بد نظر

” ماہم، ماہم میں نے کھیر پکائی ہے ،تم آ کر پلیٹوں میں نکال دو    ” اوپر کی منزل سے آنے والی آواز بھولی بھالی لڑکی سنتی ہے اور چونک کر توجہ کرتی ہے مگر سامنے کچن میں کھڑی ماں پہلے بھنویں چڑھا کر چہرےاور ہاتھ  کی جنبش  سے نفی کا اشارہ ہے پھر بیٹی کا ہاتھ دبا کر کھلے الفاظ میں جانے سے منع کرتی ہے بیٹی گو مگو کے عالم ہے مگر دوسری آواز پر بالآخر سیڑھیاں چڑھتی ہے۔ ماں سر پکڑ کر صوفے پر ڈھیر ہوجاتی ہے۔یہ ایک گھر میں دو بھائیوں کے  خاندانوں کے معاملات پر مبنی  ڈرامہ  کا پہلا منظر ہےجس سے موضوع کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔

کسی بھی لفظ کے ساتھ  بد  جڑ جائے تو اس کے خراب ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔بد نظر اور نظر بد میں لفظی ترکیب کا فرق ہے معانی کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں ۔ ہر بد نظر انسان  دوسروں کو ملنے والی نعمتوں پر نظر بد  کا مرتکب ہوتا ہے۔ رشتہ داری ،رقابت اور جوش انتقام کی تکون پر مبنی ڈرامہ نظر بد عمومی معاشرتی کہانی ہے جس نے  ناظرین کو پوری طرح  اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔زندگی سے بھر پور ماہم باپ شفیق ،ماں نصرت اور دو بھائیوں کے ساتھ نیچے کی منزل میں رہتی ہے، اس کا عم زاد  پرویز بہنوں اور والدین سمیت اوپر رہائش پذیر ہے۔ دونوں گھروں کے مالی حالات مختلف ہونے کے باعث تقابل کی فضا موجود ہے۔ بھولی بھالی ماہم  اپنوں کے حسد کا شکار ہو کرذلت اور رسوائیاں  سمیٹتی ہے۔

سیدھی سادی  نصرت ہر حادثہ،نقصان ،نا مکمل کام اور جسمانی عوارض کو اپنی جٹھانی  کے حسد کا نتیجہ سمجھتی ہے۔بچوں کی شادی میں رکاوٹ  ہو یا مالی پریشانیاں انسانی ذہن اسباب کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔  حالانکہ ہر کام کے بنانے اور بگاڑنے میں رب العزت کی ذات کار فرما ہو تی ہے۔

بھابی حاسدانہ ،منفی  ذہنیت کی خاتون ہیں۔ حسد کا جذبہ دوسرے کو نیچا دکھانے کے موقع اور طریقے ڈھونڈتا ہے۔ حاسد اپنی زبان سے ،اپنی نظر سے ماحول اور دلوں میں زہر گھولتا ہے۔ تعلقات کا کاٹتاہے ۔مگر اس سے زیادہ نقصان خود کو پہنچاتا ہے۔جلا کر بھسم کردیتا ہے۔  اندر ہی اندر کڑھن اور جلن اس کے اعصاب پر سوار ہوکرمضمحل کردیتی ہے کسی مثبت سرگرمی  کے قابل نہیں چھوڑتی۔ سو بھابی کا کردار ایسا ہی ہے۔ پھپھو شائستہ سازش میں شریک، ڈرامہ کا حصہ ہیں ۔

حسد کسی کے پاس نعمتیں مال اور علم دیکھ کر دل میں کڑھنے کی کیفیت کا نا م ہے۔ہمارے ارد گرد عام نظر آتا ہے۔ نمود و نمائش کا پہلو بھی اس منفی جذبہ کو ابھارتا اور بھڑکاتا ہے۔ نظر بد وہ نظر ہے جس میں اللہ کا  ذکر نہ ہو۔ یہ زیادہ تر حسد  کا نتیجہ ہوتی ہے کبھی اسکے بغیر بھی لگ جاتی ہے۔ ڈرامہ کی اٹھان یہاں تک ہمارے معاشرے کی عکاس ہے ۔

آگے تائی  اپنے برے مقاصد کی تکمیل کے لیے کمرہ بند کر کے موم بتیاں جلا کر عجیب وغریب اعمال کرتی دکھائی گئی ہے۔ تو بیٹا اس سے دو ہاتھ آگے ہے۔ چچا زاد بہن سے انتقام لینے کے جادو گروں کے اڈے تک پہنچ  جاتا  ہےیوں دونوں کالا جادو کاسہارا لیتے ہیں ماہم اور اس کی ماں کی طلاقیں کسی انسانی رویہ مثلا عدم برداشت یا   ذہنی ہم آہنگی نہ ہو نے کے بجائے جادو کے زیر اثر دکھا کر معاشرہ کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے بلا شبہ  ہمارے معاشرے میں خوب سے خوب تر کی تلاش   عروج پر ہے۔   اپنے بد صورت رویوں کو حسن سیرت میں بدلنے کی کوشش خال خال ہی  نظر آتی ہے۔مگر   جادو کا استعمال ہمارے  ضعیف الاعتقاد معاشرے  میں کتنی تباہی کا سبب بنے گا؟  اس کا اندازہ کہانی نویس کو شاید نہ ہو؟

ٹی وی  سکرین پر نشریات کی ایک مقبول صنف ڈرامہ ہے جو دور رس اثرات رکھتا ہے۔ ڈرامہ نگاری  پر کئی کتابوں کے مصنف  کا کہنا ہے آج ڈرامہ عورتوں کے موضوعات پر لکھا جا رہا ہے۔  عورتوں کے لیے لکھا جارہا ہے اور  ڈررامہ دانشوروں کے بجائے تاجروں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔

کسی بھی شے کی حقیقت کو بدل دینے  یا کسی فرد کے دل و دماغ  پر کنٹرول حاصل کرنے کا نام سحر یا جادو ہے۔اگر چہ یہ ہوتا اللہ کے اذن سے ہے کہ کائنات کی کوئی بھی شے رب العزت کے قبضہ قدرت سے باہر نہیں  یہ نہ صرف  ایک گھناؤنا عمل ہے بلکہ شرک اور کفر ہے ۔ کیوں کہ اس میں اللہ کے علاوہ شیاطین ارواح اور جنوں کو مدد کے لیے پکارا  اور حاضر کیا جاتا ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے ” جس نے جادو سے کچھ بھی سیکھا تھوڑا یا زیادہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ختم ہو گیا۔ ”

رسول ﷺ نے جادو گر کی سزا قتل  قرار دی ہے کہ معاشرے میں فساد پھیلا تا ہے۔ مگرڈرامہ کی  25 قسطیں ہونے کے باوجود اس کی جانب اشارہ نہیں ملتا ۔ توھم پرست اوردین کے  علم سے نا آشنا عوام  کے ذہنوں میں  اللہ کے کارساز حقیقی ہونے کا تصور کھرچ کر مافوق الفطرت شیطانی قوتوں کی ہیبت بٹھائی جا رہی ہے ۔ صدیوں قبل بابل کے باشندوں نے ہاروت ماروت فرشتوں سے شوہر و بیوی میں تفریق کے لیے  اس حرام عمل سیکھا تھا۔ آج بھی اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ڈرامہ نظر بد  اپنے فطری انجام یعنی  تباہی ،رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ ،طلاقوں ،دیوالیہ  تک جا پہنچا ہے۔ کالے جادو کے اثرات  کرداروں مزیدکو کہاں تک متاثر کریں گے ؟ کہا نہیں جاسکتا مگر پیمرا کے بارے میں یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ مال کےشدید جادو   نے پیمرا کی بولتی بند کردی ہے جو ایک حساس موضوع  سے تجارتی انداز میں نبٹا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نگہت یاسمین

فیس بک تبصرے

Leave a Reply