بندہ تقریباً قریباً عرصہ ایک سال سے سانس کے عارضہ میں مبتلا ہے۔۔۔(احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے)۔
چند دن پہلے بخار اور سانس کی تکلیف سے نیم جاں کنی کی حالت میں بھائی کی دوکان پر لیٹا تھا۔۔۔۔۔ ایک آدمی آیا ۔۔۔ سلام اور حال و احوال کے بعد کہا:
میں ’’ایکٹو‘‘ (تصدیق شدہ) سمیں فروخت کرتا ہوں۔۔۔ اگرآپ لینا چاہیں تومیں کچھ خدمت کر سکتا ہوں۔۔۔
بھائی نے اسے ’’کریدنے‘‘ کی خاطر اندر دوکان کے احاطے میں بلا لیا۔۔۔ چائے پانی سے اس کی تواضع کی اور پھر اس سے سب کچھ اگلوا لیا۔۔۔
بھائی: یار آج کل تو ویسے ہیں سمیں نہیں ملتی۔۔۔ اور تم ایکٹو سمیں بیچ رہے ہو؟
آدمی: یار یہ پاکستان ہے ہر چیز کا متبادل موجود ہے۔۔۔ یہاں جرم خود مجرم کو ڈھونڈتا ہے ۔۔۔۔ (یہ سنتے ہی میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور ہمہ تن گوش ہوا)
بھائی: کتنی کی ہے یہ سم؟ اور آپ گلی گلی محلہ محلہ جا کر بیچتے ہو کیا بچتا ہے آپ کو؟
آدمی: یار فرنچائز کی طرف سے 7500 ہزار تنخواہ اور دیگر سہولیات ہیں۔۔۔ 40 روپے کمیشن ہوتا ہے۔۔۔ ایکٹویشن کے جتنے پیسے بنالو آپ کے۔۔۔۔
بھائی: کس طرح کی ایکٹو سمیں بیچتے ہیں آپ؟ کس کے نام پر ایکٹو ہوتی ہیں۔۔۔۔؟
آدمی: یار مختلف جھگیوں اور پسماندہ علاقوں میں جا کر سستی سم کا لالچ دیتے ہیں۔۔۔ یہ مشین پاس ہے۔۔۔ انگوٹھا لگوا کر شناختی کارڈ نمبر دے کر سم کی تصدیق کر لیتے ہیں۔۔۔ پھر انہیں کوئی بہانہ مار دیتے ہیں کہ آپ کا کارڈ مسئلہ کر رہا ہے۔۔۔ آپ کا فنگر پرنٹ ٹھیک نہیں آ رہا۔۔۔ وہ ان پڑھ ہوتے ہیں انہیں کیا پتہ چلتا ہے؟
پھر ان ایکٹو سموں کا آپ کیا کرتے ہیں؟؟؟؟ میں نے درمیان میں بات کاٹ کر پوچھا۔۔۔
وہ واپس جا کر دفتر میں دے دیتے ہیں۔۔۔ اس سیل مین نے جواب دیا۔۔۔
اس کام سے آپ کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ بھائی نے پوچھا۔۔۔
آدمی نے کہا کہ فی سم سو (100) روپیہ ملتا ہے۔۔۔ میں نے کل فلاں علاقے میں 36 سمیں ایکٹو کیں۔۔۔ جن میں سے 25 دفتر واپس لے آیا۔۔۔ اچھی خاصی ’’دیہاڑی‘‘ لگ گئی تھی کل۔۔۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد میں نے پوچھا کہ پھر دفتر والے ان ایکٹو سموں کا کیا کرتے ہیں؟
پہلے تو وہ ٹال گیا۔۔۔ مگر کھانا کھانے کے دوران میں جب بھائی نے دوبارہ پوچھا تو اس نے کہا کہ
’’مولوی صاحب! آپ بھی سادہ آدمی ہو۔۔۔ اچار تو نہیں ڈالتے وہ۔۔۔ آگے سیل (فروخت) ہی کرتے ہیں۔۔۔ جرائم پیشہ گروہوں کو، بالخصوص ڈکیتی اور اغواء کاروں کو۔۔۔ نیچے سے اوپر تک کمپنی کے افسر پیسے لیتے ہیں۔۔۔ ایک سم کم سے کم لاکھ سے اوپر تک فروخت ہوتی ہے۔۔۔۔‘‘
مجھے سنتے ہی اس آدمی سے کراہت آنے لگی۔۔۔ اور میں سوچنے لگا کہ لوگ چند روپوں کی خاطر انسانیت کے کس درجے سے نیچے گر جاتے ہیں۔۔۔ اوریہ ایک کمپنی کے ایک آدمی کی کہانی ہے۔۔۔ باقی کمپنیاں اور ان کے لاکھوں کے تعداد میں پھیلے یہ ذلیل و رذیل لوگ کیا کیا گل کھلاتے ہوں گے۔۔۔۔؟
افسوس ، افسوس اور صد افسوس اس ’’بدبودار سسٹم‘‘ پر جس میں مجرم اپنی طاقت کے زور پر بچ جاتا ہے اور غریب اپنی غربت اور بے بسی کی وجہ سے پھانسی چڑھ جاتا ہے۔۔۔
فیس بک تبصرے