میری پہچان

iwday

8 مارچ 1907 سے دنیا بھر میں عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے اور اب کئی سالوں سے پاکستان میں بھی عام ہورہا ہے۔ یہ سلسلہ اس مغربی معاشرے کے ایک شہر نیویارک سے شرو ع ہوا جہاں خواتین نے اپنی ملازمت کی شرائط کو بہتر بنوانے کے لئے مظاہرہ کیا، جلسے جلوس ہوئے، خواتین پر تشدد بھی ہوا اور بالآخر مطالبات مان لئے گئے اسی لئے اس دن کو اقوام متحدہ نے عالمی یوم خواتین قرار دیا اور تمام ملکوں پر یہ ایجنڈا لاگو کردیا جس کی رو سے خواتین اور مردوں میں ہر قسم کا امتیاز ختم کیا گیا۔ صرف اسے دن خواتین کے حقوق پر بات کی جاتی ہے اور سارا سال فراموش کر دیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کا مطالبہ کس سے کیا جاتا ہے اور کس لئے کیا جاتا ہے؟ ان سے جنہیں کبھی عورت کے مسائل کا سامنا نہیں پڑتا۔

کشمیر وفلسطین و افغانی و عراقی عورت پر کیا بیتی کسی کو نظر نہیں آیا۔ غزہ کی تڑپنے والی 400 خواتین حقوق نسواں کا پرچار کرنے والی خواتین کے دلوں کو نہیں جھنجھوڑ سکیں۔ فاٹا اور سوات کی مظلوم اپنے ہی وطن میں مہاجر بن گئیں۔ مظلوم، بےکس و بےبس پاکستانی عصمت مآب بیٹی عافیہ صدیقی پر کی جانے والی امریکی بربریت اور سفاکیت پر کس این جی او نے آواز اٹھائیِ! ہماری یہ توقعات اس مغربی معاشرے سے کیوں ہیں؟ جہاں عورت کی صرف ٹشو پیپر جیسی حیثیت ہے۔

اس کے بر عکس مسلمان عورت کو یہ حقوق 1436 سال پہلے مل چکے ہیں اور یہ حقوق دینے والا واحد مذہب اسلام ہے۔ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو بن مانگے حقوق دئیے اور نبی ﷺ دنیا میں آکر ان حقوق کو عملاً اپنی زندگی میں امہات المومنین، بنات اور صحابیات کو ودیت کرکے معاشرے میں خواتین کا مقام متعین کیا۔ سب سے پہلے اسلام نے عورت کو مکمل انسان تسلیم کیا۔ معاشرے کا فکری رویہ اور شعور تبدیل کرکے عورت کو عزت و احترام دیا۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت قرار دیا، نیک بیوی کو دنیا کی بہترین متاع بنایا اور ماں کے قدموں تلے جنت کا تصور دیا۔ اسلام نے بتایا کہ عورت صرف مرد کی خوشنودی کے لئے نہیں بنائی گئی بلکہ اس کی زندگی کا مقصد بھی اللہ کی اطاعت و رضا جوئی ہے۔ وہ بھی اللہ کے ہاں نیک اعمال کی بناء پر بہترین اجر کی مستحق ہے۔ اسلام نے نکاح کے لئے عورت کی رضا مندی کو اہم رکھا اور شادی کے بعد بھی والدین /بھائیوں کو بیٹی/بہن کی پشت پناہی کی تاکید کی۔ والدین کے گھر سے رخصت ہوتے وقت نکاح کے سبب اس کی تمام معاشی و سماجی ذمہ داری شوہر پر منتقل کرتے ہوئے شوہر کو بیوی کی کفالت کا ذمہ دار ٹہرایا اور مہر کو بطور نشانی لازم کردیا۔ نکاح کے ذریعے سے وجود میں آنے والی بنیادی اکائی خاندان کے لئے قرآن کریم نے مودَت اور رحمت کو بنیاد قرار دیا۔ا سلام نے عورت کی جدوجہد کا میدان خاندان کو قرار دیتے ہوئےانفردی اور معاشرتی حالات کے مطابق دیگر محاذوں پر بھی کام کی اجازت دی۔معاشرے میں عورت کی جان ،مال اور آبرو کو تحفظ عطاکیا۔معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اسے معاشرے کی تعمیر و ترقی کا اسی طرح ذمہ دار ٹہرایا جس طرح مرد کو۔

ساتویں صدی عیسوی میں نبی آخری الزماںحضرت محمد مصطفیؐ نے عورت کو حقوق ملکیت اور حقوق وراثت عطا کئے جو یورپ کی خواتین کو 17 ویں صدی عیسوی میں انتہائی جدوجہد کے بعد حاصل ہوئے۔ اسلام نے عورت کو خلع اور فسخ نکاح کے اختیارات دئیے۔ مطلقہ اور بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت دی اور اس مرحلے پر اس کی رائے کو نسبتاً ترجیح دی گئی۔ ماں کی حیثیت کو باپ کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ مرتبہ دیا۔ خواتین کو عطا کردہ حقوق کی ضمانت دی، معاشی ذمہ داری سے اسے فراغت دی نماز باجماعت، نماز جمعہ اور نماز جنازہ سے استثنا کیا، جہاد سے استثنا کیا اور گھر کی دیکھ بھال، حمل، رضاعت اور حج و عمرہ کی ادائیگی پر جہاد کے درجات ملنے کی خوشخبری سنائی، فطری مجبوریوں کے سبب عبادت سے رخصت دی اور قانونی گواہی سے بھی رخصت دی۔

عورت کو دی گئی یہ تمام رخصتیں مغربی طرز فکر میں حقوق نسواں کے حوالے سے امتیازات قرار دی جاتی ہیں۔ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نظر سے دیکھئے تو معلوم گا کہ ہمارا دین ہی ہمارا فخر ہے اور ہماری صحابیات ہماری رول ماڈلز ہیں۔ حضرت خدیجۃ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ اور دیگر صحابیات ہمارا مان ہیں۔ حضرت خدیجۃ کی زندگی کو دیکھئیے۔ آپ نے نبیؐ سے بے پناہ محبت کی، نبیؐ کی ڈھارس بنیں، اس وقت نبیؐ کا ساتھ دیا جب تمام لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا، اپنے مال سے نبیؐ کی مدد کی اور اولاد دی۔ سیرت عائیشہ پر نظر ڈالئیے جن کی علمی حیثیت عورتوں میں سب سے ذیادہ فقیہہ اور صاحبہ علم ہونے کی بناء پر بعض صحابہ کرام پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ آپ کم و بیش 200 صحابہ کرام کی استاد ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت شیریں کلام و فصیح السان تھیں۔ اور نبیؐ کے جگر کا ٹکڑا فاطمہ بنت محمدؐ، جن کا استقبال خود نبی مہربانؐ کھڑے ہوکر فرماتے، انہیں بوسہ دیتے اور خوش آمدید کہتے۔ یہ مقام اسلام نے عورت کو دیا۔ کسی دوسرے مذہب نے عورت کو اتنی آزادی نہیں دی جتنی کہ اسلام نے دی۔ اسلام ہمارا ضابطہ حیات ہےاور اسلام ہی کی وجہ سے عورت ہونا عزت ہے ذلت نہیں، نیکی ہے بدی نہیں، روشنی ہے اندھیرا نہیں۔ اسلام ہی ہے جس نے صنف نازک کو ایک طاقتور حیثیت سے نوازا۔ اسلام حقیقی طور پر طبقہ حقوق نسواں کا محسن ہے۔ آج مجھے عورت ہونے پر فخر ہے، یہی میرا امتیاز ہے اورمیری پہچان ہے۔۔۔
ڈوبنا تیری فطرت نہیں مغرب پہ نہ جا
بن کہ سورج تجھے مشرق سے ابھرنا ہوگا

فیس بک تبصرے

Leave a Reply