آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ بہت دیر تک صرف یہی سوچتی رہی کہ میں کہاں سے اور کیسے شروع کروں ؟
آج مجھے الفاظ کا چناوٴ انتہائی دشوار لگ رہا تھا شائد یہی وہ دشواری تھی جس کو ختم کرنے کے لیے ہمارا میڈیا نے دن رات ایک کیا ہوا ہے اور وہ اسی کوشش میں ہے کہ کسی کو بھی کچھ سوچنا نہ پڑے بلکہ جو جس کے جی میں آےٴ وہی کرے وہی بولے بس کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ اور ہر شخص مادر پدر آزاد ہو جاےٴ۔
آج ہمارا میڈیا ان احادیث نبوی ﷺ کی عملی تصویر بنا ہوا ہے اور
جب تم میں حیا نہ رہے تو جو تمھارے جی میں آےٴ کرو۔ ﴿بخاری،مشکواة،باب الرفیق والحیاء﴾
یعنی حیا ہی دراصل وہ رکاوٹ ہے جو انسان کو بر ے اور فحش کام کرنے سے روکتی ہے۔ میرے سامنے وہ تصویر کئی بار آئی جس میں اس وقت ًعشق ممنوع ً کے نام سے چلنے والے ترکی کے مشہور اور حیا باختہ ڈرامے کی مذمت کی گئی میں نے چونکہ ڈرامہ نہیں دیکھا اس لیے اسکے بارے میں ذیادہ معلومات نہیں تھی مگر جب میں نے اسکے بارے میں تفصیلات معلوم کیں اور جو کچھ میں نے سنا اسکو بیان کرنے کے میرے پاس الفاظ نہیں۔
کون ہے جو اس تباہی کا اندازہ لگاے جو باقائدہ پلاننگ کے ساتھ صرف ہماری نئی نسل کو ہی نہیں بلکہ ہمارے خاندانوں کو کس پستی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور اس میدان میں ہمارے اپنے میڈیا نے کیا کم کارنامے انجام دیے ہیں؟ جس نے جنس مخالف کو بس ایک جنس پر کشش بنا کر پیش کیا۔
یہ بہت پرانی بات نہیں کہ ہمارے معاشرے میں بارہ تیرہ سال کا بچہ جو اپنے سے ذرا بڑی لڑکی کو باجی اور ایک تیس سے اوپر کی خاتون کو آنٹی کی نظر سے دیکھتا اور کہتا تھا آج میڈیا اسے سکھاتا ہے کہ بڑا اور چھوٹا کچھ نہیں ہوتا عورت صرف عورت ہوتی ہے جس میں صرف کشش ہوتی ہے اسے اسی نگاہ سے دیکھو اور اس سے کسی بھی عمر میں عشق کیا جاسکتا ہے۔ باجی، بہنا، سسٹر ، آنٹی، خالہ۔۔۔ یہ سب بس القابات ہیں انکے کوئی حقیقی معنیٰ نہیں۔۔۔
مجھے اس خوفناک صورتحال کا اندازہ تب ہوا جب کچھ عرصہ پہلے مجھے سکول میں جاب کا شوق ہوا ﴿یہ کوئی گلی محلے کا اسکول نہیں بلکہ ایک منظم اور ہمارے یہاں کے ویل ایجوکیٹڈ کلاس سمجھے جانے والے ایک ادارے کا اسکول تھا﴾
میرا پہلا دن تھا کلاس دوم دی گئی تھی، بچے بچیاں سب ہی تھے سب سے تعارف ہوا جب پیریڈ ختم ہونے لگا کچھ بچے قریب آےٴ میں کاپیز چیک کرنے میں مصروف ایک آواز آئی۔۔۔ ٹیچر ۔۔۔
میں نے گردن اٹھاےٴ بغیر جواب دیا۔۔۔ جی بیٹا جان بولیے۔۔۔
مگر میرے ہاتھ سے پین گرا اور میں بہت دیر تک اسے اٹھانے کے قابل نہیں رہی۔۔۔ یہ کیا سنا تھا میرے کانوں نے ایک اور بچہ جو شاید اس بچے کے ساتھ تھا اس سے بولا۔۔۔ اوئے ہوےٴ دیکھ تجھے جان بولا ٹیچر نے۔۔۔ چل اب تو ایک پھول لا کر دے ٹیچر کو۔۔۔ دوسری جماعت کا وہ بچہ جو میرے اپنے بیٹے سے عمر میں چھوٹا اور شائد آٹھ سال کا تھا۔
ایک بار جی چاہا کہ زوردار تھپڑ لگاوٴں مگر اگلے ہی لمحے خیال آیا یہ معصوم ذہن انکا کیا قصور؟؟؟
تھپڑ کے مستحق تو وہ ماں پاب، وہ معاشرہ، وہ میڈیا ہے جس نے ان پاکیزہ اور فرشتہ صفت ذہنوں کو اسقدر پراگندہ کر دیا کہ رشتوں اور رتبوں کا تقدس سب جاتا رہا۔
مجھ میں مزید کچھ سننے کی سکت نہیں تھی۔۔۔میں دکھ اور افسوس کی کیفیت میں بریک میں بھی کلاس ہی میں بیٹھی رہی کہ اسٹاف روم جانے کی ہمت نہیں تھی ،اچانک میری نظر کھڑکی کے باہر کی جانب پڑی تو وہی بچہ ہاتھ میں پھول لیے کھڑا تھا اور اسکی دیکھا دیکھ اور کئی بچے اور بچیاں بھی ھاتھوں میں پھول لیے کلاس روم میں داخل ہوےٴ اور سب نے ٹیبل پر پھول رکھے اور کہا ۔۔ ٹیچر یہ آپ کے لیے ۔۔۔ اب وہ سب منتظر تھے کہ ٹیچر خوش ہونگی ۔ میں نے تھینکس کہا اور پڑھائی شروع کرادی۔
چھٹی ٹائم ایک بچی قریب آئی اور بڑے سلیقے سے سارے پھولوں کو سمیٹ کر گلدستہ کی شکل دے کر میرے ہاتھ میں دیتے ہوےٴ بڑے لاڈ سے بولی ٹیچر یہ لیجانا مت بھولیےگا اس کے ساتھ باقی سارے بچے بھی میرے گرد جمع ہوچکے تھے میں نے وہ گلدستہ ہاتھ میں لیا اور کھلتے ہوےٴ رنگ برنگی پھولوں کو دیکھا پھر ایک نگاہ ان معصوم پھولوں پر ڈالی جنکی معصومیت، پاکیزگی کو کس بے دردی سے کچلا جا رہا ہے اور اس گلستاں کا مالی کسقدر بے خبر ہے۔ مالی تو اپنے باغ کے ایک ایک پھول سے باخبر ہوتا ہے اور کوئی پھول ذرا وقت سے پہلے مرجھانے لگے تو مالی کی جان پر بن آتی ہے مگر میرے گلشن کا یہ کیسا مالی ہے جس کو خبر ہی نہیں کہ اس کے باغ کو کو ئی اجاڑ رہا ہے برباد کر رہا ہے۔
دل ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
﴾ ﴿سارا دل داغ داغ ہوگیا،پھاہا کہاں کہاں رکھوں
اس دن مجھے سمجھ آئی کہ میڈ یا پر ایک انجن آئل کے اشتہار سے لیکر اور ایک روپے کی ٹافی تک میں عورت کی اس نمائش اور ڈراموں میں حیا سوز منظردکھاےٴ جانے کے اس نسل پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ہم تو ابھی انھیں زخموں کو سہہ نہیں پاےٴ تھے کے یہ ایک اور کاری ضرب اس لادین میڈیا نے ًعشق ممنوعہ ً کی صورت میں ہمارے رشتوں پر لگائی۔۔۔
بخدا مجھے اس لائن سے آگے لکھنے کے لیے اپنی ساری قوت جمع کرنی پڑی کہ
چچی اور بھتیجے کا رشتہ یا میرے خدایا۔۔۔
ماں کے برابر رشتے کی ایسے آبرو ریزی۔۔۔
یعنی اب ہمارے خاندانوں کے تقدس کو اس طرح پامال کیا جائیگا؟؟؟
ایک وقت میں کئی کئی عشق کیے جانے کا سبق ۔۔۔
کم عمر اور کچے ذہنوں کو کس بری طرح دلدل کی نذر کیا جارہا ہے۔۔۔
اور میری حیرانی کی انتہا نہیں رہی جب مجھے یہ پتہ چلا کے یہ ڈرامہ اس وقت کا مقبول ترین ڈرامہ بن چکا ہےاور بہت بے غیرتی کے ساتھ وہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔ میں یہ سوچنے لگی کہ ہمارے میڈیا کو اپنی گندگی میں کمی محسوس ہوئی کہ اب ہم پر دوسروں کی گند گیوں کو بھی انڈیلا جا رہا ہے۔
مگر شائد جب تک ہم غلط باتوں کو اسی طرح ٹھنڈے پیٹوں ہضم کرتے رہیں گے یہ یلغارہم پر یوں ہی جاری رہےگی اس لیے کیونکہ ہم میں﴿ تھرڈ کلاس﴾ تیسرے درجے کا ایمان بھی نہیں رہا کہ کم از کم ہم برائی کو برائی سمجھیں بلکہ ہم تو اسکی تاویلیں تلاش کرنے لگتے ہیں، مجھے بھی ایسی تاویلیں سننے کو ملیں کہ اس ڈرامے کا انجام بہت برا دکھایا گیا ہے اور سبق آموز ہے مگر آپ یہ یاد رکھیے برائی کی تشہیر برائی کو کئی گناہ بڑھانے کا تو باعث بن سکتی ہے مگر اس میں کمی کا سبب ہرگز نہیں بن سکتی اسی لیے برائی کی تشہیر کا نہیں اس کو دبا دینے کا حکم ہے۔
رب کی وہ تنبیہ بھی یاد کر لیجیے
جو لوگ اہل ایمان میں بیحیائی کو پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ ﴿النور؛ ١۹ ﴾
اور مجھے خوفزدہ کر دیا حدیث نبوی ﷺ کے ان الفاظ نے کہ
الله تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے۔
میرا دل خوف سے ڈ وبنے لگا کہ کیا ہمارے لیے بھی فیصلہ کرد دیا گیا؟؟؟
کیا ہم پر بھی بے حیا وٴں کی مہر ثبت ہو گئی۔۔۔
اس سے آگے میں کچھ نہیں سوچ پائی۔۔۔
آپ اگر سوچ سکیں تو ضرور سوچیں اس سے پہلے کہ سوچنے کی مہلت بھی نہ ملے۔۔۔
السلام عیلکم: آپ نے آنکھیں کھول دینےوالا کالم تحریر کیا ھے اللہ تعالی آپ کو اجر عظیم عطا فرماے اور مجھے اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی
اللہ ہمارے میڈیا کو اخلاقیات کی حدود میں رہنے کی توفیق عطا کرے. میڈیا کی بے حسی کو بے نقاب کرتی اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے.
سلام
جی آ پ نے با لکل صحیح لکھا کیا کہو ں میڈ یا پہ آزادی کے نا م پہ کس کس طر ح کے ڈرامے
د کھا ئے جا رہے ہیں میں تو اس بے حیا ئی کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ایک اور
ڈرا مہ ( ملیحہ ۔ مد یحہ ) کے نا م سے ہے وہ بھی اسی طر ح کا ڈ را مہ ہے ، جس میں چھو ٹی
بہن ،بڑ ی بہن کے شو ہر کے سا تھ عشق کر رہی ہے ۔وا قعی میڈ یا بڑ ی خو بصو ر تی سے
بے حیا ئی پھیلا را ہا ہے کو ئی تو روکے ان کو۔
جب خواتیں کے اشتہار میں ایک معمولی چیز کے بارے میں ماں او ربیٹی کو دیکھا تو میرے ساتھ آفیس میں ایک بزرگ ذمہ دار نے کہا کہ میرا ایک پوتا اور پوتی کچھ دن پہلے اس اشتہار کو دیکھ رہے تھے تو چھوٹا بچہ چھوٹی بہن سے اس بارے میں استفسار کرت ہے تو بچی کے جواب سے میری بیوی (بزرگ کی بیوی) حیران رہ گئی اور اس کے بعد میں نے اپنے گھر سے کیبل کنکشن کاٹ دی۔۔
یقینا ٹی وی چیلنز کیوجہ سے اب بڑے بڑے گناہ چھوٹے نظر آنے لگے اور معمولات زندگی کاحصہ بھی۔۔۔۔
تحریر تو بہت اچھی ہے لیکن اگر ڈرامہ کے متعلق معلومات بھی اکٹھی کر لی جاتیں تو بہت اچھا ہوتا ، ڈرامہ واقعی قابل گرفت ہے ، جو کہ ترکی زبان کا ہے لیکن اردو میں اسکی ڈبنگ کی گئی ہے ، کپڑوں کے چناو سے لیکر کرداروں تک سب کے سب ہی نہ تو ہمارے معاشرے سے مطابقت رکھتے ہیں اور نہ ہی ترکی کے ۔ اس ڈرامے پر ترکی میں بھی بہت تنقید ہوئی تھی لیکن پاکستان میں لگانا سمجھ سے بالاتر ہے ، اور حیرانگی اس بات پر ہے کہ پیمرا نے آخر اس پر گرفت کیوں نہیں کی ؟ ہمارے منہ کو آخر کون لگام دے گا ؟؟
تم مولويوں کو پاکستانی برانڈ سيکولرزم يعنی رواداري قبول نہيں تھی اب مغربی برانڈ لادينيت بھگتو- جسطرح تم مولوی ضيالحق کے دور سے پاکستانی کلچر کو تباہ کرنے ميں لگے ہو اب تمہاری اپنی نسلوں کےليئے بھی صرف مغربی اور بھارتی کلچر بچا ہے- جب اپنے گھر ميں کمپرومائز کرکے کوئی حل نہيں نکالنا تو پھر باہر والوں کو ہی بھگتنا ہے- ليکن اتنی عقل تم مولويوں ميں نہيں ہے- ابھی بھی کسی خيالی ملا رياست کے خواب سجائے بيٹھے ہو جبکہ حقيقت اسکے برعکس سمت ميں بڑھ رہی ہے- ابھی بھی ملک کے لبرل طبقے سے مل کے کوئی درميانی راہ نکال لو ورنہ اتنی ذيادہ سختی کروگے تو تنہائی ميں مرو گے-
mere bahi an molvi hzrat ne he to pakistan k lye qurbanian de aj tme in molvieon se he nfrt ho rhi ha .wo or molvi hon ge jo dolat ke khatir deen ko bechte ho ge ulmae deo bnd se thalaq rkhne walon ke zra tareekh prhna tme maloom ho jae ga k ulma kne kete han .hr wo shkhs jo dari rkh le use molvi nhi kethe
یہ حکمت ملکوتی ، یہ علم لا ہوتی .
حرم کے درد کا درماں نہیں ، تو کچھ بھی نہیں .
دکھ تو یہ ہے کہ آج سفما کے سرکردہ ممبر نصرت جاوید نے باقایدہ اس گند کی حمایت میں کالم لکھا ہے اور اس کو ایک بہت ہی مشہور آرٹ کا ٹکڑا بنا کے پیش کیا ہے،مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ان لوگوں کی اپنی بیٹیاں نہیں ہوتی ہیں جن کے بارے میں انکو کبھی بھی زرا خیال آیا ہو کہ وہ کیا سوچتی یا اثر قبول کرتی ہونگی اس طرح کی حیا باختہ کرداروں کو دیکھنے پہ،میں ابھی ایک خبر پڑھ رہا تھا ایک انڈین یونیورسٹی نے لڑکوں لڑکیوں کے لیے لباس کو مناسب رکھنے کا حکم جاری کیا ہے،اور یہ وہی انڈیا ہے جس کا دیا ہوا سفما کے غدار کھاتے ہیں اس کو تو انہوں نے بلکل بھی سپورٹ نہیں کیا بلکہ گندگی پھیلانے والے ان ڈراموں کو فل سپورٹ ملی ہے،میرے ایک استاد فرمایا کرتے تھے بیٹا پورن فلموں سے زیادہ خطرناک یہ عشقیہ گانوں کی ویڈیوز ہوتی ہیں جو انسان کو تباہ برباد کر کے رکھ دیتی ہیں،یہ ڈرامے بھی اسی طرح ہمارے معاشرے پہ اثر انداز ہو رہے ہیں،کہیں سکول جانے والی لڑکی گلیوں میں عشق لڑاتی دکھای گیی ہے تو کہیں باپ بیٹا ایک ہی لڑکی سے پیار کرتے دکھاے گیے ہیں آپ میں سے کسی نے ہم ٹی وی کا ڈرامہ ‘‘محبت بھاڑ میں جاے‘‘ تو دیکھا ہوگا تو آپکو پتہ ہوگا وہ کم عمر بچیوں کے لیے کتنا خطرناک زہر ثابت ہو سکتا ہے،لیکن ایسا لگتا ہے ہم پیسہ کمانے والے مافیاز کی بست میں رہتے ہیں جہاں انصار عباسی اور قاضی حسین احمد کے علاوہ کبھی کسی کو معاشرے میں پھیلتی ہوی بے حیای نظر نہیں آتی،
محترمہ بہن اسری غوری نے ہمیشہ کی طرح ایک نہایت اہم موضوع کو چھیڑا ہے ان کے لیے دعا ہے کہ اللہ ان کی ان کوسشوں کا صلہ عطا فرمایے اور ہم انکی مزید تحریروں کے منتظر رہیں گے
جزاک اللہ
آمین
PEMRA is not meant to stop vulgarity. In fact, it is one of those institutions which are formed to protect various wrongdoings in our country in a legal way. Police to protect and promote crimes, NADRA to promote and protect illegal registrations, military to stop any positive change in the country in the name of ‘Qaumi Salamti’ etc. In the similar way, PEMRA was established to give the feelings to the nation that now this institution will take the responsibility of stopping vulgarity, however, it turned out to be the one protecting and promoting it…May Allah show us the right path…Ameen…
Well said , that’s the truth May Allah protect us all from all forms of Shiateen
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
سلام . اسریٰ باجی بھت ھی اچھا آرٹیکل تھا مجھے بھت فکر ہوتی ہے اس نوجوان نسل کی اس وقت فیس بک بہت ہی خطرناک ازدھا بنا ہوا ہے جو کے ہماری نوجوان نسل کا شباب نگل رہا ہے رات رات بھر شریف گھرانوں کی بچیاں موبائل پے نیٹ پیکج کرا کے لڑکوں سے اچھی بری باتیں کر رہی ہوتی ہیں فیس بک بند نہ کی جائے تو کم از کم اتنا ضرور ہونا چاہیے کے رات ١٢ بجے سے ٦ بجے تک اسے بند ہونا چاہیے ورنہ ہماری معصوم بہنیں یونہی تباہ ہوتی رہینگے ور اپنا شباب داغدار کرتی رہینگی
اس گندگی کے سیلاب کو روکنے کے لئے منظم اور متحد ہو کر کام کر نا ہوگا جبھی ہم اس کے + گے بند باندھ سکتے ہیں ۔
فحاشی اور عریانی کے خلاف بند تھوڑی سی انتہا پسندی کے ذریعے سے باندھا جاسکتا ہے۔
اتنے لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے جاتے ہیں اگر ان میں ایک آدھ ان چینلز کا بڑا طرم خان بھی مارا جائے تو کونسا آسمان گر پڑے گا۔۔۔
ہاں یہ خواہش تو مین نے بھی ایک کالم میں کی تھی لیکن ،ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔
میرئے خیال میں کچھ ایسا پروگرام بن جائے کہ ان گروپوں کے منتظمین کو بھی اردو بلاگز پڑھنے کی طرف راغب کیا جائے۔
میرئے کام کا link یہ ہے
http://darveshkhurasani.wordpress.com/2011/06/26/899/
desagreed with due respect brother
excellent article !! JAZAKALLAH U KHAIR….but the thing is v also hv to do something practical to save our generations from this vulgar media…n wat to complaint to dramas of other nations…this thing is now present in eveery single drama of ours…behn behn k khawand k peechay hai ya kal ki bachi bap ki umar k banday k ishq main pagal hai….n shabash to geo…they cudnt digest the rising TRP of other channel due to this drama now they r also gng to start a turkish drama
السلام علیکم !
پیمرا کیوں کر اس بے غیرتی کی آخری حد کو روکے گا؟؟ جو لوگ یہ سوچتے ہیں وہ احمقوں کی جنت سے کچھ ہی فاصلے پر ہیں ۔
یہ ہم ہیں جن کی غفلت نے معاملات کو یہاں تک لایا ہے اور یہ بھی ہم ہی ہیں جن کے بغیر ان کا سدھرنا ممکن نہیں ہے ۔
شاید کچھ عرصے بعد قوم کو طالبان کی حمایت کرنی پڑ جائے جو میڈیا پر حملوں کی بڑھکیں مارتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کب تک !!!
السلام علیکم . یہ موضوع توجہ طلب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حساس اور اہم ترین بھی ہے . آپکو دل کی گہرایوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں .
اس کے آگے اگر بند نہ باندھا گیا ،اور اسلام پسندوں کی طرف سے کوتاہی کا مسلسل عمل جاری رہا،تو الله نا کرے یہ (فخاشی و عریانی ) پوری نسل کی بربادی کا سبب بن سکتی ہے .ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم شدّت سے حرکت میں لانے کی ضرورت ہے . لکھاری بہنوں اور بھائیوں کو اس موضوع پر مستقل لکھتے رہنا ہے ، تا کہ ہلچل کے ذریعہ سے بلآخر ایک طوفان کی صورت پیدا کی جا سکے . انشااللہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر قدم بقدم آپکے ساتھ اپکا بھائی ہو گا . والسلام
شاید ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ سب سے زیادہ لرزہ خیز بات ہم لوگوں کا بحیثیتِ قوم برائ پرآنکھیں بند کر لینا یا پرواہ نہ کرنا ہے. ایسی صورت میں اللہ کا عذاب کب تک ٹل سکتا ہے. اے اللہ اپنی پکڑ سے پناہ عطا فرما. آمین ثم آمین.