امتحاں اور بھی ہیں………!!
ثریا بیگم پر ایک ہول سی سوار ہونے لگی ”پندرہ روزے گزر چکے ہیں مگر ابھی تک کوئی گہما گمی نظر نہیں آرہی………“ عید کی تیا ری تو ہر گھر میں زیر بحث ہے مگر ان کو تو اپنے نواسے سعد کی شادی کی فکر ہے جس کے لیے وہ بطور خا ص انڈیا سے کراچی آ ئی ہیں لیکن شادی کے گھر میں ایسی کوئی تیاری اور فکر نظر نہیں آ رہی ہے؟
اسی خیال میں الجھی وہ لاؤنج اور بر آ مدے سے نکل کر لان میں دا خل ہو ئیں تو ان کی نظر اپنی سمدھن زینب رشید پر پڑی وہ نماز فجر سے فارغ ہو کر ذکر و اذکار میں مصروف تھیں۔ اپنے سے کہیں نحیف اور عمر رسیدہ ہو نے کے باوجود عبادت میں ان کی مشا قی ثریا بیگم کو خفیف سی شر مندگی سے دو چار کر گئی۔ کافی دیر بعد جب زینب رشید ان کی طرف متوجہ ہوئیں تو شادی کی تیاری کی فکر کا اظہار انہوں نے ان سے بھی کیا۔ جواب میں زینب نے سرد آ ہ بھری اور کچھ دیر بعد گویا ہوئیں
’………….لگتا ہے وہی منظر ہے جو میری شادی کے وقت تھا 65سال بعد بھی جوں کے توں حالات ہیں……….“ ثریا بیگم نے استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔
……………………………………………………………………………………………………………………………………………
”…ذینب!!“ ”جی دلہن چچی!! “ وہ کمرے میں داخل ہو ئیں تو زینب اپنی کڑ ھائی شدہ کپڑے تہہ کر رہی تھی۔عید کے تیسرے دن اس کی رخصتی تھی جبکہ سال بھر پہلے اسکا نکاح اپنے چچا زاد بھائی رشید سے ہو چکا تھا انہوں نے اس کے دمکتے چہرے کودیکھا اور سوچ میں پڑ گئیں کہ اس کو کس طرح پریشانی کی خبر سنا ئی جائے؟ “
صوبہ بہار کے اس چھو ٹے سے گاؤں میں ہونے والی شادی کی تقریب خطے کے بدلتے نقشے کے باعث ایک بحران میں گھر گئی تھی۔قیام پاکستان کا اعلان ہو تے ہی فسادات شروع ہو گئے تھے جس میں خون مسلم سے ہو لی کھیلی جا رہی تھی۔باشعور اور دیندار رشید قوم کے امتحان کے اس لمحے میں، اپنی زندگی کے اس خوشگوار موڑ میں مشغول ہو نے کے بجائے قوم کے زخموں کے لئے مسیحا بنا ہوا تھا۔ اس موقع پر وہ گاؤں آ نے کے بجائے رضا کار کی حیثیت سے لاہور روانہ ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے جس کا مطلب شادی کا التوا تھا اور یہ ہی خبر جو زینب کو بتانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے اپنی دیورانی کو لگائی تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گئیں کیسے بتاؤں؟ مگر بہر حال اس بات کو معلوم ہونا ہی تھا۔اور پھر جلد ہی حالات اس نہج پرآگئے کہ شادی کے بجائے سب بچاؤ کی فکر میں لگ گئے کیونکہ یہاں بھی زبر دست فساد کی خبر گردش کر رہی تھی۔ افراتفری میں سب یہاں سے روانہ ہو گئے۔
اور پھر یہاں وہ کچھ ہوا جس پر انسانیت شر ما کر رہ گئی۔ ندی نالوں میں خون مسلم بہہ رہاتھا۔ جہاں جہاں آبادی تھی دھواں اٹھ رہا تھا۔ برسوں سے ساتھ رہنے والے پڑوسی جان،مال عزت آ برو کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ جہاں یہ صورت حال ہو وہاں بے سرو سا ما نی نظر آ تی ہے۔ کچھ دن کیمپ میں رہنے کے بعد وہ لوگ بمبئی چلے گئے تا کہ وہا ں سے پاکستان کو جا سکیں !
کراچی پہنچ کر ایک نئے ملک اور فضا میں زندگی شروع ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ اپنائیت اپنے آ بائی گھر سے زیادہ محسوس ہو تی تھی۔ برنس روڈ کا ایک فلیٹ جو کسی بھی لحاظ سے اس طرح کی رہائش کے مماثل نہ تھا جو وہ ھندوستان میں چھوڑ کر آ ئے تھے مگر بہر حال سر چھپانے کے لیے بڑا اچھا ٹھکا نہ تھا ۔تین ماہ تک وہ لوگ ایک ہندو کو کرایہ دیتے رہے اس کے بعد بلڈنگ ایک مسلمان نے خرید لی۔ ہندو یہاں سے اس اطمینان اور سکون سے گئے کہ بلب تک اتار کر لے گئے۔ یہ دیکھ کر ان سب کواپنا گاؤں سے نکلنا یاد آ جا تا! کچھ سمیٹنا تو درکنار وہ لوگ جان بچنے پر ہی شکر گذار تھے۔ اپنے لئے الگ ملک بنا نے کی سزا صرف مسلمانوں کا ہی مقسوم ٹھہری تھی!
کچھ دنوں بعد رشید بھی لاہور سے کراچی پہنچ گیا تو مختصر سے اہتمام کے ساتھ رخصتی کر دی گئی۔ سرکاری ملازمت ملنے کے چند ماہ بعد اس کی تقرری ڈھاکہ ہو گئی تھی،چنانچہ وہ زینب کو لے کر وہاں روانہ ہو گیا۔ شادی شدہ عملی زندگی اور ایک اجنبی ماحول کی زندگی میں فرق زینب اور رشید کبھی نہ کر سکے تھے کیونکہ ان دونوں نے یہ دونوں سفر ایک ساتھ ہی شروع کیے تھے! زبان اور موسم مختلف سہی مگر چونکہ رشید کا تعلق سماجی اور اصلاحی تحریکوں سے تھا لہذا ایک وسیع حلقہ احباب یہاں بھی موجود تھا جو ان دونوں خصوصا زینب کو کبھی تنہائی کا شکار نہ ہو نے دیتا تھا خواہ بیماری ہو یا کوئی اور خوشی یا غمی،ہر موقع پر کوئی نہ کوئی دلجوئی کے لیے موجود ہو تا! زندگی کے بیس سال یوں گزر گئے گویا ابھی تو آ کر ٹھہرے تھے!
اپنے حلقہ کے باہر جب لوگوں سے رابطہ ہو تا تو یہ دونوں ایک عجیب سی کیفیت سے گزرتے۔ سرکاری اور غیر بنگالی افراد کا رویہ اور رد عمل میں مقامی افراد کی آ نکھوں میں سے جھانکتی نفرتیں کسی طوفا ن کا پیش خیمہ محسوس ہو تیں۔ اور پھر واقعی وہ وقت آ گیا جس کے لیے پیشن گوئیاں کرنے کی ضرورت نہیں تھی محض ہوا کے رخ سے طوفان کی شدت کا اندازہ لگا یا جا سکتا تھا۔ اور پھر ایک سرد شام سقوط ڈھاکہ کے بعدبھائی بھائی سے جدا ہو گیا۔ خون کی ہولی ایک دفعہ پھر زینب اور اس جیسے لاکھوں لوگوں کو در بدر کر گئی اور وہ دوبارہ ہجرت کرکے کراچی پہنچ گئی۔ اکلوتا بیٹا سعید تو پہلے ہی انجینئرنگ کی تعلیم کے لیے لاہور بھجوادیا گیا تھا۔ محب پا کستانی تو اہل بنگال بھی واجب قتل ٹھہرائے گئے تھے اور رشید تو تھا بھی غیر بنگالی! گھر کا لٹنا ایک بار پھر مقدر تھا یہ اور بات کہ اب اپنے ہی کلمہ گو بھائی کے ہاتھوں تھا! وہ قید کر کے بھارت پہنچا دیا گیا۔
دو سال بعد جب وہ رہا ہوکر پاکستان پہنچا تو یہاں بنگلہ دیش نا منظور کی مہم چل رہی تھی۔ لاہور کی سڑ کیں جوان خون سے رنگین ہو رہی تھیں ان ہی میں سعید بھی تھا۔ بیٹے کو زخمی دیکھ کر اپنی رہائی کی خوشی بھی ادھوری لگی اور کیوں نہ لگتی؟پا کستان بھی تو ادھورا ہو گیا تھا! جیسے کسی ٹو ٹی ہو ئی چیز کو جوڑنے کی ناکام کوشش میں انگلیاں فگار ہوجاتی ہیں اسی طرح زینب اور رشید جیسے لاکھوں افراد زخمی زخمی تھے۔
دنیا کے بنتے بگڑ تے نقشوں کی طرح گھر اور خاندان جو سماجی اکائی ہے تبدیلی کے عمل سے گزرتا رہتاہے۔ اسی طرح سے زینب کے گھر میں بھی ایک خوشگوار تبدیلی سعید کی شادی کی صورت میں ہوتی نظر آ ئی۔ اسکی تعلیم اور پھر باعزت روزگار کے بعد اگلا مرحلہ گھر بسانے کا تھا۔ اس مقصد کے لیے نگاہ انتخاب رافعہ پر پڑی۔ بیس سالہ رافعہ ابھی کالج سے فارغ ہوئی تھی،رشتے میں زینب اور رشید کی بھانجی کی بیٹی تھی ۔ رشتے میں کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر در میان میں دو ملکوں کی سفارت حائل تھی کیونکہ رافعہ کے والدین ہندوستان میں رہتے تھے۔
بہر حال تمام سقم دور کر نے کے بعدرافعہ دلہن بن کر پاکستان آ گئی۔32سالوں کی کہانی پڑ ھنے والے محض چند سطروں میں پڑھ لیتے ہیں اور یہ کہانی زینب نے بھی چند لمحوں میں ثریا کے آ گے دہرا دی۔اس سے آگے تو وہ بھی چشم دید گواہ تھی۔
اسے اچھی طرح یاد تھا33سال پہلے جب رافعہ کے لیے پاکستان سے رشید ماموں کے بیٹے کا رشتہ آ یا تو وہ بیٹی کے جدائی کے خیال سے فورا نہ کر بیٹھی تھی مگر پھر باپ نے بلا بھیجا اور دونوں بیٹی داماد کو بٹھا کر درد مندانہ لہجے میں التجا کی کہ ہجرت نہ کر نے کے جس فیصلے پر میری نسل آ ج تک پچھتا رہی ہے قدرت تمہیں اگر موقع دے رہی ہے تو اس کو ضائع نہ کر نا میرے بچو! یوں رافعہ کے مستقبل کا فیصلہ ہوگیا۔ رافعہ کے سامنے دونوں ملکوں کی قربت اور فاصلوں کی واضح تصویر تھی لیکن اسے اپنے بزگوں کے فیصلے پر اعتماد تھا۔ والدین تو بس دکھی دل سے بیٹی کو رخصت کر رہے تھے مگر رافعہ کے لیے مشعل راہ اپنے نانا کے وہ جملے تھے جو انہوں نے بوقت رخصت اس کو گلے لگا کر کہا تھا
”…….بیٹی تم ایک آ زاد ملک کی شہری بن کر جا رہی ہو……غلامی کی ساری خو بو یہیں چھوڑ کر جانا……“
اور آ ج رافعہ کا طریقہ زندگی اور اس کے گھر کا نقشہ نانا سے کیے گئے عہد کی پاسداری کا عملی ثبوت تھے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ غلامی میں زندگی بسر کرنے والی اس کی ماں کے لیے یہ سب کچھ بہت اجنبی تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ بیٹی کو رخصت کر نے کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ وہ گاہے بہ گاہے اگر پاکستان آ تیں تو شاید اس کلچرل شاک سے محفوظ رہتیں!مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ یہاں بسنے والے تمام افراد اسی سوچ کے حامل ہیں؟ کیا ان سب کا رہن سہن ایک ہے؟ اگر یہ سب کچھ وہ دیکھ لیتیں تو ندامت کے اس گہرے احساس سے نکل آ تیں جس کا شکار وہ تھیں اور اپنے ہجرت نہ کر نے کے فیصلے کا جواز بہت اچھی طرح دے سکتیں! رافعہ نے سفر زندگی اپنے شریک زندگی اور اس کے ماضی کی روشنی میں شروع کیا تھا لہذا وہ اسی کے مطا بق طریقہ زندگی گزار رہی تھی۔ابتدا میں کچھ شوہر کی فر مانبر داری اور محبت اور اس سے بھی زیادہ نا نا جان کی بریفنگ،وہ خود بخود اس سانچے میں ڈھل گئی جس کا سعید خواہاں تھا۔
ثریا بیگم جس دن پاکستان پہنچیں اس سے اگلے روز رمضان کا آ غاز ہو گیا۔ کچھ وقت تو انہیں سیٹ ہو نے میں لگا پھر انہوں نے گھرکے معمولات میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ بڑے حیران کن شب وروز تھے سب کے! سحری اور نماز فجر کے بعد تھوڑا آ رام کر کے سب اپنے کام کو روانہ ہو جاتے۔رافعہ کام سمیٹ کر قرآن لے کر بیٹھ جاتی اور نو بجے خواتین سے لاؤنج بھر جاتا تو دورہ قرآن شروع ہوجاتا۔وہ ختم ہوتا تو ظہر کا وقت قریب ہوتا۔ خواتین رخصت ہوتیں تو رافعہ کچن کے کچھ کام نبٹا دیتی پھر آ رام کا وقت ہوتا۔اس دوران سعد اور سعید آ فس سے، سعدیہ اور یاسر یونیورسٹی سے اور ربیعہ کالج سے آ جا تے۔تین بجے کے قریب رافعہ اپنی قریبی کچی بستی روانہ ہو جاتی جہاں درس قرآن ہوتا تھا۔ پھر واپسی عصر کے وقت ہوتی۔اس کے بعد افطار کی تیاری! وہ بھی ایک عجوبہ ہی تھی ثریا بیگم کے لیے! بس کھجور اور شربت کے بعد نماز مغرب پھر فورا کھانا،اس کے بعد سب تراویح کے لئے رونہ ہوجاتے۔ رات گئے سب جمع ہوتے تو چائے اور پھل وغیرہ لیتے ساتھ خوش گپیاں بھی ہو تیں۔
ایک دو دن تو ثریا بیگم نے بر داشت کیا پھر اپنی ممتا نچھاور کر تے ہوئے بولیں کہ اپنی جان کو اتنا مت تھکاؤ!دوپہر میں تو آ رام کر لیاکرو! بالفاظ دیگر و ہ چاہ رہی تھیں کہ خاتوں خانہ بشمول بچے اور ملازمین رمضان کی روایتی تیاریوں میں مصروف ہوں اور پکوڑے سموسے اور چھولے سے دسترخوان سجے۔ رافعہ بہت پیار سے ماں سے بولی
”….اماں! وہ بیچاری غریب عورتیں اسی وقت فارغ ہوتی ہیں اور وہ سال بھر انتظار کرتی ہیں کہ ان کو روحانی غذا ملے! راشن وغیرہ بھی تقسیم کرنا ہوتا ہے۔….“
ثریابیگم چپ ہوگئیں مگر ان کے لیے حیران کن بات یہ تھی کہ ضعیف ساس بھی اس معاملے میں نہ صرف بہو کی ہمنوا ہیں بلکہ ان تمام سر گر میوں پر خوش اور تو اور بچے بھی کبھی کوئی فرمائش نہیں کرتے ماں سے! سب سے زیادہ حیرانی انہیں اپنے دامادسعید کو دیکھ کر ہوتی۔کبھی کوئی شکایت نہیں بیوی سے،الٹا ہر طرح اس کی معاونت ہوتی ہے گھر کے کاموں میں۔ ذرا بھی مر دانگی کازعم نہیں! خوش ہوں یا رنجیدہ!وہ اپنے جذبات کا درست تجزیہ کر نے سے قاصر تھیں۔
رافعہ بہر حال اپنی ماں کا اشارہ سمجھ گئیں اور اگلے دن سے روایتی افطاری کاتھوڑا بہت سامان کر نے لگیں۔ لیکن جب ثریا بیگم نے دیکھا کہ ان کے سوا کوئی بھی ان تکلفات میں نہیں پڑ تا۔سب کے پاس اپنے اپنے جواز تھے۔کسی کو ہاضمہ کا بہانہ تو کسی کووزن بڑ ھنے کی شکایت تو کسی کو تراویح میں نیندآنے کا خطرہ! لہذا انہوں نے بھی اس اہتمام کو منع کر دیا کیونکہ بہر حال غذا ان کی بھی برائے نام ہی تھی ہاں بس روزے کے ساتھ پکوڑوں کاایک زندگی بھر کا تصور تھا جو پاش پاش ہو گیا تھا۔ ان کے لیے تو سعدیہ اور ربیعہ کا طریقہ زندگی بھی بڑا شاکنگ تھا۔ زینب خالہ کی تو عمر کا تقاضہ تھا کہ وہ ذکر اللہ میں مصروف ہوں مگر جوان جہاں بچیاں بھی قال و قیل رسول اللہ ﷺ کے بغیر کوئی بات نہ کر تیں۔
دوسری عجیب مصروفیت کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر دونوں کا منہمک ہوناتھا۔ بات صرف اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی نہیں تھی،یہ تو وہاں ان کے پوتے،پوتیوں کی زندگی میں بھی جزو لا ینفک کی طرح شامل تھی مگر اس کے ذریعے سے وہ لوگ جو کچھ کر رہی تھیں وہ ایک اور دنیا تھی۔ ثریابیگم نے اس پر اپنے گھرمیں بچوں کو تعلیمی پراجیکٹ کر نے کی باز گشت سنی تھی ورنہ ڈرامے فلمیں اور گانے ہی چلتے دیکھے تھے جو ان کے تعرض کا سوچ کر ان کو دیکھتے ہی بند کر دیے جا تے مگر یہاں تو وہ دونوں ان کو متوجہ کر کے نہ جانے کہاں کہاں کے مسلمانوں کا احوال دکھاتیں۔ ایک مصری لڑ کی کے بہیمانہ قتل اور اس سے بڑھ کر وجہ قتل پر حیران تھیں۔ صرف پردہ کرنے پر؟ سعدیہ نے ان کو فلسفہ تصور اقلیت سمجھایا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئیں۔اپنی نسل نو میں گھٹتاہوا لباس اور مذہب پربڑھتی ہوئی لاپرواہی تو واقعی انڈین مسلمانوں کے لئے بھی وجہ پریشانی بنی ہوئی تھی خواہ اس کا خوبصورت نام مذہبی رواداری ہی کیوں نہ ہو؟ اسی دوران ربیعہ نے ان کو اس پروگرام کی تفصیلات بتائیں جو عید کے فورا بعد حجاب ڈے کے حوالے سے ہو نے والی تھیں اور وہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ بھائی کی شادی سے زیادہ ان لوگوں کو اس پروگرام کی فکر ہے!
ثریا بیگم ظہر کی نماز پڑھ کر لان میں آ ئیں تو آم کے پیڑ تلے کرسی بچھائے سعد اپنے کسی دوست کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ ان کے دل کی کلی کھل گئی۔ ایک تو وہ انہیں گھر میں مل گیا دوسرے یقینا اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ موضوع گفتگو شادی کی تیاریاں ہیں۔بڑے جوش سے ہاتھ ہلا رہا تھا۔
ان کو قریب آ تے دیکھ کر دونوں نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور خالی کر سی پر جگہ دی۔ ”…..اور تیاری کیسی ہو رہی ہے؟…..“ پسندیدہ ٹاپک!
”جی جی،الحمد للہ! پوری تیاری ہے!….“ سعد نے پر جوش لہجے میں کہا۔ ”…..کل یہاں سے جلوس نکلے گا اور سارے جلوس جوہر موڑ تک پہنچیں گے……..“
وہ تو اللہ بھلا کرے یاسر کا جو اسی وقت آ کر کھڑا ہوا تھا اور نانی کے ہونق چہرے کو دیکھ کر سمجھ گیا تھا کہ ان کے فہم سے بالاتر کوئی بات ہورہی ہے تو اس نے بھائی کی بات کاٹی اور کہا
.”……بھائیجان! نانو آپ کی شادی کی تیاری کی updateجاننا چاہ رہی ہیں! ناٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف مظا ہرے کی نہیں……..“ تو سعدایک دم کھسیا کر رہ گیا اور ہکلا تاہوا بولا
”…….جی! بس اگلے ہفتے اتوار بازار سے کپڑے لے لوں گا۔ باقی کچھ تحفے امی،ابو دیں گے…..ایک میٹریس بھی لینا ہے…..“
اب ہکا بکا ہونے کی باری ثریا بیگم کی تھی۔ان کو اپنے پڑوسی کے بیٹے کی پچھلے سال ہونے والی شادی یاد آ گئی جس میں صرف اس ڈیزائنر کے انتخاب پر بھی ہفتوں بحث ہوئی تھی جس سے دولہا دلہن کا ویڈنگ ڈریس ڈیزائن کر نا تھا پھر اس کے کلیکشن پر کتنی ریسرچ ہوئی تھی؟ فر نیچر سے لے کر……..اور یہاں کتنے آ رام سے بات ختم! لیکن کیا یہاں واقعی سب گھروں میں ایسا ہوتا ہے؟نہیں؟ انہیں اپنے بہت سے رشتہ داروں کی ہونے والی تقریبات کا بخوبی علم تھا یہ تو چند آ ٹے میں نمک برابر لوگ تھے جو مدینہ جیسی ریاست کا خواب دیکھتے ہی نہیں اسی کے مطابق لائف اسٹائل رکھتے تھے!ٹھیک اسی لمحے ان کو اپنے والد یاد آ گئے جو مسلمانوں کی میدان بدر سے کامیاب واپسی پر اہل مدینہ کے استقبا ل نبیﷺ کے جشن کامنظر خوشی بھرے جذ بات سے بتا یا کر تے تھے۔
چند دنوں بعد ہی چودہ اگست کا دن آ گیا۔ یوم آ زادی پاکستان! انہوں نے جو کچھ دیکھا اس پر کہیں توقعات سے زیادہ خوشی اور کہیں اندازوں کے بر عکس افسوس رہا۔ اہل ایمان کی خوشی منانے کا انداز کیسا ہونا چاہئے اور کیسا ہے؟ زینب خالہ کی گفتگو میں جوش اور ہوش دونوں کی تر جمانی تھی اس پر ان کو یکسوئی تھی اب!خواہ ذاتی ہو یا اجتماعی، کہیں بھی حد اعتدال سے تجاوز نہیں!عید کا دن مصروف گزرا۔ عجیب حال ہوگیا تھا ثریا بیگم کا! کبھی پاکستا ن ہجرت نہ کر نے پر احساس محرومی کے جذبات اور کبھی کچھ مناظرخصوصا ٹی وی اور میگزین پر نظر پڑ نے پر یا کچھ لوگوں سے مل کر نظر یہ پاکستان پر ہی دھندلاہٹ کا شکار! ان ہی کیفیات میں شادی بھی نمٹ گئی۔
انہیں پاکستان آ ئے تین ماہ ہو چکے تھے اور بالآ خر ان کی روانگی کا دن آ پہنچا۔ سب ان کوچھوڑنے ائر پورٹ جارہے تھے۔ وہ سعد کی گاڑی میں بیٹھیں جس میں اسکی بیوی سارا کے علاوہ رافعہ اور خالہ زینب بھی موجود تھیں۔ راستے میں سعدکا موبائیل بج اٹھا۔ اس نے گاڑی کنارے کر کے بات کی۔ ”…..ہاں! ہاں! ووٹرز لسٹ پر بھی کام تیز ہونا چاہئے مگر درمیان میں عیدالضحٰی کے پندرہ دن ہیں……قربانی کی کھالیں حاصل کر نا بھی تو کسی ٹسٹ کیس سے کم نہیں………….“
ثریا بیگم نے گہری سانس لی۔رافعہ کے چہرے پر تھکاوٹ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی اور پھردل میں بول اٹھیں
”……..ابھی امتحان اور بھی ہیں……..“
………………………………………………………………………………………………………………………….
فرحت طاہر .
فیس بک تبصرے