مسلسل انگلیوں میں ڈولتے پین کی حالت تارا کے ڈولتے دل کی عکاسی کر رہی تھی ۔ایک گھنٹہ سے وہ اپنے خیالات میں آنے والے اُتار چڑھاو کو الفاظ کے سانچے میں پرونے کی کوشش میں مگن تھی، لیکن جزبات کا اُبال اتنا زیادہ تھا کہ الفاظ کی ڈور بندھ ہی نہیں رہی تھی۔
آج کی کیا بات تھی۔۔۔ اکثر و بیشتر تارا کا یہ حال ہوتا۔۔۔ جب جب فیس بک آن کرتی۔۔۔ تو گروپس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شیئرنگ کے تیر اس کے دماغ میں پیوست ہو نے لگتے۔ حسین پریوں اور شہزادوں کی تصاویروں اور تصوراتی محبوب کی دنیا میں اُس کی عمر کی تمام لڑکیاں خوب انجوائے کرتیں لیکن تارا۔۔۔ تارا کو یہ سب کانٹوں کی مانند زخمی کرتا تھا۔
جھوٹ دکھاوا، سج دھج اُسے مطمعن نہ کر پاتے۔۔۔ وہ سوچتی کہ جب خدا نے کچھ بھی عبس نہیں بنایا تو اُس کی زندگی کی بھی کوئی تو وجہ ہوگی؟
موبائل نوٹیفیکیشن کی آواز گونجی تو تارا نے چونک کر موبائل ہاتھ میں اُٹھالیا آج کی پہلی پوسٹ پر اس کی سہیلی کا کمنٹ آیا تھا۔اگلے سیکنڈ ایک لڑکے نی کمنٹ کردیا ،اور پوسٹ پر چیٹ شروع ہوگئی ۔موضوع تھا ۔۔’’۔لڑکیاں میک اپ میں اتنا ٹائم لگاتی ہیں کہ جتنی دیر میں ایک باورچی بریانی تیار کرلیتا ہے‘‘
۔کمنٹ پہ کمنٹ آ رہے تھے ،۲۰ منٹ میں ۱۵۰ کمنٹ ہو گئے ۔تمام لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے موئقف کو زیر کرنے کو اپنا اولین فرض سمجھ کر اس میں حصہ ڈال رہے تھے ۔۔کوئی کالج میں تھا،کوئی آفس میں،کوئی گھر کے کچن میں ،تو کوئی سفر میں لیکن سب اپنے اپنے اطراف سے بے نیاز فیس بُک کی بحث میں مگن تھے ۔۔۔۔یہی سب رویے تھے جو صرف تارا محسوس کرتی ۔جب وہ کہتی کہ یہ سرد مہری قومی انسانیت کو نگل رہی ہے تو تمام سہیلیاں اس کو بقراط کی بھانجی کہہ کہہ کے چپ کرا دیتی۔۔۔
کافی دیر تارا سب کے کمنٹ پڑھتی رہی۔۔۔ پھر اسے ایک شعر یاد آیا اور تارا نے کمنٹ میں لکھ ڈالا۔۔۔ یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
واہ مس تارا۔۔۔ آپ تو چھا گئیں۔۔۔ ایک دم جوابی کمنٹ آ گیا۔۔۔ ویسے آپ سمجھانا کیا چاہتی ہیں؟ اُسی لڑکے نے دوبارہ تارا کو کمنٹ ٹیگ کیا۔
جتنے مستعد آپ فیس بُک پہ ہو، اگر اس وقت اپنی ٹیچر کی بات سُننے میں یہ محنت سرف کرو تو آپ کو زیادہ فائدہ ہوگا۔۔۔ تارا نے لڑکے کو جواب دیا۔
اوہو۔۔۔ تو آپ بھی ٹیچر ہو؟ ہائے اللہ ایک ٹیچر کیا کم تھیں کہ ایک اور ٹپک پڑیں۔۔۔ لڑکے نے پھر جوابی کمنٹ کیا۔
تارا نے سوچا اس سے بحث بیکار ہے۔۔۔ اور فیس بُک بند کر دیا۔ پھر اُٹھ کے ٹی وی لاونج میں چلی آئی۔ آج ٹی وی کے تقریباََ تمام اشتہارات ۱۴ اگست مبارک، یوم آزادی مبارک کے اعلانات سے پُر تھے۔۔۔ تھوڑی دیر بعد آزادی کی تاریخ پہ پروگرام شروع ہوگیا۔ جس کے بیک گراونڈ میں ماضی کا مشہور ترانہ بھی چل رہا تھا
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے
آزادی کے مناظر کے ساتھ چلنے والے ترانے کے الفاظ بے اختیار تارا کی زبان پر بھی رواں ہو گئے ۔قائد اعظم اور فاطمہ جناح کو ماضی کے عوام کے درمیان جوش و ولولہ سے مزَین تقریر کرتے دیکھ کر تارا کو بہت اچھا لگا ۔اس کے دل میں وطن سے محبت کے جزبات اُمنڈ نے لگے۔۔۔کچھ دیر میں پروگرام ختم ہوا تو خبریں شروع ہوگئیں جس میں سیلاب ذدگان کی کسمپرسی دیکھ کر تارا کا دل پاش پاش ہونے لگا ۔بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے بیٹھے بدحال معصوم بچے حسرت سے کیمرہ مین کو تک رہے تھے۔۔۔ بھوک چہروں پہ ناچ رہی تھی ۔پھرحکومتی وزرا کے بیانات سُنائے جانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔’’سیلاب کی روک تھام کے لئیے اقدامات کئے جائیں گے ‘‘۔وزیر نے کمیٹی ترتیب دے دی ۔۔۔۔اُف اللہ ۔۔ ان نالائقوں کو خدا سمجھے ، ابھی صرف کمیٹی ترتیب دی ہے ۔۔کام کب ہوگا؟؟ جب ؟ جب یہ بھوکے ننگے موت کے منہ میں چلے جائیں گے ؟ ۔۔تارا کی امی حکمرانوں کو لعنت ملامت کرنے لگیں ۔اور تارا نے بیزاری سے چینل ہی تبدیل کر دیا ۔اگلے چینل پر جشن آزادی کی تیاریاں دکھائی جا رہی تھیں جھنڈے اور جھنڈیوں کی بھیڑ میں خواتین و حضرات پاکستانی جھنڈے والی ٹی شرٹ اور سوٹ خرید رہے تھے ۔اس وقت تارا کو ان لوگوں کی محبت پر شک ہونے لگا ۔۔فیس بُک اور سیلفی کلچر کی خاطر شاپنگ کرنے والے خود غرض لوگوں کی نمائشی محبت سے اُسے نفرت ہونے لگی ۔۔ دل نے کہا کہ جو پیسہ صدقات یا امداد کی صورت سیلاب زدگان کی مدد میں لگنا چاہیے تھا ۔ زاتی نمود و نمائش کی نظر ہو رہا تھا ۔اور اس مرض نے قوم کے امین لوگوں کوبے حس بنا دیا ہے۔یہ سراسر وطن کی محبت کی تزلیل ہے اور اس کا سبب فیس بُک پر سیلفی کلچرہے ۔وطن سے محبت ایک مقدس جزبہ ہے ۔ یہ ہمارے رسول ﷺ کی سنت بھی ہے ۔ مکہ و کعبہ سے جو عقیدت و محبت آپ ﷺ کو تھی ،اُسی کے پیشِ نظر رب العالمین نے ’’ تحویل قبلہ ‘‘ کا حکم صادر فرمایا لیکن یہاں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ محمدﷺ نے وطنی محبت کا حق اس طرح ادا کیا کہ مکہ سے باطل نظام اُکھاڑ پھینکا اور وہاں وہاں اللہ واحدہ کی حاکمیت کا نظام قائم کرکے قیامت تک کے لئیے اس شہر کو ’’ امن کا شہر ‘‘ بنا دیا ۔آج ہمیں بھی عوام میں اسی سُنت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ سرزمینِ پاک بھی امن کا گہوارہ بن جائے۔
فیس بک تبصرے