سال کا گرم ترین مہینہ مئی!اس میں کسی تقریب کا انعقاد اور وہ بھی دن کے اوقات میں کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیںکہلاتا !ہاں مگر دن کی طوالت کے باعث کام کے لیے وافر وقت مل جاتا ہے۔ شاید اسی لیے امتحانات اور اب انتخابات کے لیے بھی کیلنڈر کا یہ ہی حصہ پسندیدہ ٹھہرتا ہے! اور شاید یہ ہی سوچ کراردوسوشل کانفرنس کی تاریخ طے کی گئی ہو گی۔ اس کا اعلان تو بہت دن سے فیس بک پر نظر آ رہا تھا مگر ہم نے کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب تک اس کا نام لے کر نہ پکارا جائے توجہ نہیں دیتا۔ دراصل ہم آج تک اپنے آپ کو مستند بلاگرزکی فہرست میں شامل ہی نہیں کرتے! وہ تو بھلا کرے اسرٰی غوری کا جنہوں نے جانے کی بابت پوچھا اور اصرار کیا تو انکشاف ہوا کہ یہ تو سوفی صد ہماے ہی لیے ہے۔ یعنی ہم چاہے اپنے آپ کو طفل مکتب ہی سمجھیں ہیں ایک بلاگرہی! دلچسپ بات یہ کہ جب اسرٰی سے بات ہوئی اس وقت ہم بلاگنگ پر ایک ورکشاپ کروانے جارہے تھے۔ سچ ہے کہ اپنا مقام خود پہچاننے کی ضرورت ہے! نہ جانے کتنے افراد ہماے بہت بعد بلاگنگ کی دنیامیں داخل ہوئے اوربہت آ گے نکل گئے۔۔۔ بہر حال آخری دن ہم نے بھی شرکت کے لیے رجسٹریشن کرواہی لی۔ اندازہ ہوا کہ خا صی پررو نق محفل ہوگی!
8؍ مئی کی صبح ساڑھے نو بجے کے قریب شیخ زائد گیٹ سے ہم جامعہ کے اندر داخل ہوئے تو ایک خوشگواری کا احساس ہوا۔ ہمیں پیدل دیکھ کر کئی رکشے والوں نے آفر کی مگر ہم نے کوئی توجہ نہ دی۔وجہ جامعہ کے موجودہ طالبعلموں اور اسٹاف کو تو معلوم ہی ہوگی! ہاں دیگر قارئین کے لیے اطلاعاً عرض ہے کہ وہ اس کو شٹل سروس ہر گز نہ سمجھیں ،بلکہ ان رکشہ برادران کی نظر ہمارے بیگ میں رکھے والٹ پر ہوتی ہے! خیر یہ واحد وجہ نہیں تھی بلکہ اصل وجہ اس جگہ سے تعلق ہے جہاںپیدل چل کر اس فضا اور ماحول کو زیادہ سے ز یادہ اپنے اندر جذب کر سکیں!جس زمانے میں ہم یہاں پیدل مٹرگشت کیا کرتے تھے اسوقت فاصلوں کو ناپنے کے لیے قدم کاپیمانہ استعمال ہوتا تھا! اپنے شعبے سے لائبریری کتنے قدم ہیں؟ کیفے ٹیریا سے ٹرمینل ، ۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔آہ! اب تو گھڑیاں دیکھ کر چلتے ہیں۔۔۔کتنے منٹ لگیں گے؟ْ؟ وقت سب کچھ بدل دیتاہے! نہ فرصت ہے نہ اسٹمنا، مگر پھربھی پیدل ہی روانہ ہوئے۔
چند قدم ہی چلیں ہوں گے کہ سامنے دکانیںنظر آ گئیںجنہیں دیکھ کر ہمیں کئی چیزیں لینی یاد آگئیں۔ وہاں سے نکلے تو سامنے ایک گاڑی آرکی لفٹ دینے کے لیے۔ شناسائی تو نہیں تھی مگرلگاکہ خاتون روزیہ نیکی کرتی ہیں۔ان کارخ بھی وہیں تھایعنی ٹرمینل کی طرف!ارم نام تھا ان کا اور اپنی بیٹی کو شعبہ ماحولیات میں چھوڑنے جارہی تھیں ۔اسے زیادہ گفتگو ممکن نہیں تھی کیونکہ ہماری منزل آ گئی تھی۔
ایچ ای جے جہاں ہم روزکی بنیادپر جایا کرتے تھے خاصہ تبدیل نظر آیا۔ ہدایات کے مطابق گیٹ 4 پر پہنچے تو کسی فلم کے کھڑکی توڑبکنگ کا سا منظر دکھائی دیا۔گیٹ کے نگہبان اپنے مداحوں میں گھرے ہوئے تھے۔ دیگرافراد چونکہ گروپ میںتھے لہذا پر لطف موڈ میں تھے۔ہم اکیلے ہونے کے باعث ذرا زیادہ ہونق محسوس ہورہے تھے۔ اسرٰی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اتنا شورتھاکہ آواز سننا اور سمجھنا ناممکن! خیر ہمنے اپنی انٹری کسی نہ کسی طور کرواہی لی! پیپر پر بھی اور لیپ ٹاپ میں بھی۔نتیجے میں ہمیں ایک کارڈعنایت ہوا مگریہ انٹری کارڈ ہر گز نہیںتھا بلکہ یہ ہمارے بیگ کا زر ضمانت سمجھ لیں! جی ہاں!سب کے بیگ رکھوائے جارہے تھے۔اور مجمع لگنے کی وجہ بھی شایدیہ ہی تھی! سیکورٹی گارڈز کا بیگ چھوڑنے پر اصرار اور خواتین کاحتجاج!کیا نکالیں اور کیا چھوڑیںبیگ میں؟ ایک عجیب شش و پنج والا معاملہ تھا۔ دل پر پتھر رکھ کر بیگ حوالے کیامگر بعد میں خیال آیا کہ قلم تو نکالے ہی نہیں !گارڈ نے بیگ میں سے قلم نکالنے کے ہمارے مطالبے پر اپنی جیب سے نکال کر دے دیا!ااس سے اس کی مصروفیت کااندازہ لگایا جا سکتاہے! خیر کسی نہ کسی طرح نبٹے اور اندر داخل ہوئے۔
لگتا تھا ایک نئی دنیاہے! خوبصورت،صاف ستھرا اور پر فضا! ہم ذہن میں اس جگہ کا تصور اپنے زمانے سے کرنے لگے۔ قدرتی خوبصورت ماحول تو شاید پہلے بھی ہوگا مگر اب حضرت انسان کی توجہ، محنت اورسر مایہ کاری کا منہ بولتا ثبوت نظر آرہا تھا۔ جمعہ ہونے کے باعث گھر سے سورہ کہف پڑھ کر نکلے تھے اس کامفہو م ذہن میں تھا! اپنا تعلق اس بدلی ہوئی دنیا میں انہی اصحاب سے جوڑنے کودل چاہا۔۔۔ آ ڈیٹوریم میں داخل ہونے کے بعد پھر اپنا نام، موبائیل نمبر اور تقریب میں حیثیت نوٹ کروائی۔ استقبالیہ پر مامور طالبہ نے ہمارا تعلق پوچھ کر جس عزت سے ہمیں اساتذہ اور مہمانوں کے ساتھ اگلی صف میں بٹھایا، دل خوش ہو گیا! کون کہتا ہے کہ موجوہ نسل بے ادب ہے؟ ہمیں پچیس، تیس سالہ اپنا طا لب علمی کا دور یاد آ گیا۔
پروگرام کا دیا گیا وقت توشرو ع ہوگیا مگر تقریب؟ ہمیں تو پہلے ہی شبہ تھا! کراچی میں صبح گیارہ بجے سے پہلے مجال ہے کہ کوئی پروگرام شرو ع ہوسکے! دیکھتے ہی دیکھتے آیٹوریم کھچا کھچ بھر گیا۔ ہنوز اسرٰی سے رابطہ نہیں ہو رہا تھا۔ ہمارے برابر میں ملکہ افروز صاحبہ آکر بیٹھیں ۔ان سے ملاقات کی پرانی خواہش پوری ہوئی۔ تقریب کے میزبان کاشف نصیر نے نشست کے قریب آکر خوش آ مدید کہا اور تقریب کی یاد گار پیش کی۔ اسی وقت اسرٰ ی بھی نظر آ گئیں۔ وہ اسٹیج کی دائیں جانب جبکہ ہم انتہائی بائیں طرف تھے۔ ساڑھے دس تک مائیک آن ہوگیا۔ ابتدا میں چینل زدہ گلیمرائزڈ انائونسمنٹ سن کراور دیکھ کر طبیعت خاصی مکدر ہوئی مگر پھر عمار ابن ضیاء نے جب مائیک سنبھالا تو کچھ تقویت ملی۔ پروگرام کے آغاز کے ساتھ وائی فائی بھی آن ہوگیا تھا ساتھ ہی اسٹیج سے اعلان ہواجو افراد یہاں نہ آسکے ہوں وہ live streaming کے ذریعے گھر بیٹھے براہ راست دیکھ سکتے ہیں۔ہم نے ایک دو ساتھیوںکو مطلع کیا اور ساتھ ہی facebookپر پوسٹ لکھنی اورٹوئٹر پر #UrduSMS ٹرینڈ بنانے کی کوشش کی پھر اس حماقت سے باز آگئے۔گھروں میں بیٹھے لوگوں کو چمکانے سے بہترہے کہ خود توجہ کے ساتھ پروگرام سے محظوظ ہواجائے جو اب باقاعدہ شروع ہوچکا تھا کیونکہ ریکارڈنگ توہوہی رہی ہو گی! ہم اتنی زحمت اٹھا کر آئے ہیں تو liveپروگرام کے مزے کیوں نہ لیں!
(شدید مصروفیات اور بجلی کی آنکھ مچولی کے باعث یہ روداد مکمل ہی نہیں ہوپارہی تو سوچاکہ جتنا ہوگیا ہے اپ لوڈکر دیں۔ باقی پروگرام
پر تبصرے، مشورے، تجاویز بعد میں۔۔۔ لہذا باقی آئندہ )
بہت ہی کمال ۔۔۔۔۔۔۔ سدا خوش رہیں
بہترین۔ دوسری قسط گو کہ بہت تاخیر سے آئی لیکن آپ نے حق ادا کردیا۔