ناروے میں حجاب ڈے

hijab-my-pride’’حجاب میرا حق۔ حجاب میرا انتخاب‘‘ کی باز گشت ہر سال 4،ستمبر کو مشرق و مغرب میں گونجتی ہے۔ فرانس میں حجاب پر عائد غیر قانونی پابندی کو مسلم دُنیا کی‘‘ مسلم خواتین‘‘ ہر سال چیلنج کر رہیں ہیں۔ اللہ تعالی کی یہ کمزور بندیاں جن کے حق پر لگنے والی پابندی کے خلاف آواز نہ تیل کے کنوؤں کی سرزمین سے اُٹھتی ہے اور نہ ہی اسلامی دُنیا کے سیاسی داؤپیچ کھیلنے کے ماہر سیاست دانوں کو توفیق ملتی ہے۔ان بندیوں کو اندازہ ہو چکاہےکہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر عمل پیرا ہونے کے لئے، اپنے حق حجاب کے لئے انہیں تن تنہا لڑنا ہے ۔فرانس کی سڑکوں پر نقاب پہنےگرفتاریاں دینی ہو ں یا سر بازار دوپٹہ نوچنے والوں سے ہاتھا پائی کرنی ہو۔ مہذب دُنیا کے مہذب انسانوں کے غیر مہذب رویے پر صبر و برداشت کے گھونٹ پینے ہوں ،وہ بخوبی اندازہ لگاچکیں ہیں کہ انصاف کے ایوانوں سے انصاف کی توقع عبث کہ منصفوں کی آنکھوں پر کیا عقل پر بھی پٹی بندی ہے ۔مسلمان پارساؤں کو پکارنا بیکار کہ سیاست سے پارسائی کو کیا سرو کار ۔کیا عجب ایسی خواتین کو کمزور کہا جائےجنہیں نہ مشرق مناسکا نہ مغرب ہی ورغلا سکا ہے۔

 

4/ستمبر کو منایا جانے والا ’’ حجاب ڈے ‘‘ جبر حجاب اُتروانے کے خلاف ،مسلم خواتین کے حق حجاب کی آواز کو ہر سال توانا بنا رہا ہے۔فرانس میں مظلوم خواتین سے اظہار یکجہتی کے لیےدُنیا کے مختلف ممالک کی مسلم خواتین اس دن مختلف سرگرمیاں ترتیب دیتیں ہیں۔ نظمِ خواتین اسلامک کلچرل سنٹر اوسلو نے اس سال،پاکستان سے محترمہ راحیل قاضی صاحبہ کو ، آن لائن ’’ حجاب میرا حق ْ حجاب میراانتحاب ‘‘ کے مو ضوع پر دعوت خطاب دی۔ پروگرام کے افتتاحی الفاظ میں قائم مقام ناظمہ محترمہ فرح رحمٰن طیب صاحبہ نے اسلامک سنٹر اوسلو میں جمع خواتین کی کثیر تعدادکو خوش آمدیدکہا اور کہا’’ یہ دن شہید الحجاب مروہ الشربینی کے نام ہے جنھیں جرمنی کی بھری ؑعدالت میں چاقو کے وار کر کے شہید کیا گیا تھا۔ انکا جرم حجاب تھا۔ دُنیا میں آجکل مدر ڈے ، فادر ڈے، لیبرڈے ،ویلنٹائن ڈے ،سبھی دن منائے جاتےہیں۔ اور ان تمام دنوں کی اہمیت سے ہم اور ہمارے بچے بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن حجاب ڈے کے متعلق کم لوگ آگاہ ہیں حجاب ڈے کی اہمیت سے خاص و عام کو آگاہی دینا ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔

 

‘‘محترمہ راحیل قاضی صاحبہ نے ’’آن لائن سکائپ ‘‘ پرخواتین سے خصوصی خطاب کیا۔ انہوں نے’’ مسلم فیملی اسٹڈیز ‘‘میں پی ایچ ڈی اورپاکستان میں’’ ویمن اینڈ فیملی کمیشن ‘‘کی صدر ہیں۔ ‘‘اسلامک مسلم ویمن یونین‘‘ ایشین ریجن کی بھی صدر ہیں پاکستانی خواتین کے فلاح اور ان کے اسلامی حقوق کے لئے ہر دم سرگرم وکوشاں رہتیں ہیں۔جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سےدو مرتبہ قومی اسمبلی کی رکن بھی منتحب ہو چکی ہیں۔ اپنے خطاب کے آغاز میں انہوں نے حجاب ڈے اور اس دن کے متعلق حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے بعداپنے مو ضوع پر گفتگو کرتے ہوئےکہا ’’ کہ عورت اللہ تعالی کی خوبصورت اور قیمتی تخلیق ہےقیمتی اشیاء کی کوالٹی کی خفاظت کے لئے پیکنگ کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالی نے بھی عورت کی نسوانیت کی حفاظت کے لئے یہ طریقہ پسند فرمایاہے ۔’’ انہوں نے عربی کے ایک محاورے’’النساء عما د البلاد‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا عورتیں تہذیبوں کی بنیادی ستون ہیں جب شیطان کسی تہذیب کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلا وار عورت کی حیاء پر کرتا ہے۔‘‘وہ فرما رہی تھیں ’’پردہ ، حیا، شرم، زبان سے ان الفاظ کی ادائیگی کیساتھ ہی ایک نسوانی تصورابھرتا ہے۔ اور عورت ذہن میں آتی ہے۔‘‘ (میرے ذہن میں فورا خیال آیا یہ الفاظ سن کر مغربی انسان کے ذہن میں کیا تصور ابھرتا ہو گا ؟ممکن ہےلغت کی کتابوں سے یا گوگل میں ان الفاظ کے معنی تلاش کرلے۔ مگر ذہن پر پھر بھی کوئی تصور نہ ابھر سکے گا۔)انہوں نے کہا کہ ’’سورہ نور کی آیتِ غصِ بصر میں پردے کے احکا مات میں اللہ تعالٰی نے پہلے مردوں کو مخاطب فرمایا کہ تم پہل کرو تو میر ی یہ بندیاں تمھاری تقلید کریں گیں۔ سورہ نور اور سورہ احزاب کی آیات ہمارے دلوں پر لکھی ہونی چاہیں ۔قرآن کا مخاطب انسانی دل ہی ہے۔انہوں نےواضح کیا کہ عورت کے چہرہ ڈھانپنے پر علماء اکرام کی آراء مختلف ہیں لیکن سر اورجسم کو مکمل ڈھانپنے پر تمام علمائے اکرام سو فیصد متفق ہیں۔

 

’’عورت کے باحجاب رہنے پر اعتراض کیوں؟ اس سے کسی کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟اسکی وضاحت میں انہوں نے اپنے دورہ آذر بائیجان اور اوریا مقبول کے کالم ’’حجاب اور کارپوریٹ اخلاقیات ‘‘ کے حوالے دیئتے ہوئے کہا کہ کیا حجاب ایک مذہبی مسئلہ ہے؟ اگر یہ مذہبی مسئلہ ہوتا تو سب سے پہلے عیسائی راہبائیں اس کا نشانہ بنتی۔ لیکن انہوں نے ترک دنیا کیساتھ حجاب اختیار کیا ہے لہذا اس سے کسی کو کوئی چیلنج محسوس نہیں ہوتا مگر جب آپ دُنیا میں عملی طور پر حیا و حجاب کے کلچر کو عام کرنا چاہیں تو عالمی ٹھیکداروں کی وسیع تجارتی منڈیوں کے لئے جیلنج ہے۔جن کا سارا کاروبار ہی عورت کی بنیاد پر چلتا ہو۔( عالمی سطح پر قانون سازی میں ان کمپنیوں کا بھر پور کنٹرول ہے)عورت کے ایک ایک جسمانی عضو کی خفاظت و نکھار ، اسکی زیبائش و آرائش کے سامان کے لیے بڑے بڑے سٹورز پر چلے جایئے اور انکی اقسام گنیئے۔خواتین کے ملبوسات۔فیشن انڈسٹری ،فلم انڈسٹری،عریاں فلمیں ان سے ٹریلین ڈالرز کی امدن ۔۔۔ حجاب کلچر سے بے حیائی کے کلچر کو خطرہ ہےپھر مقابلہ تو ہوا ناں‘‘‘۔ آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ تھا ۔ بیشتر سوال، ہال میں موجود نوجوان بچیوں کی طرف سے تھے راحیل صاحبہ نےانکے تفصیل سے جواب دیئے ۔ہال میں موجود خواتین راحیل کو پہلی مرتبہ نقاب کے بغیر دیکھ کر انتہائی محبت و اپنایت کا اظہار کر رہی تھیں۔حجاب کے موضوع پران کی مدلل گفتگو نے تمام خواتین کے دل مول لئے۔ توقع ہے کہ پروگرام میں شریک باحجاب خواتین پُر اعتماد استقامت دکھائیں گیں، مگر اردادے باندھ کر کمزوری دکھانے والی بہنیں بھی عملی قدم اُٹھا ڈالیں گیں۔ انشاءاللہ۔

 

کچھ عرصہ قبل ایک نارویجن نے سوال کیا کہ باحجاب اور بے حجاب خواتین میں کیا فرق ہے؟ اُسکا خیال تھا کہ حجاب پہننے والی عورتیں زیادہ دباؤ کا شکار ہوتیں ہیں۔ چونکہ وہ اپنی شخصیت کا اظہار نہیں کر پاتیں۔ جبکہ انسانی نفسیات میں دوسرے انسانوں کے درمیان اپنے آپ کو منوانے کا قوی رحجان مو جود ہو تا ہے۔؟ میرا جواب تھا کہ یہ بات قطعی غلط ہے ۔حجاب کا مطلب عورت کی صلاحتیوں پر قدغن لگانا ہر گز نہیں جیسا کہ مغربی دُنیا میں حجاب کا عمومی تاثر دیا جاتا ہے اسلامی تاریخ میں بھی، آج بھی مسلمان عورت با حجاب رہ کر معاشرتی فلاح و معبودکے بے شمار شعبوں میں نمایاں کردار ادا کررہی ہیں۔ بلکہ حجاب عورت کو سیکھاتا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر منوائے نہ کہ اپنی نسوانی کشش کا سستہ طریقہ اختیار کرے۔باحجاب اپنی صلاحتیتوں کو منوانا با وقار بناتا ہے بےحجاب نسوانیت کی بنیاد پر شخصیت کا اظہار عورت کو بے توقیر کرتا ہے۔

 

8مارچ عالمی سطح پر منائے جانے والے ’’خواتین ڈے ‘‘ کے موقع پر ایک سروے ،جو مختلف مغربی اداروں اور کمپنیوں میں کیا گیا ہے اسکا حوالہ دیا۔ اس میں لکھا تھا کہ اعلی پوسٹ پر فائز خواتین سے لے کر عام پوسٹس تک کی خواتین، اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اپنا مقام و اہمیت بنانے کے لئے کبھی نہ کبھی نسوانی ہٹھیار کا استعمال لازمی کرتیں ہیں۔ یہی سبب ہے وہ اپنے لباس و اپنی جسمانی فٹنس پر بہت پیسہ لگاتیں ہیں کہ وہ سمجھیتں ہیں انکی پیشہ وارانہ اہلیت کیساتھ انکی جسمانی اہلیت بھی اہمیت کی حامل ہے ۔اور سروے میں لکھا تھا ہر ماہ جتنی رقم وہ اپنی زیبایش وآرئش پر استعمال کر تیں ہیں وہ مردوں کی بنسبت کئی گناہ زیادہ ہے ’’ ایساکیوں؟دراصل عورت کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ مردوں کی دُنیا میں اہلیت سے زیادہ نسوانیت کی اہمیت ہے۔ تاہم یہ بات تو قطعی ڈھکی چھپی نہیں کہ تجارتی دُنیا میں انکی شخصیت ایک اشتہار کے سوا کچھ نہیں۔

 

ایک نارویجن غیر مسلم خاتون نے مجھ سے کہاکہ ’’عورت کے جسم کا اشتہاروں میں استعمال ،اسکے لیے بہت تکلیف دہ ہے کہنے لگی مجھے ذاتی طور تو ہین محسوس ہوتی ہے اورمعاشرے پر اس کے یہ اثرات نکلتے ہیں کہ پھر مردعورت سے ہر جگہ اشتہاری توقع رکھتے ہیں۔‘‘ ایک اورملحد خاتون سے گفتگو ہو رہی تھی بتانے لگی ’’ کہ اس نے اپنی زندگی میں بغیر آستین اور کھلے گلے والا لباس کبھی استعمال نہیں کیا۔‘‘ حلانکہ وہ اتھیسٹ ہے۔ایمنسنٹی انٹر نیشنل کی نارویجن برانچ کی ممبر ہونے کیوجہ مجھے اکثر میل ملتی ہیں۔میں نے ان کی ایک میل کا حوالہ سے اسے بتایا کہ ان کے سروے کے مطابق ناروےمیں ریپ کیسیسز کا گراف بہت اوپر گیاہے ۔‘‘ہمارے پاس شارٹس پہنے گذرنے والی نوجوان لڑکیوں کی ننگی پنڈلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےبولی ’’ یہ سب اِس لباس کے کمالات ہیں۔پھر پریشانی کے عالم میں تشویش ظاہر کی کہ ان بے لگام نسلوں کا کیا بنے گا۔‘‘ اپنی فطرت پر قائم ہر عورت حیا دار ہوتی ہے چاہے وہ غیر مسلم اور ملحدہی کیوں نہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ خیر ہر جگہ ہر معاشرے کے اندر ہر وقت موجود رہتا ہے۔
مگرعالمی سطح پر یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ حجاب اب بقابلہ بے حجابی ہے اور حیا بقابلہ بے حیائی ہے۔مسلمان عورت کواپنے حق حجاب کے لیے غیر مسلم ممالک کیا اسلامی ممالک میں بھی درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ اور اس کے لئے حجاب ڈے جیسے دنوں اور ایسے پروگراموں کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔میری اپنے تحریکی بھائیوں سے بھی گذارش ہے۔ کہ ایسے پروگراموں کے اہتمام و انتظام میں ان کو بھر پور تعاون پیش کرنا چاہیے کہ سوال ان کے حرم کے تخفظ ہی کا ہے۔

فیس بک تبصرے

ناروے میں حجاب ڈے“ ایک تبصرہ

  1. بہت عمدہ لاگ ہے! اصل بات ہے کہ ایک غیر مسلم معاشرے کی حجاب کے حق میں گواہی بڑی خوش آ ئند بھی ہے اور امید افزا بھی! بہت سے افراد ان معاشروں میں رہتے ہیں مگر مصنفہ نے جس خوبی سے اپنے مشاہدات کو بلاگ کی شکل میں ڈھالاہے وہ پڑھنے والوں کو ایک خوژگوار تاثر دیتا ہے۔
    امید ہے کہ ان کی طرف سے مزید تحاریر پڑ ھنے کو ملیں گی۔

Leave a Reply