سوشل میڈیا سمٹ: حصہ دوم

urdu-sms

پروگرام کے آغاز میں شبہ ابلاغ کے صدر جناب محمود غزنوی افتتاحی کلمات کے لیے اسٹیج پر تشریف لائے۔ ان کو دیکھتے ہی ہمارے کانوں میں راہنما، راہنما، بت شکن غزنوی، غزنوی کے نعرے گونجنے لگے۔۔۔ جی نہیں! ایسی کوئی آوازیں آڈیٹوریم میں نہیں تھیں بلکہ یہ تو آ ج سے برسوں پہلے کے انتخابی جلسوں کے مناظر تھے جو ہماری یاد داشت کی اسکرین پر چمکنے لگے تھے۔۔۔ (آرٹس لابی۔۔۔ ایڈمنسٹریشن۔۔ شعبہ حیوانات اور ادویات کا سبزہ زار!) جب ہم نے انہیں کراچی یونیورسٹی کی صدر انجمن کی حیثیت سے منتخب کروایا تھا۔۔۔ شاید ہمارا گروپ آخری تھا جو اس عہد کا گواہ ہے! ان کی قائدانہ صلاحیتیں اب پیشہ پیغمبری کی اہم ترین ذمہ داری ابلاغ پر فائز ہیں۔۔۔ کافی تسکین ملی یہ دیکھ کر۔۔۔ ورنہ حسین حقانی اور جا وید ہاشمی کی اوقات گرتے دیکھ کر ہمیں بڑا ترس آ تا تھا ان طالبعلموں کے پچھتاوے کا سوچ کر جنہوں نے ان حضرات کو ووٹ دیے ہوں گے! محمود غزنوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو کو مہنگا ، مشکل، اور ناقابل استعمال بنا دیا ہے۔ رسم الخط سے رشتہ ٹو ٹنا بڑا ہولناک ہو گا کہ ادبی ورثہ ختم ہو جائے گا۔ اردو میں چار لاکھ اصطلاحات موجود ہیں لہذا ہر علم کی تعلیم ممکن ہے مگرہم مرعو بیت کے باعث انگریزی کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔۔۔

اس سمٹ کے اسپانسرز میں شاہی سپاری بنانے والے بھی شامل ہیں۔ اس کی طرف سے غیاث الدین صاحب نے زبان اور سیاست کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ بات ان کی سچ تھی کہ زبان اور مذ ہب عوام کوبھڑکانے میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا ایک زبان کا نفاذ دشوار ہے مگر کوئی نہ کوئی طریقہ اپنانا ہو گا۔

اس کے بعد اردو پوائنٹ کی پیشکش (presentation )تھی جسے پیش کرنا تھا فوزیہ بھٹی کو! ان کا رضیہ بھٹی سے کوئی رشتہ ہے ! یہ سر گوشی ہمارے اور ملکہ افروز کے در میان ہوئی جس کا جواب ہمیں اس وقت تو نہیں مگر لنچ پر ملا تھاجب ہم کھانے کی قطار میں کھڑے تھے۔ انہوں نے بات شروع کرنے سے پہلے ہی معذرت کی کہ وہ مکمل اردو میں اپنی بات نہیں کر سکتیں کیونکہ معاملہ brought up کا ہے! اگر وہ یہ نہ بھی کہتیں توانداز واطوار انگلش میڈیم کی صریح گواہی دے رہے تھے! ان کی صاف گوئی اچھی لگی ورنہ حلیے اور گفتگو کا تضاد ہمیں الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ انہوں نے بڑے اسٹائل اور روانی سے اردو پوائنٹ کی کار کردگی بتائی اور ہم دانت کچکچا کر رہ گئے کیونکہ اردو پوائنٹ کی خبروں کا معیاراور انتخاب ہمارے ذوق پر خاصی گراں گزرتی ہیں مگر ظاہر ہے کمرشلزم کی دنیا میں ساری بات ریٹنگ کی ہوتی ہے کہ پبلک کی ڈیمانڈ یہ ہی ہے۔۔۔ میری دعا ہے کہ تری آرزو بدل جائے!اردو کے نام پر ہر بے ہودگی قابل قبول نہیں ہوسکتی!

بار کے صدر منظور حمید آرائیں نے زبان کوتعلق بنانے اورجوڑنے کا ذریعہ بنانے پر زور دیا۔ ان کامشوہ تھا کہ سوشل میڈیاکے حوالے سے اظہار رائے کی آزادی کسی کے لیے اظہار رنج نہ ہو! معلومات کو علم میں کیسے ڈھالا جائے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے پیرا میٹر بنا نے ہوں گے!

غازی صلاح الدین کا نام مہمانوں کی فہرست میں نہیں تھا مگر ان کی اگلی نشستوں میں موجودگی اس بات کی مظہر تھی کہ شرکاء کو ضرور مستفید کریں گے اور یہ ہی ہوا جب انہوں نے بڑے لطیف اندازمیں کہا کہ میرانام نہ ُچھپا تھا اورنہ ہی َچھپا تھا گویا زیر زبر پیش سے الفاظ بن جاتے ہیں۔ یہی اردو کی شان ہے جوعربی رسم الخط کا انعام ہے! اگلا شکوہ ان کا منتظمین سے سبین محمود کے حوالے سے تھا جن کا کوئی ذکراب تک کی گفتگو میں نہ ہوئی۔ اس کی وضاحت اگلے انائونسمنٹ میں ہوئی۔ غازی صاحب نے انکشاف کیا کہ ہم بے زبان لوگ ہیں! انگریزی کا معیار بھی بہت گر گیا ہے۔ (اس سے تو ہم بھی متفق ہیں )۔ انگریزی ہمارے سر کا تاج بھی ہے اور پائوں کی زنجیر بھی! دنیا کے چھوٹے چھوٹے ممالک کی اپنی زبان ہے۔ (بے چارہ پاکستان!)۔۔۔ تیس ہزار طلبہ ہوں گے جامعہ کراچی کے؟ مگر تین سو بھی کلاسک نہیں پڑھ رہے ہوں گے۔ شاید صورت حال اس سے بھی زیادہ دگر گوں ہے! ۔۔۔ویسے ہمارے خیال میں کچھ دانشور ٹی وی اسکرین پر ہی سجتے ہیں! خواندگی میں اضا فہ کیا ذہنی غلامی سے نجات کا باعث بن سکتا ہے؟ ہم سوچ میں پڑ گئے۔

سمٹ کے منتظمین میں اسد اسلم کا سیشن دلچسپ تھا جس میں انہوں نے ایک امریکی سے اردو میں انٹر ویو کیا۔ ٹھہریں ہم آ پ کو ایک نمایاں بات بتانا بھول گئے تھے۔۔۔ بائیں طرف نشست میں مہمانوں کی قطار میں یورپی نسل کا ایک آدمی لال رنگ کی دھوتی پہنے، اپنے بالوں کی پونی باندھے سب کی توجہ کا مرکز بنا ہواتھا! زبر دست تجسس تھا جو بالآ خر اس وقت ختم ہوا۔۔۔ موصوف ایلن کیسلر نسلاً امریکی مگر خانیوال کی پیدائش ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے ان کے والدین رہائش پذیر تھے۔ ان کی گفتگو آپ ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں ہم کیوں اپنے الفاظ خرچ کریں؟

بس اتنا عرض کریں گے ان کے منہ سے نستعلیق اردو سن کر دل خوش ہو گیا۔ ان کو دریافت کرنے کا سہرا ریحان اللہ والا کے سر ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ایلن کیسلر کا پاکستان سے قلبی لگائو انہیں یہاں کھینچ لا یا! پاکستان کے بارے میں ان کی پیشنگوئیاں جہاں پر مسرت اور حوصلہ افزا تھیں وہیں دل میں کچھ خوف اور وسوسے بھی پیدا ہونے لگے کیونکہ اس کے خیر خواہوں کے مقابلے میں بد خواہوں کی تعداد زیادہ بھی ہے اور منظم بھی! اللہ اسے اپنی حفظ و امان میں رکھے!

اس رنگا رنگ سیشن کے بعد ریحان اللہ والا کی پریزینٹیشن سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کے موضوع پر تھی! انہوں نے بڑی خوش آئند صورت حال دکھائی کہ ہر فرد ہماری ایک کلک پرہے! یہ اللہ والے خاصے پر اسرار ہوا کرتے ہیں! انہوں نے انٹر نیٹ کے فوائد نامی ایک کتابچہ بھی تقسیم کروایا۔ شعبہ ابلاغ کے شہید پروفیسر یاسر رضوی کے بارے میںای ک تاثراتی رپورٹ دکھائی گئی جس پر اکثریت کی آنکھ نم ہو گئی۔

اس کے بعد مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر مونس احمر کو دعوت خطاب دی گئی۔ وہ اس تقریب سے زیادہ خوش نظرنہیں آئے! معلوم نہیں یہ ان کے مزاج کا حصہ ہے یا ہنگامی طور پرلیکچر روم سے بلوانے پر بر ہم تھے(ان کے شاگرد تو یقینا خوش ہوں گے!) دراصل شیخ الجامعہ ڈاکٹر قیصر کو آنا تھا مگر اچانک میٹنگ میں جانا پڑ گیا۔ ان کے نہ آ نے کا ہمیں بہت افسوس ہوا کہ ان کو سلام کر کے دعائیں لے لیتے جیسے برسوں پہلے Bot 502کا پیپر دے کر اے گریڈ لیا تھا! ڈاکٹر مونس نے ایک عمومی سی بات کہی کہ معلومات کو علم میں منتقل کرنا از بس ضروری ہے!

اس کے ساتھ ہی نماز اور کھانے کا وقفہ تھا۔ اتنے افراد کا بیک وقت اس آ ڈی ٹوریم سے نکلنا ایک سوالیہ نشان تھا مگر شاباش ہے منتظمین پر کہ اس امتحان میں بھی کا میاب رہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مرد حضرات تو مسجد میں چلے جائیں گے اور خواتین؟ اس کا حل بھی فوراً مائیک کے ذریعے آ یا یعنی ہمیں میس میں نماز ادا کرنے کی سہولت ہے ۔ وہاں پہنچنے والوں میں ہم اولین تھے۔ پہلے آنے والوں کو جہاں کچھ مسائل ہوتے ہیں وہیں اپنی پسندیدہ جگہ حاصل کرنے کی سہولت بھی رہتی ہے۔ وہان نماز پڑھتے ہوئے ہمیں مدینہ کا سفر یاد آ گیا راستے میں جہاں نماز قصر ادا کی تھی وہ جگہ اس میس کے مماثل تھی ۔جمعہ کا دن، مدینہ کی یاد اور درود نہ پڑ ھیں! الھم۔۔۔

نماز سے فارغ ہوکر ہم، ملکہ، اسرا، اور عظمٰی باتوں میں الجھ گئے۔ یہ تو ہر جگہ، ہر وقت ہوسکتی ہیں مگر اس وقت تو ہم صرف اور صرف گپ شپ کے ایجنڈے پر تھے لہذا گفتگو کے جوہر دکھارہے تھے مگر ساتھ ساتھ انتظامات پر بھی نظر ڈال رہے تھے۔ دل ہی دل میں خوف بھی کہ اتنے زیادہ افراد کو اتنے کم وقت میں کیسے نبٹایا جائیگا؟ اور حقیقی شرکاء کو کیسے پہچانا جائے گا؟ مگر شاباش ہے کہ کوئی بد نظمی بظاہر نظر نہیں آئی( اندرون خانہ منتظمین کے تنائو کا نہیں کہہ سکتے!) نہایت اطمینان سے میزوں پر کپڑا بچھایا گیا، برتن سجائے گئے اور پھر کھانا بہت عزت سے چناگیا۔۔۔ وقت طعام بالفاظ دیگر کھانا کھلتے وقت بھی کوئی مانوس منظر نہ دکھائی دیا بلکہ نہایت تمیز سے کھانا لیا اور کھا یا گیا۔ شاید ماحول کا اثرہو۔۔۔ شکر ادا کیا کہ تعلیم یافتہ، باشعور ہونے کا ثبوت دیا گیا۔ (ہوسکتا ہے کچھ افراد کو صد مہ ہوا ہو کہ وہ تو غالب کے پرزے اڑنے کے منتظر ہوں گے اور یہاں تو سب کچھ بہت اطمینان سے ہو رہا ہے کسی بھی بھگدڑ کے بغیر!)۔ کھانا لیتے وقت ہمارا ٹکرائو فوزیہ بھٹی سے ہوا اور ہمارے نامعقول سوال کا جواب بہت سوچ کر نفی میں دیا۔ کھانا بھی بہت عمدہ اور وافرتھا بمع سویٹ ڈش! کولڈ ڈرنک بھی تھی مگر چونکہ ہم پیتے نہیں اس لیے محروم رہے! کھانے کے دوران ایک پیاری سی شخصیت فوزیہ نصیرسے تعارف ہوا ۔ بہت مختصر ملاقات بڑے گہرے روابط کی بنیاد بن گئی۔ ماہ وسال کے فاصلوں کے باوجود بہت کچھ مشترک اور اپنائیت بھرا لگا۔

فیس بک تبصرے

سوشل میڈیا سمٹ: حصہ دوم“ پر 2 تبصرے

  1. سیرحاصل تحریر، دلچسپ روداد اور خوبصورت انداز بیان۔ ہمشیرہ نے آپ سے ملاقات سے آگاہ کیا تھا، خوشی ہوئی تھی سن کر۔

  2. آپ نے سمٹ کی روداد بہت دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ پڑھ کر مزہ آیا، یادیں تازہ ہوگئیں۔
    مونس احمر صاحب سوشل میڈیا سے خاصے نالاں ہیں۔ اس کی مختلف وجوہات میں شاید ایک یہ وجہ بھی شامل رہی ہوگی کہ سوشل میڈیا (فیس بک) پر موصوف کے کرتوتوں کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چل رہی ہے، اور ان کی جانب سے طالبات کو جنسی ہراساں کیے جانے کا بھانڈا پھوڑا جا رہا ہے۔ اب ایسے بندے کو سوشل میڈیا سے چڑ نہیں ہوگی تو کیا محبت ہوگی۔ 🙂

Leave a Reply