ایک ڈری سہمی چڑیا جیسی لڑکی اورایک خبیث، بد باطن مرد جو اس کی بہن کا شوہر ہے اور اس چڑیا سی لڑکی کو ہر وقت جھپٹنے کے لیے تیار ہے۔ ایک بے وقوف بیوی جو اپنے شوہر کی چالاکیوں سے واقف ہے یا نا واقف؟ ایک ماں جو نہ جانے کن اندیشوں میں مبتلا چڑیا اور بلے کے کھیل پر آ نکھیں بھی بند کیے ہے اور آواز بھی! نہ وہ کسی کو بتاتی ہے نہ حفاظتی اقدامات کرتی ہے نہ اس شخص کے شر سے اپنی بچّی کو بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر طرف “چپ رہو” کا تاثر ہے جو معاشرتی کمزوری کا اظہار ہے یہ ہے وہ ڈرامہ جو حال ہی میں ٹی وی اسکرین پر دکھا یا گیا۔
اس سے پہلے بھی “بڑی آپا” کے عنوان سے ایک ڈرامہ سیریل آئی جس میں بڑی سالی کا اپنی چھوٹی بہن کے شوہر سے عشق کا شرمناک واقعہ زور و شور اور دھڑلے سے دکھا یا گیا اور “میری ذات ذرہ بے نشان” میں اسلامی اقدارو قوانین اور عقل و فطرت کے برخلاف محض بہتان پر زندگی بر باد ہوتی دکھائی دی گئی۔
فلم یاٹی وی پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے اس کے انسانی نفسیات اور احساسات پر، زندگی اور رویوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے ہر ذی شعور شخص واقف ہے۔دانشور مشرق کے ہوں یا مغرب کے سب چیخ رہے ہیں کہ جو کچھ دکھایا جا تا ہے اس سے کوئی سبق نہیں لیتا بلکہ ہر کوئی برائی سیکھتا ہے اور برائی مزید پھیلتی ہے۔
ڈرامہ چپ رہو کے حوالے سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ ایک بولڈ قدم ہے ان مسائل سے آگاہی کی طرف جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں لیکن ہم مسلمان اپنے روایتی فرسودہ سوچ کی وجہ سے ان پر بات نہیں کر رہے، ان کوقبول نہیں کر رہے یا ان سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ یہ آج پہلی بار نہیں ہے کہ قریبی رشتوں کے درمیان ہونے والے غیر اخلاقی اور شرمناک واقعات پر بات کی گئی ہو! الیکٹرانک میڈیا کی آمد سے پہلے ادبی لٹریچر میں بھی اس موضوع پر بہت دفعہ لکھا گیا لیکن دونوں صورتوں میں مسئلہ کو لذت یا تفریح کے لیے تو موضوع بنایا گیا لیکن نہ مسئلے کی وجوہات پر بات کی گئی اور نہ ان مسائل کاحل دیا گیا۔
ہر دور کے انسان کو یہ خوش فہمی یا غلط فہمی رہی ہے کہ وہ بہت عقلمند ہے ۔وہ ان مسائل سے آگا ہ ہے اور انہیں حل کرسکتا ہے۔انسانی معاشرت کا ایک بڑا حصہ مرد و عورت کے درمیان رشتوں، ان رشتوں کی حدود اور ان حدود کی پاسداری پر مشتمل ہے ۔کوئی بھی انسانی معاشرہ ان حدود کو متعین کیے بغیر پاکیزہ اور محفوظ نہیں رہ سکتا ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب اور خدائی ہدایت سے محروم معاشروں میںجوقوانین بنائے گئے ہیں وہ ناقص ہیں اور اثر انگیزی سے محروم!ایک ایسا معاشرہ جس میں فرد کی آزادی کا تصور ہی خواہشات کی تسکین کا نام ہے وہاں نتائج کے اعتبار سے کڑوے پھل ہی انسان اور انسانیت کا مقدر بنے ہیں اور بن رہے ہیں۔
افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ وہ معاشرہ جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہے وہاں بھی یہ ہی کڑوے پھل جا بجا اگ رہے ہیں۔اس کی تلخی سے ہر فرد پریشان ہے لیکن ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ تبدیلی کہاں سے اور کیسے شروع کی جائے اور بہتری کے لیے کون سا قدم اٹھا یا جائے!
ہم روایتی مسلمانوں نے اسلامی اصولوں کے بجائے معاشرتی روایتوں کو زندگی کا اصول و قاعدہ بنا لیا ہے، ہم نے اپنی زندگی کے جو رنگ ڈھنگ اپنا لیے ہیں ، جس قسم کی تہذیب ہمارے معاشرہ میں پائی جا تی ہے،جس طرح کا ماحول ہمارے گھروں میں پا یا جا تا ہے اس کے بعد یہ نتیجہ آئے گا یا نہیں؟
ایک نظر ذرا اپنے گھروں کے ماحول پر ڈالیں،اپنی شادی کی تقاریب، اپنی تفریحات، اپنے لباس، اپنی طرز زندگی کو دیکھیں! اسلام کی ان تعلیمات کو ہم نے نہ صرف پس پشت ڈال دیا ہے بلکہ اس پر بات کرنا بھی ہمیں گوارا نہیںجس میں حیا کے اصولوں کا ذکر ہے! جس میں چادر کا ذکر ہے! غضّ بصر کا حکم ہے! پردے کی حدود کا تعیّن ہے! گھروں کے اندر داخل ہونے والے مرد اور ان کے داخلے کے آداب کا ذکر ہے! محرم رشتہ داروں اور غیر محرم رشتہ داروں کی تفریق تو زندگی سے نکال ہی دی گئی ہے۔ بظاہر دینداری کی صورتیں بھی ہیں !اسکارف بھی ہیں اور داڑھیاں بھی لیکن ڈرائنگ روم ہو یا جائے ملازمت ۔ایک جگہ بیٹھ کر بے تکلف گفتگو ہے ، خیالات کا تبا دلہ ہے ! مسکراہٹیں اور قہقہے ہیں! تقریب شادی کی ہوں یا منگنی کی ننانوے فی صد مخلوط ہوتی ہیں! سج بن کر غیر محرم مردوں اور عورتوں کا ایک دوسرے کو لبھانا ہے اور ان چیزوں سے روکنے کی بات پر ناراضگی ہے اور حالات کے جبر کی مجبوری کا ذکر !
انسان کوبنا نے والے مہربان رب نے انسا نی بھلائی کے جوقوانین بنائے ہیں ان میں سب سے سخت، واضح اور تفصیلی احکامات معاشرتی ہیں ۔نفس کا تز کیہ، نظروں کی پاکیزگی، لباس کے آداب، محرم اور نا محرم رشتہ داروں کی تفصیل اور ان سے پردے کے احکا ما ت قرآن اور حدیث میں صاف اور واضح موجود ہیں۔ ان پر سختی سے عمل کا حکم بھی موجود ہے اور نہ کرنے کے نتائج بھی!
اسلام نہ ہی چپ رہنے کا سبق دیتا ہے اور نہ ہی چپ رہنے کے حالات پیدا ہونے دیتا ہے۔ جہاں تک خاص اس مسئلے کا تعلق ہے اسی ہفتے PEACE ٹی وی پر ایک عالم دین نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ بھائی! بہنوئی کو تو رجم کے قانون کے تحت اس جرم میں سنگساری کی سزا ملے گی۔۔۔ تو کیا کہتے ہیں ارباب اقتدار و اختیار ار میڈیا کے ذمہ داران؟ “چپ رہو” کا انجام رجم کی سزا پر کیوں نہ کیا جائے؟
you are not alone. Me too