خضوع کے ساتھ یاد کرو اور اپنے کام و دعوت و تربیت پر توجہ دیتے ہوئے کوشش تیزتر کردو”۔
فیس بک تبصرے