ایدھی: خدمت کے میدان کا شہسوار۔۔۔

edhi

ایدھی علم کے نہیں عمل اور خدمت کے میدان کا شہسوار تھا۔

ایدھی کوئی مذہبی رہنما نہیں تھا، نہ فلسفی، نہ مفکر اور نہ ہی عالم یا استاد، ایدھی نے کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا، نہ وہ کسی دینی درس گاھ سے فارغ التحصیل عالم فاضل تھا، وہ کسی مکتب فکر کے بانی تھے نہ فقیہ، نہ مصنف نہ تجزیہ نگار، ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں تھا ان کی گفتگو باالعموم بے ربط ہوتی تھی۔

لہذا ان کی گفتگو کو ایک عامی کی گفتگو ہی سمجھا جائے، نہ کہ اس کی علمیت پر بحث کی جائے۔

ایدھی نے انسانیت کی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور خوب نبھایا، اس نے زندہ لاشیں بھی اٹھائیں اور مردہ لاشوں کی تدفین بھی کی، اس نے یتیموں، بیواؤں کو پالا تو کمزوروں اور ضعیفوں کو سہارا دیا، وہ ہزاروں لاوارثوں کا وارث تھا، لاکھوں کروڑوں کے لئے امید کی کرن بنا، اس کی خدمت کو ماڈل کے طور پر لے کر انسانیت کا اسی طرح احترام اور خدمت کی جائے۔

ایدھی کے خیالات یقینا پریشان تھے، جس کا جواب جہاں وہ اب جا چکا ہے وہاں خود دے گا، کچھ چیزیں اللہ پر چھوڑ دینی چاہئیں، جو منصف بھی ہے عادل بھی۔ حسیب بھی ہے، رحمان اور رحیم بھی۔

ایدھی نے زندگی کے دکھ اور الم جتنے قریب سے دیکھے تھے وہ کسی مضبوط سے مضبوط اعصاب والے کو بھی مخبوط الحواس کرنے کے لئے کافی تھے، ایدھی یہ سب کچھ دیکھ کر بھی حواس باختہ نہیں ہوا، اس نے فرار کا راستہ اختیار نہیں کیا، نہ خود کشی کی اور نہ تشدد کی راہ لی، نہ رہبانیت اپنائی اور نہ لوٹ کھسوٹ کے نظام کا حصہ بنا۔ بلکہ وہ اس پریشان خیالی کے باوجود مسائل کے حل میں جت گیا۔ خلق خدا کی جتنی خدمت ایدھی نے کی اس کی مثال ملنا مشکل ہے، اس سامنے مدر ٹریسا جیسے انسانیت کے عظیم خادم بھی بونے دکھائی دیتے ہیں اور پھر اس نے اس خدمت کے عوض کوئی صلہ نہیں مانگا، اپنے خیالات، نظریات اور مذہب کو دوسروں پر مسلط نہیں کیا۔

کچھ لوگ ہر بات، ہر کام میں صرف اور صرف منفی پہلو تلاشتے ہیں، اور ہر چیز میں دہرے معیارات رکھتے ہیں، جس معیار پر دوسروں کو پرکھتے ہیں اس کا خود پر اطلاق کریں تو پتہ چلے کون کتنا مسلمان ہے؟

ایدھی ایک عہد تھا، عہد ساز تھا، وہ انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کے لئے لائٹ ہاؤس کی طرح ہے، جس کی روشنی میں تاریک راتوں میں مسافر منزلوں کے نشان پاتے رہیں گے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply