کیا مشکل ہے کبھی کسی کو بھوک لگی ہے، کبھی دروازے پر کوئی، کبھی ٹیلی فون بج رہا ہوتا ہے۔ کیا میں صرف اسی لئے زندہ ہوں کہ سارے گھر کے کام کرتی رہوں۔ حفصہ خود کو اکثر کوستی رہتی تھی۔ وہ دن بدن اکتا تی جارہی تھی، تھکاوٹ اس کے چہرے پر عیاں رہتئ تھی۔ کبھی بچوں پر غصہ، کبھی سسرال سے تنگ اور کبھی شوہر کا رونا۔
سارا دن گزر جاتا تھا اس کے کام سمٹ نہیں پاتے تھے گویا وقت میں جیسے برکت ہی نہیں رہی۔ تھک ہار کے دو گھڑی سانس لینے بیٹھی تو بچے ٹی وی چینل بدلنے پر جھگڑنے لگے۔ ماما مجھے بےبی چینل دیکھنا ہے، مجھے میچ اور تیسرے کو کارٹون۔ ۔ ۔ اف کیا مصیبت ہے دفع ہو جائو تینوں یہاں سے۔ ۔ ۔ اب کوئی ٹی وی نہیں دیکھے گا۔۔۔ یہ کہتے ہوئے حفصہ نے بتدریج چینل بدلنے شروع کردیئے۔
8 مارچ عالمی یوم خواتین ہے۔ آج کی عورت ہر میدان میں آگے ہے۔ گھر ہو یا میدان جنگ۔۔۔ جہاں بھی ضرورت پڑے عورت ہمت نہیں ہارتی۔۔ ۔ ہماری رول ماڈل حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ ہیں۔ کیا آج ہماری زندگیوں میں ان کی کوئی جھلک ہے۔۔۔ یہ الفاظ ایک ڈاکیو منٹری کے تھے جو ایک چینل پر عالمی یوم خواتین کے سلسلے میں دکھائی جارہی تھی۔ حفصہ کے کانوں میں جیسے جیسے یہ آوازیں آرہی تھیں تو وہ تذبذب کی حالت میں جارہی تھی۔
اس کا ضمیر اس کو احساس دلا رہا تھا کے اللہ نے عورت کو مشرف بنایا ہے، اسے گھر کی امانت دار اور شوہر کی ساتھی بنایا ہے۔ عورت ہر روپ میں اہم ہے۔ ماں ہے تو جنت، بیٹی ہے تو رحمت، بہن ہے تو عزت اور بیوی ہے تو محبت۔
حفصہ کی آنکھیں نم تھیں اور وہ سیرت صحابیات کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا سوچ رہی تھی کہ ان کی عظمت کا یہ حال تھا کہ فاقے ہوئے کبھی شوہر کو پریشان نہ کیا، آنے والی مشکلات و مصائب کا سامناہمیشہ مسکراتے چہرے اور خوش گوار مزاج سے کیا، شوہر کے لئے مخلصانہ فکر مندی، اس کی ضرورتوں کا خیا ل رکھنا، اس کے مشن کو اپنا سمجھنا، مشکل حالات میں بھی اولاد کی تربیت پر نظر رکھنا، صبر سے صدمے سہنا اور انہیں اللہ کی رضا سمجھنا، دنیا کی عیش و عشرت کو ٹھکرا کر اللہ کی رضا میں خوش رہنا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کیا اس کی زندگی میں اصحابیات کی کوئی ہلکی سی بھی جھلک ہے۔۔۔ اس کا جواب نہیں میں تھا۔ اور وہ اپنے رویوں کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس کے پاس الحمد للہ ہر نعمت ہے، شوہر ہے، بچے ہیں، اچھا گھر ہے اور بہت سی ایسی آسائیشیں ہیں جن کے بارے میں تو اس نے کبھی سوچا ہی نہیں۔
وہ زندگی کی الجھنوں میں اس قدر الجھ چکی تھی کہ اس کو اس بات کا خیال ہی نہ رہا کہ کسی کو اس کی بھی ضرورت ہے؟ اس پر سکوت طاری تھا کہ اس کی نظر بجتے ہوئے پنڈولم پر پڑی۔۔۔ ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن۔۔۔ اور اس کا سکوت ٹوٹ گیا۔۔۔ یہ کیا چھ بج گیا۔۔۔ اس نے بچوں کو تیار کیا۔۔۔ اسی لمحے دروازے پر گھنٹی بجی اور اس نے لپک کر دروازہ کھولا۔۔۔ آج حفصہ کا یہ نیا روپ دیکھ کر زندگی کے ساتھی نے مسکرا کر گھر میں قدم رکھا۔۔۔ آج حفصہ اپنا اصل مقام و مرتبہ جان چکی تھی۔
بقول اقبال
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
ہم سب مردوخواتین کو اپنا اپنا مقام پہچاننے کی ضرورت ہے