یہ تو عیاں تھا کہ اسلام پسند جماعتوں کی کامیابی دنیا بھر کے سکیولر عناصر کے لئے سخت ناپسند اور غم و غصہ کا سبب بنی ہے اور وہ اخوان المسلمون کی کامیابی کو کسی طور ہضم کرنے کوتیار نہ تھے!!! مغربی طاقتیں تو ایک طرف خود مصر کی فوج اور عدلیہ اور مغربی طاقتو ں کے زیر اثر کئی مسلم ممالک بھی اخوان دشمن مہم کے آلہ کار تھے۔۔۔
یہ محض اتفاق کیسے سمجھ لیا جائے کہ 30 جون 2012 کو جس منتخب صدر نےحلف اٹھایا ٹھیک ایک برس بعد اسی دن ایک نام نہاد فوجی انقلاب بپا کر کے اسے نظر بند کر دیا جائے ۔۔۔
اب جمہور یت کے قتل پر کسی کو کوئ تشویش نہیں۔۔۔ وہ قومیں جو جانوروں، آبی حیات اور ماحولیات کے عالمی دن مناتے نہیں تھکتیں انہیں انسانی حقوق کی پامالی نہ شام میں نظر آتی ہے نہ مصر میں نہ بنگلہ دیش میں اس لئے کہ جن کا قتل عام ہو رہا ہے وہ نہ یہودی ہیں نہ عیسائی، سو نہ اقوام متحدہ کو تشویش لاحق ہوتی نہ بان کی مون کی پیشانی پہ بل آتا ہے۔قاہرہ میں بکھرے انسانی لاشوں پہ مذمت کے لئے نہ وقت کے ناخداؤں کو نہ مسلم حکمرانوں کو لغت سے الفاظ مل پا رہے ہیں کہ اس عظیم انسانی سانحۂ پر کم از کم دو الفاظ مذمت ہی کہہ دیں۔۔۔ پاکستان الیکٹرا نک اور پرنٹ میڈیا اور مسلم حکمرانوں کے نزدیک سانحہ بنگلہ دیش وشام و برما ہوں یا سانحۂ مصر ۔۔۔ یہ انکے اندرونی معاملات ہیں جبکہ پاکستان میں ایک مسیحی بچے کے ساتھ بھی زیادتی ہو یا حدود آرڈیننس کا معاملہ ہو یا قادیانیت کے پیدا شدہ مسائل ہوں یا سزائے موت کے معاملات ۔۔۔ فوری بین الاقوامی مسائل کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔ مختاراں مائی اور ملالہ کو بین الاقوامی شخصیات قرار دے دیا جاتا ہے یہ بھی تو سب پاکستان کے خالص نجی معاملات تھے؟؟؟
قاہرہ کی گلی کوچوں میں “مذہب ” نہیں “انسانیت ” تڑپ رہی ہے کیونکہ حسنی مبارک کی باقیات اور انکے عالمی سرپرستوں نے پورا سال مصر میں اسی دن کے لئے اودھم مچائے رکھا۔ خود وکی لیکس کی دستاویزات میں امریکی سفارتکار یہ کہہ رہے تھے کہ” 82 سالہ حسنی مبارک مرتے دم تک جان نہیں چھوڑے گا اور اگر اسے دنیا سے کوچ کرنا بھی پڑا تو اپنے بیٹے جمال مبارک کے سر پر تاج رکھ کر دنیا سے رخصت ہوگا” لیکن پورا سچ بولنے کی امریکی اہلکاروں کو کم ہی توفیق ہوتی ہے جبکہ پورا سچ تو یہ تھا کہ اسلامی قوتوں کے کمزور کرنے کے اس عمل کو ہمیشہ امریکی سرپرستی حاصل رہے گی اور امریکہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے حسنی مبارک کو سالانہ ایک ارب ڈالر پیش کرتا رہا ہے۔
اقوام عالم کی تاریخ یہ بتاتی ہی کہ طاغوتی اور فرعونی قوتوں نے کبھی اپنی شکست آسانی تسلیم نہیں کی ہے اورمصر میں فوج اور عدلیہ نے اپنی مشترکہ چالبازیوں سے جو اقدامات کیے قرآن انکی تعبیر “کید الشیطان ” کے الفاظ میں کرتا ہے۔۔۔ وقت کی لوح پر یہ بھی درج ہے کہ اسلامی انقلاب اب مظاہروں، نعروں، جلسے جلوسوں سے نہیں آسکتا۔ طاغوت کے حواری اقتدار کی کنجیاں ووٹ کی طاقت کے آگے سر جھکا کر اسلامی تحریکات کے منتخب نمائندوں کے حوالے کر بھی دیتے ہیں تو ما بعد “رجوع” بھی کر لیتے ہیں اور اس میکنزم کو کنٹرول کرنے کا ہر حربہ ان کے پاس ہے۔ اخوان نے اگر 80 سالہ دور آمریت میں اگر پہلی مرتبہ 44 فیصد اکثریت پارلیمنٹ میں حاصل کی تھی تو یہ کامیابی انہیں طشتری میں رکھ کر تو پیش نہیں کردی تھی ۔۔۔ اخوان کی تشکیل کے بعد سے شاید ہی کوئی ایسا دور رہا ہو جبکہ اخوان کے سینکڑوں کارکنان اور ذمہ داران پس دیوار زنداں نہ ہوں۔۔۔کبھی تو یہ تعداد ہزاروں میں بھی رہی ہے شاہ فاروق کا زمانہ تو امام حسن البنا کے لہو کے چھینٹون سے معطر ہے۔
1952 میں جمال عبد الناصر نے مفسر قرآن سید قطب رحمۃاللہ سمیت سینکڑوں اخوانوں کو شہید اور ہزاروں کو نظر بند کیا۔ یہاں تک کہ سید قطب شہید سے ماخوذ “قطبی “کی اصطلاح رائج کی گئی ۔۔۔ کسی کو دہشتگرد کہنا ہو تو اس کے لئے قطبی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہےـ انور السادات کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سمیت اخوانیوں کو عذاب اور اذیت سے دو چار کرنے والے سب باب مصر کی تاریخ اور اخوان المسلمون کا حصہ ہیں حسنی مبارک کے تیس سالہ دور میں اخوان جبر کے کولہو میں کس کا طرح کچلے گئے؟ مگر اخوان کی تاریخ یہ ہے کہ جتنا انکو دبایا گیا اتنا ہی وہ ابھرے وقت کا جبر انکو مسلسل توانا اور مضبوط کرتا گیا اورظلم نے انکی قوت مدافعت میں اضافہ کیا۔ اخوان کی تاریخ غیرتمندوں کی تاریخ ہے۔
اخوان کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ “1973 کے آخر میں ہم گرفتار تھے۔ ہمارے درمیان ایسے ساتھی بھی تھے جو 20 20 سال سے قید میں تھے ایک روز ایک اہم سرکاری ذمہ دار فواد غلام جیل آیا ہم سب کو جیل کے صحن میں ایک درخت کے نیچے اکٹھا کیا گیا ۔۔۔ فواد نے کہا “صدر سادات آپ سب کو رہا کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اس سلسلے میں انکی مدد کریں” ہمارے ساتھ حامد النصر صاحب بھی گرفتار تھے وہ ابھی اخوان کے مرشد عام منتخب نہیں ہوئے تھے ۔ بیماری کے باعث وہ قطار کے آخر میں کرسی پہ بیٹھے تھے وہیں سے پکارے ” جناب فواد صاحب ! کیا اخوان کے کسی قیدی نے آپ سے اپنی تکلیفوں کی شکایت کی ہے؟؟؟ اخوان جیل سےنکل کر بھی اخوان ہی رہیں گے۔۔۔ جو بھی درست کام کرے گا ہم اسے ٹھیک اور جو غلط کام کرے گا اسے غلط ہی کہیں گے۔۔۔اگر اس اصول کے مطابق اخوان کو رہا کرنا چاہتے ہو تو خوش آمدید ۔۔۔ اور اگر یہ منظور نہیں تو ہم میں سے کسی نے تم سے کوئی شکایت تو نہیں کی ۔۔۔” یہ ہے اخوان کی سادہ سی تعریف جو جیل کی سختیوں میں بھی اپنے مؤقف سے دستبردار ہونے کو تیارنہیں۔
ہر دورمیں اخوان کو کچلنے اور صیہونی انتظامیہ کی خوشنودی اور اہل غزہ کو مایوس کرنے کے لئے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے گئے یہاں تک کہ اخوان کی کامیابی کے بعد سارا زور اخوان کو قدامت پسند جماعت ثابت کرنے پر لگایا گیا کہ عیسائی اقلیت اور خواتین کے حقوق کوان سے خطرہ ہے
سیکولر دماغ تو ایک ہی ہے چاہے زبان الگ الگ ہوں جو پروپیگنڈہ سیکولر حضرات پاکستان میں گاہے بگاہے کرتے ہیں کہ مذہبی جماعتیں شرعی سزاؤں کو نافذ کریں گی اور اسلامی نظام کا نفاذ اقلیتوں کےلئے ظلم ہوگا۔
مصر میں اخوان کی حالیہ آزمائش جہاں ہر درد مند دل کے لئے تکلیف و اذیت کا سبب ہے وہیں مغرب کی اسلام دشمنی کی۔ کھلی دلیل ہے کہ اخوان جنکا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اہل مغرب انھیں militants کہتے ہیں یہ اہل ایمان کی آزمائش کا وقت ہے اسلام کی تاریخ یہ ثابت کرتی کہ مسلمان بے سرو سامانی کے باوجود مخلص مومن بنکر ظلم کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کے لئے جہاد کو مشن بنا لیں تو بے سروسامانی اور ظالم کےطاقتور ہونے کےباوجود اللہ حق کو غالب کردےگا اللہ کی سنت یہی ہے اور اللہ نے باربار مومنوں کےقلیل گروہ کوکثیر گروہوں(وقت کی نیٹو پاورز) پر غالب کیا ہے اور آج بھی امریکی فرعونوں کے خلاف اگر کوئی مزاحمت ہے تو وہ مسلمانوں کی طرف سے ہے ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کا مستقبل ایک پرامن اور منصفانہ عالمی نظام یعنی اسلام ہوگا انشاء اللہ اور اس کے لئے خود کو از سر نو منظم کرنا ہوگا۔
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
فیس بک تبصرے