مسلم تاریخ کا ایک اور بطل جلیل ، مرد کوہسار، مجاہد، جری، بہادر ، دلاور، دلیر، حوصلہ مند،نڈر ،شجاع، مرد میدان، عقاب کوہستان، حریت پسند، طوق غلامی کا منکر، مسلسل برسرپیکار، عزم و ہمت کی ایک لازوال رومانوی کہانی، نقیب حق، راستی کا علم بردار کہ جس کی شخصیت حکمت، دانائ، فراست، عقل مندی اور شجاعت کے جوہروں سے مزیّن، اپنے ساتھیوں کا مرکز نگاہ ، مرکز یقین، انکی محبتوں کا گہوراہ۔ الفت کا مینارہ، احترام کا استعارہ، یقین کا منبع، دو دہائی تک بلا شرکت غیر، ایک متفقہ رہنماء، تحریک آزادی و حریت کا تابندہ ستارہ، جزبہء ایثار کی لازوال داستان، اپنے فیصلوں میں کوہ گراں اور اپنی جدوجہد میں اولی العزم، حکمت و دانائ کا ایک سیل رواں – ملا محمد عمر – ہم میں نہیں۔
بقول ایک دوست کے “کچھ لوگ تھے کہ اپنی سب فوجوں، توپوں، طیاروں اور ایٹم بموں کے ساتھ بھی ایک فون کال پر ڈھیر ہو گئے ۔۔ اور ایک شخص تھا کہ خالی ہاتھ ہی زمین کے خداؤں سے لڑ گیا”۔
مجھے مرحوم کے دور اقتدار کےبہت سارے دینی و سیاسی تصورات سے شدید اختلاف رہا ہے اور ہے – سخت گیر، زبردستی مسلط کردہ اسلامی خودساختہ تصورات، خواتین کی تعلیم کو روکنا، جدید زرایع ابلاغ سے کنارہ کشی، حزب وحدت اور شمالی اتحاد سے خوں آشام تصادم وغیرہ – مگر میں امریکی استبداد کے خلاف جدوجہد میں انکا اخلاقی حامی ضرور ہوں۔
سمجھنا چاہئے کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں بہت فرق ہے – ایک سراپا جدوجہد – دوسرے کسی ظلم و زیادتی کا رد عمل یا غیر ملکی سازشوں کا شکار یا انکے ایجینٹ -اسلامی دفعات کی موجودگی میں مسلح تخریبی جدوجہد کی کوئ گنجائیش پاکستانی سرحدوں میں نہیں نکلتی – نہ ہم ان کاروائیوں کے حامی اور نہ ہی ساتھی۔
ملا عمر عزم و حوصلے کی ایک عظیم داستان ہے – امریکی حملے کے بعد اپنا سب کچھ (اپنے مہمانوں کیلئے) قربان کر دینا آسان کام نہیں تھا – زبردست کارپٹ بمباری کا مقابلہ کرنا – پہلے پیچھے ہٹنا اور پھر یہاں تک کہ فوجی لحاظ سے صف اول کی اقوام کے اتحاد کو برابری کی بنیاد پہ لا کھڑا کرنا – انکو شکست خوردہ واپس جانے پہ مجبور کر دینا – 3000 سے زائد لاشیں اور 30 ہزار سے زائد زخمیوں اور اتنے ہی زہنی مریض ان ممالک میں واپس بھجوا کر وقت کے طاغوتوں کو اپنے پیروں میں جھکا لینا اور سر عام رسواء کر دینا – ایک بڑا کارنامہ ہے- تاریخ میں جب بھی اب جدید فوجی حکمت عملی پڑھائ جاۓ گی – وہاں ناممکن ہے کہ ملا عمر کی مزاحمت کا زکر نہ ہو – انکی اسٹڑیٹیجی کی بات نہ کی جاۓ- انکے ساتھیوں کی دلیری کا تزکرہ نہ ہو- انکے ساتھیوں کی جاں فروشی اور سرعت کا زکر نہ و – آج کابل میں بیساکھیوں پہ کھڑی لرزتی کانپتی ایک امریکی حمایت یافتہ مجہول حکومت موجود ہے-جس کا اپنا مستقبل غیر ملکی ، کابل تک محدود طاقتوں پہ منحصر ہے- مرحوم کی سنہرے لفظوں میں لکھی جانے والی جدوجہد آزادی نے دنیا کو دکھا دیا کہ ایمان کیسے کامیاب ہوتا ہے اور تمام انسانی خواہشیں، زرایع اور سازشیں کیسے ناکام ہوتی ہیں- باقی رہے بس نام اللہ کا۔
انہوں نے کبھی ناموری کی زندگی نہیں گزاری – گوشہ نشینی اختیار کی، احتیاط کا دامن چھوٹنے نہیں دیا – نہ کبھی بلند و بانگ دعویٰ کیا – اپنی زمیں پہ رہے۔ وہیں جدوجہد کی، وہیں مشکلیں سہیں اور اب اسی زمین میں دفن ہو گۓ – رعب اسقدر کہ دو سال تین ماہ تک صرف نام ہی چلتا رہا – آدھے سے زائد افغانستان کو پنجہ استبداد سے آزاد کرو الیا- دنیا کی تما ٹیکںولوجی فیل اور ایمان کامیاب رہا۔
بقول رعایت اللہ فاروقی کے “وہ اپنے حصے کا کام کر بھی گئے اور منوا بھی گئے۔ وہ ایسے وقت میں دنیا سے رخصت ہوئے جب ان کا دشمن اپنی ایک لاکھ پچیس ہزار میں سے ایک لاکھ سے زائد فوج شکست کھا کر نکال چکا۔”
ہم انکی مغفرت اور بلند درجات کیلئے دعاء گو ہیں
بڑا مبارک جہاد ہے یہ، سحر کی امید رکھنا زندہ
نہ چین ظلمت کو لینے دینا، شبوں کی نیندیں اڑائے رکھنا
انااللہ وانا الیہ راجعون، کاشف بھائی نے ہم سب کے جزبات بیان کردئے ہیں۔
اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
Dhondo ge hame mulko mulko,,,
Milne k nahi nayab hain ham…
کامیابی اگر کسی چیز کا نام ہے تو اس دور میں ملا عمر، اسامہ بن لادن اور وہ تمام مجاہدین و مظلومین کو ہی حاصل ہوئی ہے جوجان کی بازی لگا چکے ہیں یا پھر زندانوں میں قید اذیتیں جھیل رہے ہیں۔ باقی سب اپنا وقت ہی ضایع کر رہے ہیں ۔
ہم بہت تیزی سے اس دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں یا تو مجاہد ہونگے یا پھر کافر۔ کوئی تیسرا درجہ نا ہوگا۔