گھر میں تنہا اور کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے کھانا پکانے کی مہلت نہ ملی ۔شدید بھوک کا احساس ہوتے ہی کھانے کی طرف نظر کی ۔ ڈبے میں ایک روٹی نظر آئی تو لپک کے اٹھا لی ۔سالن کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا اور بے اختیار منہ سے نکلا
“،،،کچھ بھی نہیں ہے ،،،! ٗ”
مگر یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا جب نظر سامنے پڑی اور اچار، جام ،جیلی کی بوتل نظر آئی ۔ریک پر شہد اور سر کے /ساس کے جار دھرے تھے۔ ٹوکری میں انڈے رکھے تھے ۔ گھی اور تیل بھی کاؤنٹر پر ہی تھے۔فرج کھولا تو دودھ ، مکھن ، پنیر، کریم، دہی بھی موجود تھے۔ فریزر میں کباب تھے اور شاید کسی بچے قورمے یا چکن کڑھائی کی ڈش بھی تھی۔ فروزن غذا کی بھی اچھی خاصی مقدار تھی جنہیں مائکرو ویو میں فوری طور پر ڈی فراسٹ کیا جا سکتا تھا۔ آئس کریم اور چاکلیٹ بھی نظر آئے۔ ڈبے میں کئی قسم کی رنگ برنگی سبزیاں بہار دکھا رہی تھیں ۔ آلو بھی ابالے یا تلے جا سکتے تھے ۔اناج کے حصے میں دلیہ اورکئی طرح کی دالیں موجود تھیں جو ذرا سی محنت سے پک سکتی تھیں،،،،،
لمحے بھر میں سب کچھ جائزہ لے لیا اور جملہ پورے ہونے سے پہلے ہی آنسو گالوں پر بہہ نکلے ۔میرے محمد ؐ نے کبھی دودن لگا تا ر گیہوں کی روٹی نہ کھائی اور ہم اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ذراسی کمی ہوتو کہہ بیٹھیں کہ کچھ بھی نہیں ہے ؟؟ کیا ہمیں کچھ نہ ہونے کادرست ادراک ہے ؟ دنیا کے بہترین اناج گیہوں کو کچھ نہ گردانیں ؟ بچے کھا نا دیکھتے ہی کہہ اٹھتے ہیں ” کیا یہ ہی پکا ہے ؟ مجھے نہیں کھا نا؟کچھ اور نہیں ہے ؟ ” مرد حضرات بھی زیادہ تر یہ ہی جملہ کہتے نظر آتے ہیں ” چلو یہ ہی کھالیتے ہیں شکر کر کے ” اور جس عمدہ کھانے کو معیار سے کم سمجھتےہوئے زبردستی کھا رہے ہوتے ہیں وہ شاید میرے آقا ؐ کے کئی مہینوں کی غذا کے برابر ہو ! وہاں تو کئی کئی ماہ چولہا نہیں جلتا تھا ،،،،،،،،، میں آگے نہ سوچ سکی اور آنسوؤں کو پیتے ہوئے وہ روٹی رغبت سے کھالی۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””””٭فر حت طاہر ٭””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
So true….
yes
جب بہت کچھ میسر ہو تو انسان ‘ناشکرا’ ہو جاتا ہے
جزاک اللہ توجہ دلانے کے لیے۔
well said
کاش ہم سمجھ سکیں 😓