( ایک ماں کے نام جس نے جس نے ممتا پر ملازمت کو ترجیح دی اور بچی کو خود سے جدا کر دیا )
دس ماہ کی وہ بچی جو ماں سے جدا کر دی گئی تھی۔ اس کے اعصاب پر سوار ہو کر رہ گئی تھی۔ کاش وہ یہ خبر نہ سنتی یا آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا کہ وہ معصوم کس طرح عرصہ دراز کے لئے دوسرے شہر لے جا کر عزیزوں میںچھوڑ دی گئی۔
مگر ایسا ممکن نہیں تھا اس بچی کی ماں اس کی قریبی دوست تھی اور بڑے آرام سے تھی اور اپنی اس حرکت کو کسی طرح بچی کی حق تلفی یا بے انصافی ماننے پر تیار نہیں تھی اور وہ خود ہر وقت الجھن کا شکار رہنے لگی تھی ایسا نہ ہوتا اگر وہ خود اتنی ہی عمر کی ایک بچی کی ماں نہ ہوتی اب جس و قت بھی اپنی بیٹی کو گود میں لیتی یا پیار کرتی فوراً وہ بچی نگاہوں کے سامنے آ جاتی جو ماں کی آغوش سے دور کر دی گئی تھی۔
درمیان میں ایک بہت بڑی بہت اونچی ناقابل عبورر دیوار تھی مگر ایسی شفاف کر آر پار سب کچھ دیکھا جا سکتا تھا۔ اس پار وہ خود تھی اور دوسری جانب اس کے تمام عزیز رشتہ دار اس کی بچی سمیت اور دوسری جانب جو کچھ ہو رہا تھا وہ نہ صرف دیکھ سکتی تھی بلکہ سن بھی سکتی تھی۔ وہ بچی رو رہی تھی بے تحاشا آنسوئوں کے ساتھ اور نگاہیں چاروں طرف بھٹک رہی تھیں اور بازو بھی پھیلے ہوئے تھے اپنی خالہ کی گود میں تھی وہ مگر کس حال میں، مسلسل بہتے ہوئے آنسو اور متلاشی نگاہیں دونوں ہاتھ پھیلائے اور سب کے سب پریشان اس کے چاروں طرف موجود تھے۔
نانی نے بلایا ’’آئو بیٹی میرے پاس آئو۔۔۔۔‘‘وہ لپک کر ان کی گود میں چلی گئی مگر دوسرے ہی لمحے پھر وہی رونا اور بے چین ہونا۔
ماموں نے بلایا ’’آئو منی میرے پاس آئو۔۔۔‘‘وہ ہمک کر ماموں کے پاس چلی گئی مگر وہی رونا اور تلاش کرنا۔
دوسرے ماموں نے بلایا دوسری خالہ نے بلایا، وہ ہر ایک کے پاس جاتی رہی، چمٹتی رہی، لپٹتی رہی مگر رونا لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتا گیا بے قراری بڑھتی گئی بڑھتی گئی، اور اچانک جو بچی کی نظر دوسری جانب کھڑی ہوئی ماں پر پڑی تو وہ ماموں کی گود سے اتر کر تیزی سے ادھر لپکی مگر اس کی ناک منی سی ناک شیشے کی ٹھنڈی بے حس دیوار سے ٹکرائی اس نے اپنے گدگدے ننھے منے ہونٹ اس دیوار سے چپکا دیئے۔ آنکھوں کی
پیاس تو بجھ رہی تھی، وہ خاموش ہو گئی، خاموشی سے ماں کو دیکھتی رہی دیکھتی رہی اور پھر ایسا لگا اسی دیوار سے ٹھنڈی بے حس دیوار سے لگے لگے چپکے چپکے وہ بڑھنے لگی اب وہ بارہ سال کی نوخیز کلی تھی، نرم و نازک آبگینے کی طرح، اور پھر اس کی زبان نے جنبش کی۔
ماں! مجھے یہ تو بتائو اپنی آغوش سے اتنی دور کیوں لا پھینکا تھا مجھے، اگر جدا کرنا ہی تھا تو اس وقت کر دیتیں جب میں چند گھنٹوں یا لمحوں کی تھی، جب میرے حلق میں وہ آب حیات نہ ٹپکا تھا، جسے ماں کا دودھ کہتے ہیں! اس وقت جدا کر دیتیں جب میں نے تمہاری آغوش کی نرمی اور گرمی کو نہیں پہچانا تھا، جب تمہارے بوسوں کے لمس سے ناآشنا تھی، تمہارے بازوئوںکی لذت سے بے خبر تھی۔۔۔
مگر تم نے دس ماہ میں مجھے اپنا عادی بنا دیا، میری رگ رگ میں اپنے پیار کولہو بنا کر دوڑا دیا، میری سانسوں کو اپنے بوسوں سے مہکاکر اور میری آنکھوںمیں اپنا شفیق سراپا بسا کر اتنی دور لا پھینکا کہ ایک دن ۲ دن ۴ دن کیا ۴ ماہ میں بھی میں تمہیں نہیں مل سکتی تھی، تم سے ملنے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑا، صرف اس لئے کہ میں تمہاری سرکاری طور پر دی گئی ذمہ داریوں کو نبھانے میں رکاوٹ بنتی تھی۔ مگر سب سے بڑے دربار سے جو ذمہ داری میری صورت میں سونپی گئی تھی تمہیں وہ بھلا دی تم نے؟ چند نوٹوں کے عوض اس اجر عظیم کو جو میری پرورش کے عوض تمہیں ملنا تھا، پس پشت ڈال دیا تم نے ماں تم نے بہت ساری کتابیں پڑھ ڈالیں، مگر اس کتاب کو نہیں پڑھا نہیں سمجھا جس میں لکھا ہے ’’تم نے چند روزہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے آخر کار تمہیں ہمارے پاس لوٹ ہی کر آنا ہے۔‘‘
بہت برا کیا ماں تم نے بہت برا کیا، دیکھو اب میں بڑی ہو گئی ہوں تو تم لینے آئی ہو مجھے۔ میں ضرور چلوں گی تمہارے ساتھ کیونکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے تمہارے تحفظ کی تمہارے سائے کی تو مجھے ہمیشہ ضرورت رہے گی تم چاہے مجھ سے بے نیاز ہو جائو مگر میں تمہاری ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتی میں تمہارے ساتھ چلوں گی مگر فاصلے کی یہ ٹھنڈی بے حس دیوار جو ہمارے درمیان تم نے اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے حائل کی ہے اسے میں کبھی بھی درمیان سے نہیں ہٹا سکوں گی یہ شیشے کی دیوار نہیں ہے میری شخصیت کا وہ خلا ہے، جو تمہاری دوری سے پیدا ہو گیا ہے اور کبھی بھی دور نہیں ہو سکے گا، جانے کتنی بیٹیاں اور بیٹے اپنی اپنی شخصیت میں اس ناقابل عبور خلا کو لئے پھر رہے ہیں اور معاشرے کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ تم جیسی مائوں کی بدولت ہے جو اپنے جسموں کے جیتے جاگتے حصوں کو دووسروں کے حوالے کر دیتے ہیں، دوسرے لوگ سب کچھ ہو سکتے ہیں مگر ماں نہیں ہو سکتے ماں نہیں ہو سکتے، ماں نہیں ہو سکتے!!
سنا ہے آپ کی دوست اپنی بچی کو لینے ملتان جا رہی ہیں ان کے میاں ملے تھے کل مجھے دفتر سے واپسی پر۔۔۔
شکر الحمدللہ اس نے اپنی بچی کو سینے سے بھینچ لیا میں تو اپنی بچی کو چند دنوں کے لئے بھی جدا نہیں کر سکتی، جانے وہ کیسے رہ گئی اتنے دن مگر یہ ہوا کیسے؟
سنا ہے کوئی عجیب و غریب خواب دیکھا تھا انہوں نے۔۔۔
چلیں یہ بھی اچھا ہوا کہ اسے خواب نے حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا ورنہ لوگ تو حقیقت سے خوابوں کی طرف سفر کرتے ہیں اور کبھی منز ل پر نہیں پہنچتے!
( بر سوں پہلے لکھی گئی کہانی جو آج کی ماں کے لیے بھی وہی پیغام رکھتی ہے !)
فیس بک تبصرے