”……السلام علیکم! میرے پیارے والد قاضی حسین احمد صاحب کی طرف سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو اس سے معافی کی خصو صی درخواست ہے۔ پلیز ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا ضرور کریں۔ جزاک اللہ خیر!…..سمیحہ راحیل قاضی“ یہ تھا وہ SMS جوقاضی صا حب کے انتقال کے تیس گھنٹے بعد اس وقت موصول ہوا جب کراچی کی خواتین تعزیتی جلسہ کے انتظا مات میں مصروف تھیں۔ ابھی دس روز قبل ہی تو پروفیسر غفور جدا ہوئے تھے اور اب قاضی صا حب بھی اپنے رب سے ملاقات کو روانہ ہو گئے۔لگتا ہے جماعت اسلامی کے کارکنان واقعی یتیم ہو گئے۔! …….
سمیحہ راحیل سے پہلے ان کے بھائی کی طرف سے بھی اسی قسم کی در خواست آ چکی تھی سب کے لئے۔ یہ SMSپڑھ کر رکے ہوئے آنسوایک بار پھر بہہ نکلے! نہ جانے کیوں ٹھیک اسی وقت وصیت یعقوبؑ یاد آ گئی جو انہوں نے اپنی اولاد کو کی تھی ”…..میرے بچو! اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہذا مرتے دم تک مسلم ہی رہنا۔ مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پو چھا ”….بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے؟ ان سب نے جواب دیا ”…ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے جسے آ پ نے اور آ پ کے بز رگوں ابراہیم ؑ، اسماعیلؑ اور اسحاق ؑ نے خدا ما نا ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں …“ سنت انبیاء کے پیرو کار اپنی اولادوں کو اسی طر ح وصیت کر تے ہیں اور یہ ہی کچھ اس بندہ خدا نے کیا جسے قاضی حسین احمد کے نام سے دنیاجانتی ہے! اس بات کی تصدیق سمیحہ راحیل کی آن لائن گفتگو سے ہوئی جو انہوں نے تعزیتی جلسے میں کی ”……ابونے سنت کے مطابق اپنے گھر سے تبلیغ کی ابتدا کی اور ہمیں تاکید کی جماعت سے چمٹے رہنے کی ….“ وہ کہہ رہی تھیں اور کراچی کی خواتین اشکبار آ نکھوں سے یہ سب کچھ سن رہی تھیں۔ مقر رین رندھے ہوئے لہجے میں بات کر رہی تھیں! اپنے قائدین کو خراج تحسین پیش کر رہی تھیں۔ سب کے چہرے اترے ہو ئے تھے!
جماعت کے افراد ایک خاندان کی مانند ہی تو ہیں۔ٹھیک کہا تھا دردانہ صدیقی نے! میرے برابر میں عائشہ بیٹھی تھی اور ہم دونوں مل کر ایک دوسرے سے تعزیت کر رہے تھے۔سوشل میڈیا ٹیم میں موجود اسرا نے مجھے آگے کی رو میں بیٹھا دیکھ کر اپنے پاس بلا لیا اور لیپ ٹاپ میرے آ گے کر دیا۔کام تو بہت آ سان تھامیرے لیے! تمام مقر رین کے جذبات کو الفاظ کے ایسے پیرائے میں ڈھالنا کہ لہروں پر سوار ہوکر یہ جملے ساری دنیا میں پھیل جائیں مگر میرے پاس الفاظ نہیں تھے! مجھے مناسب جملے نہیں مل رہے تھے اپنی بات پہنچانے کے لیے۔ ایسا ہی ہو تا ہے! اگر کسی گھر میں یکے بعد دیگرے کئی بزرگ عمر کی نقدی ختم کر کے واپس اپنی منزل پر پہنچ جائیں تو ان کی اولادیں الفاظ نہیں آنسوؤ ں کا نذ رانہ پیش کر تی ہیں۔امڈتے آنسو الفاظ کو گڈ مڈ کر رہے تھے اور میں یقینا اپنا کام بھر پور طریقے سے نہ کر سکی۔ صبر کے ساتھ! رب کی رضا میں ہم بھی راضی ہیں! اس موقعے پر مجھے مدینہ یاد آ جاتا ہے وہاں کیا صف ماتم بچھی ہو گی جب حضور ﷺ اس دنیا سے پرد ہ فر ماگئے تھے۔ جبھی تو عمر ؓ جیسا زیرک اور بہادر فرد بھی تلوار کھینچ کر کہہ اٹھا کہ اگر کسی نے یہ کہا تو میں اس کی زبان کھینچ لوں گا۔ محبت کا تقاضہ فطری ہے مگر ابو بکر ؓ کا طرز عمل بھی سامنے ہے۔ اسی کی تصویر بننا ہے! بار امانت کو اٹھا نا آ سان نہیں مگر روحانی بیٹیاں مر حومین کی صلبی بیٹیوں کے ساتھ عہد کر رہی تھیں اپنے عظیم قائد کے مشن کو، جو کار نبوت کا ہی سلسلہ ہے جاری رکھنے کا!
عزم نو لے کر جلسہ گاہ سے باہر نکلے تو سورج ڈھل رہا تھا۔کراچی کی پر ہجوم ٹریفک میں پھنسی خواتین اپنے گھروں کو لوٹ رہی تھیں۔بیمار، بزرگ اور معصوم بچوں کے ہمراہ رکشہ،ٹیکسی کے انتظار میں پریشان خواتین یقینا محبت اور عقیدت کے بل بوتے پر یہاں پہنچی تھیں۔ جب اس پروگرام کی اطلاع ملی تو میرے خیال سے میں ایک آدھ ساتھی کے ساتھ جاسکوں گی کیونکہ چند گھنٹے کے مارجن پر کراچی میں ایسا پروگرام اٹینڈکر لینا آسان نہیں ہوتا!مگر جذ بات کے آ گے ہر رکاوٹ ہیچ ہے،چنانچہ فون کی گھنٹیاں بجتی رہیں اور قافلے کا حجم بڑھتا گیا۔ مہر باجی اپنی لاٹھی کے ساتھ اپنے توانا جذبوں کے ساتھ سب سے آگے تھیں۔ان جیسی درجنوں بلکہ سینکڑوں کارکنان ہوں گی جنہوں نے اس موقعے پر کسی عذر کو، کسی رکاوٹ کو قبول نہ کیا ………. میں تو اس تعزیتی جلسے میں ہی کھو گئی جبکہ مجھے تو قاضی صاحب اور پروفیسر غفور کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کر نا ہے وہ بھی بہت مختصر وقت کے اندر!
وہ رات جو ویک اینڈ کی تھی۔ پورے دن بلکہ ہفتے کی تھکاوٹ کے بعد میں بے خبر سو رہی تھی کہ رات کے کسی لمحے مستقل آنے والے میسیجز کی آواز سے اٹھ ہی بیٹھی۔دیکھاتوinbox فل تھا۔گھڑی کی طرف نظر کی تو دو بجے تھے۔یا اللہ خیر! سب سے پہلے جو میسج کھولا وہ محترم قاضی صاحب کی تدفین کا وقت اور جگہ بتا رہا تھا۔ یہ کیا مذاق ہے؟ دل بہت بوجھل ہوا پھر تو تصدیق ہو گئی۔ ٹی وی آن کیا تو ہر طرف یہ ہی موضوع تھا۔ فاد خلی فی عبادی……یہ ہی کہا ہوگا نا رب کائنات نے آ پ سے! یہ تھی میری پہلی ٹوئٹ اپنے قائد کے لئے! میرا کیا تعلق ہے ان سے اور کب سے ہے؟ میں سوچ میں پڑ گئی۔
سب سے پہلے جو منظر یادوں کی اسکرین پر ابھر تا ہے وہ یونیورسٹی کاہے۔88 ء کی بات ہے!میں اپنی لیب میں داخل ہوئی تو اہل تشیع سے تعلق رکھنے والی لیب انچارج نے مجھ پر نظر پڑ تے ہی طنزا کہا ”…وہ چل رہا ہے نا محبت کا کارواں! ……“ میں شن سے ہو گئی۔ میں سمجھوں یا نہ سمجھوں لوگ تو میراتعلق انہی سے جوڑتے ہیں بس یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے پہلی دفعہ ان کو اپنا سمجھااور ان کے ہجو میں کیا گیا تبصرہ قبول کیا۔ پھر ایک اور مکالمہ یادآ تا ہے جو ان کے کسی مخالف کی طرف سے نہیں بلکہ میری ایک ایسی ساتھی کی طرف سے آ یا جنہیں خاندانی طور پر جماعتی ہو نے پر بڑا فخر تھا ”….قاضی صا حب نے اپنے بچوں کو باہر بھجوایا ہوا ہے اور یہاں لڑ کوں کا مستقبل جہاد کی وجہ سے……..“ میں کسی ایسے تعلق کی دعویدار نہ تھی مگر پھر بھی ان کی صفائی پیش کر نے لگی اور کندھے اچکا کر بول پڑی ” so what ?“ ہر فرد ہر جگہ تو نہیں کام کر سکتا یہ میری سوچ تھی جو میں زبان پر لے آ ئی! (یہ آج بھی ہوتا ہے کہ جماعت کے کارکنان اس کے”بہی خواہوں“ کے مشوروں کی روشنی میں اپنے قائدین کے کر دار کو دھندلانے لگتے ہیں۔ تنقید کر کر کے کمزور کر نے لگتے ہیں اور وہ بھی غیر متعلقہ افراد کے سامنے! اور یہ کسی دشمنی میں نہیں خیر خواہی میں ہی کر تے ہیں! شایدنادان دوستی اسی کا نام ہے(! ایک ایسا لیڈر جو ہر دو طرف سے مخالفتیں سمیٹ رہا ہو اندر اور باہر دونوں جگہ معتوب ٹھہرے،کس طرح کی الجھن کا شکار ہو سکتا ہے،یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں! مگر ایک اچھا قائد ہر طرح کا دباؤ لے کر بھی درست منزل پر نہ صر ف رواں دواں رہتا ہے بلکہ یکسوئی کے ساتھ اپنےساتھ لوگوں کو لے کر چلتا رہتا ہے جبھی تو زمانہ رو رہا ہے کہ کیسے کیسے ہیرے پابند خاک ہو گئے۔!
عائشہ منور نے کتنی اہم بات کہی تھی۔توجہ مبذول کروائی تھی کارکنان کو فخر اور اعتماد عطا کیا تھا یہ کہہ کر کہ اگر پرو فیسر غفور اتنی جدوجہد نہ کرتے آ ئین کی تشکیل کے لیے تو ہمارے لیے اسلامی اقدار پر رہنا کس قدر دشوار ہو تا؟یوں ہی تو ہر فرد ان دونوں قائدین کی موت پر ذاتی افسوس کا اظہار نہیں کر رہا۔ کارناموں کو نظر انداز کر نا ممکن ہی نہیں! قومی سطح کے کاموں میں دیانت اور شفافیت کا تاثر قائم کر نا بہت بڑے جگر کے بغیر ممکن ہی نہیں ورنہ بہت سے بڑے بڑے چہرے اور نام ذاتی اور وقتی گرداب میں پھنس کر وقار کھو بیٹھتے ہیں۔ دونوں ہی قائدین کا خلاء بہت گہرا ہے۔ اب ہم اپنے بڑے بڑے اجتماعات میں پروفیسر غفور کی غیر موجودگی کوکتنا مس کریں گے؟تبر کا ہی سہی،صرف ان کا نا م ہی حو صلہ کاباعث بن جاتا تھا!
قا ضی صاحب کو جتنا قریب سے دیکھتی گئی ان کے علم،تقوٰی اور سادگی سے اتنا ہی متائثر ہوتی گئی۔ کس قدر متحرک اور فعال تھے وہ! بائی پاس اور قاتلانہ حملوں کے باوجود کتنے پر جوش تھے وہ!ملی یکجہتی میں ان کا کر دار کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن میں تو ان کی اس سر گر می کا ذکر کروں گی جس سے میں براہ راست واقف تھی۔ جی ہاں! میڈیاکی بڑھتی ہوئی بے حیائی پر اس کے خلاف عدالت میں جانا۔! کونسل کاقیام، اور اس کے اجلاس میں شریک ہون باوجود اسکے کہ وہ میڈیا کی قباحتوں سے براہ راست متائثر نہ تھے مگر قوم کو بگاڑ سے بچانے کے لیے ااپنے معاشرتی فریضہ میں بھی وہ سر فہرست تھے۔ پیمرا کی بے حسی اور ڈھٹائی کو بے نقاب کر نے کے لئے ان کے پاس جو فائل تیار تھی اس میں مجھ سمیت ڈھیروں کارکنان شریک تھے۔ اسی سلسلے میں دو ماہ پہلے ایک قرارداد میں نے متعلقہ اداروں کو بھیجی تھی اس کی کاپی ان کوای میل کی توخیال آ یا کہ اس کی ایک کاپی ان کے پوسٹل ایڈریس پر بھی بھیج دوں۔ لفافے پر ان کا نام لکھ کر پرس میں رکھا مگر مصروفیات کے باعث وہ رکھا کا رکھا رہ گیا۔دو دن پہلے کسی کام سے پرس خالی کیا تو وہ ہاتھ میں آ گیا۔ قاضی حسین احمد کا نام لکھا دیکھ کر کیفیت بدل گئی۔ سوچنے لگی اس خط کو کہاں پوسٹ کروں؟؟ کیا آپ کے آبائی گھر جنت کو روانہ کر دوں جہاں آپ فرشتوں کے جلومیں اپنے رب کی مہر بانی کا مزہ لوٹ رہے ہوں گے ان شاء اللہ!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر کرا چی
مرد مومن مرد حق
اللہ قاضی صاحب کی قبر کو کو جنت کے باغوں سے ایک باغ بنا اور انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین آمین یا رب العالمین