اردو سوشل میڈیا سمٹ 2015، آخری حصّہ

urdu-sms

کھانے سے فارغ ہوکر آڈیٹوریم میں اپنی نشست پر واپس آئے۔تھوڑی دیر بعد پروگرام کا دوبارہ آ غاز ہوا۔KPFکے نائب صدر خورشید تنویر صاحب کی تقریرتھی۔انہوں نے زبان کے ضمن میں پڑھے لکھے افراد کے زیادہ ذمہ دارہونے کی ضرورت پر زوردیا۔ اس کے بعد کالم نگار، بز نس ا یڈوائزر۔۔۔ جناب کاشف حفیظ کی پریزینشیشن تھی جس نے ماحول میں شگفتگی بھر دی! دلچسپ انداز میں اتنی اہم باتیں جو بیک وقت تکلیف دہ بھی ہیں اور پر امید بھی! آ گہی تو ایسی ہی ظالم ہوتی ہے۔ آئینہ دیکھنے پر ہم قطعی شر مندہ نہیں! جو ہیں جیسے ہیں وہی نظر آ تے ہیں مگر ہمارا کوئی رول ماڈل نہیں! یہ خیال بڑا آ زردہ کرنے والا ہے! اگر اردو اٹھ گئی تو بہت بڑا ثقافتی خلاء ہو گا۔

سعد ربانی، جرنلزم کے شاگرد نے ضیاء محی الدین کی پیروڈی بیوی کیسی ہونی چاہیے ؟ سنا کر محظوظ کیا۔bbcاردو کے سربراہ عامر احمد خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ سوشل میڈیا نے ہرفرد کو براڈ کاسٹر بنادیا ہے اوریہ بی بی سی کا چوتھا پلیٹ فارم ہے۔selfie کا استعمال زبان میں داخل ہوگیا ہے۔

مکالمہ کے عنون سے ایک ٹاک شو تھا ( ٹی وی والا نہیں بلکہ نہایت مہذب انداز میں اپنے روایتی طریقے سے!)موضوع گفتگو تھا روایتی میڈیا بمقابلہ سوشل میڈیا جس کے اینکر تھے مہتاب عزیز!اس کی ویڈیو تو آپ دیکھ ہی چکے ہوں گے! اورجنہوں نے نہیں دیکھی ظاہر ہے کہ ان کو نہ دلچسپی نہ فرصت نہ ضرورت ! پھر ہم کیوں اپنے الفاظ ضائع کریں؟ ( ایک تو کی بورڈ خراب ہے،آن اسکرین کی بورڈ میں مائوس کتنی شرارت کرتا ہے! اسکے اثرات زائل کرنا گویا ایک قدم آ گے جاتے ہیں تو دو قدم پیچھے پلٹنا پڑتا ہے۔۔ دوسرا k-electricکا تاریخی کردار کہ عین گرمی کے مہینے میں اپنی سر گر میاں شروع کی ہوئی ہیں اور اس بلاگ کی تاخیر کی وجوہات میں ہماری بے ہنگم مصروفیات اور پے در پے پر وگرامز کے علاوہ یہ بھی شامل ہیں) لیکن مکالمہ کے بارے میں کچھ جملے لکھے بغیریہ بلاگ ادھورا رہے گا لہذا عرض ہے :

وسعت اللہ خان صاحب نے اپنے تیکھے انداز میں باور کروایا کہ میڈیا بھی ایک انڈسٹری ہے صابن بیچںا یا خبریں! بات ا یک ہی ہے! محمود غز نوی صاحب نے کہا کہ ہم ایک صاف ستھرا پر زہ تیار کر تے ہیں مگر معا شرے کی زنگ آلود مشین میں جا کر ناکارہ بن جاتا ہے گویا مشینری بدلے بغیر تبدیلی خواب رہے گی۔ اس مکالمے کے دیگرشرکاء میں ریاض اللہ فاروقی ،فیض اللہ اور فیصل کریم ،سما نیوز والے شامل تھے۔ ویسے نام تو مظہر عباس اوراییچ خانزادہ کے بھی بتائے گئے مگر موجود ہ نہ تھے۔ اس مکالمہ کا ماخذ یہ تھا کہ سوشل میڈیا بہت بڑی طاقت ہے۔ جہاں آپ کے پر جلیں وہاں اس طاقت کواستعمال کریں۔۔۔ (اس موقع پر ہمیں مختلف ممالک کے بلاگرزیاد آئے جو سزا کے مستحق ٹحہرے۔۔۔ اس کی وضاحت وسعت اللہ خان کے جملے سے ہوئی۔۔۔ سوشل میڈیا بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔۔۔ اس پر آپ سنسر نہیں ہوتے مگر آئینے کی طرح روشن ہوتے ہیں۔ سوال کرنے سے، ایشو کو ہائی لائٹ کر نے سے آپ کی شخصیت کا پتہ چلتاہے۔۔۔)

کچھ روہانسی گفتگو کے بعد یہ حوصلہ افزا جملہ سننے کو ملا کہ اعتدال کے رویے کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس بات پر سب متفق نظر آ ئے کہ ہم سنجیدہ گفتگو اور طنز و مزاح میں تمیز کھو چکے ہیں۔ جب گھٹیا زبان کے ساتھ ابلاغ ہورہا ہے تو زبان کون سیکھے؟ سب کا ملبہ ٹی وی اینکرزپر گررہا تھا جبکہ اینکرز کی یہ قوم تو کھمبیوں کی طرح اگے انگلش میڈیم اسکولزکی پیداوارہیں۔۔۔ گویا جو تیس سال پہلے بویا گیا تھا اس کی فصل کٹ رہی ہے! اس معاملے میں یکسوئی اور شرح صدرکے ساتھ مناسب فیصلہ سازی کی ضرورت ہے یقینا اس قسم کے summitراہ متعین کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ! یعنی گیند سوشل میڈیا کے کورٹ میں آچکی ہے کہ وہ کتنی قوت اور سر عت سے اس ایشو پر جنگل کی آگ کی طرح ذہن سازی کرواتی ہے! جی ہاں! اردو زبان کے ذریعے اپنی تہذیب کی صورت گری!

ٹھیک یہ ہی بات ڈاکٹر نعمان الحق صاحب، استاد IBAنے کہی۔ان کا خطاب پروگرام کا آخری شوتھا مگراہمیت کے لحاظ سے سر فہرست کہا جاسکتا ہے۔ ان  کی گفتگو میں اپنے علمی اور ادبی خانوادے کی جھلک نمایاں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے دھیمے مگر پر اثر انداز میں زبان کے سلسلے میں اپنے قیمتی تجربات شرکاء کو منتقل کیے! ان کا کہنا تھا کہ زیر زبر کے فرق سے الفاظ سکڑجاتے ہیں لہذا زبان کو کمزور نہ کیا جائے۔ اردو ایک لسانی، عالمی میراث ہے۔ اس کی حفاظت اور پھیلاؤ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کی وضاحت وسعت اللہ خان کے اس جملے سے ہوتی ہے کہ جتنی محنت آپ اچھی انگلش سیکھنے میں کرتے ہیں اگر اس کی آدھی بھی اچھی اردو پر صرف کریں تو انگلش خود بخود اچھی ہوجائے گی۔ زبردست اور آسان فارمولا ہے اور اگر نئی نسل ٹھان لے تواسے عام ہونے سے کوئی روک بھی نہیں سکتا جس کا ثبوت اس پروگرام کا انعقاد ہے۔

یہ بات ہم نے منتظمین کو اسٹیج پر دیکھ کر سوچی! جی ہاں! پروگرام کے اختتام پر ان کو اپنے دیدار کروانے کی دعوت دی گئی اور ہم آنکھیں پھاڑ کر اس دھان پان سی مخلوق کو دیکھ رہے تھے جوآڈیٹوریم کی سیٹوں کے درمیان اور اندر باہر اڑتی پھررہی تھی! یہ تو وہ کام تھے جو نظر آ رہے تھے ورنہ تو نہ جانے کتنے دن اور راتیں اس کام میں لگی ہوں گی! ( قائد اعظم یاد آ گئے!اگر کام کا تعلق جثے سے ہوتا تو ہمارے نواز شریف نہ کچھ کر لیتے!) دل میں دعائوں کے ساتھ ایک فخر بھرے خوشگوار تاثر ات ابھرے۔۔۔ یا اللہ! اس ایونٹ کو ارینج کرنے میں جتنی محنت ان ینگسٹرز نے کی ہے ان کو ضرور۔۔۔۔۔ ( دیکھا اپنی اوقات میں آ گئے نا کہ بات کو پر اثر بنانے کیلیے انگریزی کا سہارا۔۔۔۔ گویا بنتی نہیں بادہ و ساغر کے بغیر !۔۔۔۔اسی غلامی سے تو نکلنا ہے ) اے اللہ۔۔۔ان نوجوانوں نے اس تقریب کے انعقاد کے لیے جتنی محنت کی اس کا بہترین اجر عطا کرے !
( ہم نے تو سوچ لیا ہے آ ئندہ اپنے کسی بھی پروگرام کے لیے ایونٹ آ رگنائزر کے انتخاب پر توجہ دیں گے۔۔۔)

اسٹیج سے جب ایوارڈ کی تقسیم ہونے لگی تو ہم لفظ ایوارڈ کا متبادل اردو لفظ سوچنے لگے۔ (لیکن بات وہی ہے کہ اردو ایک مہمان نواز قوم کی زبان ہے اس لیے ہر لفظ کو اپنے اندر سمولیتی ہے اور ایوارڈ بھی ان میں سے ایک ہے!) بہترین اردوبلاگ، بہترین فیس بک صفحہ اور ٹوئٹر پر ایوارڈ دیے گئے۔ بہترین بلاگ جریدہ کو ملا۔ یقیناً اس کی کارکردگی ایسی ہوگی کہ انعام ملے۔۔۔ اختتامی کلمات کے ساتھ ہی میس میں چائے کا اعلان کیا گیا۔ اس آ فر سے فائدہ اٹھا نے کے بجائے ہم نے گھر واپسی کو تر جیح دی۔ باہر نکل کر گارڈ کو اس کا قلم شکریہ کے ساتھ واپس کیا جس کے جواب میں اس نے ہمارا کارڈ لے کر بیگ واپس کیا۔ راستے بھر ہم اس شاندار پروگرام کا سوچتے رہے کہ جن افراد نے ڈیزائن کیا اور محنتیں کیں۔۔۔ ساتھ میں یہ کہ ہم بلاگر کی فہرست میں کیسے آئے؟ اس پر تو ایک اور بلاگ بنتا ہے۔۔۔۔ان شاء اللہ آ ئندہ سہی!

ہر پروگرام پر کچھ مجموعی تاثرات، مشورے، تجاویز ذہن میں آ تی ہیں۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس پر بھی کچھ کہیں:
}ہمارے پروگرامز کی عموماً ریہرسل نہیں ہوتی۔ نہ مہلت ملتی ہے نہ توجہ دی جاتی ہے۔ ( اپنی بہن کی کہی بات یاد آ رہی ہے کہ انگلستان کی ملکہ زندہ سلامت ہے مگرہر سال ریہرسل ہوتی ہے کہ ملکہ کے انتقال کے وقت ماتمی جلوس کہاں اورکیسے نکلے گا؟ کون کون سی سوگوار دھنیں چلیں گی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ہم ٹھہرے آزاد نسل والے لوگ !ہم نے کوئی Long Live Queen یا Save the Queen کا ترانہ تھوڑی گایا ہے کہ ہم غلامی کی اس ادا کی اتباع کریں!ہم تو جہاں اور جیسے کی بنیاد پر تقریبات کامیابی سے منعقد کرتے ہیں! کمال کی ہم آ ہنگی ہے )
تفنن بر طرف۔۔۔۔

} سمٹ کے مقصد میں سوشل میڈیا پر کام کر نے والوں کے جذبات کو مہمیز کرنا تھا اور یقینا اس میں سو فی صد کامیابی رہی۔ مبارک ہو !
آئندہ اگر کچھ مخصوص معلومات کا احاطہ بھی کیا جائے تو بہتر رہے گا۔ کچھ تیکنکی، کچھ ڈیجیٹل، کچھ مسائل اور ان کا حل، کچھ روابط، موضوعات پر رہنمائی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
} اگر ممکن ہو تو خواتین کی علیحدہ نشست( مکمل نہ سہی ، ایک آدھ ہی سہی ) اس میں ان کا آپس میں تعارف اور تعلق کچھ بے تکلف ماحول میں ہو سکے۔
اگلی نشست کا انتظار شروع!

فیس بک تبصرے

اردو سوشل میڈیا سمٹ 2015، آخری حصّہ“ ایک تبصرہ

  1. آپکی حوصلہ افزائی سے بھرپور تینوں تحاریر پڑھیں اور بے حد خوشی ہوئی۔ یقینی طور یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا جس میں بہت سی چیزیں ہم سے رہ گئی یا درست طریقے سے نہ ہوسکیں۔ آپکی آراء اور تجاویز ہمارے لئے بہت قیمتی ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ آئندہ سال ہم ان چیزوں کو بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔

Leave a Reply