رخ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیال میں نہ دکان ِ آئینہ ساز میں
علامہ اقبال
وقت کے عالم اور دانشور سے پوچھا گیا کہ اگر انبیاء مبعوث نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
استفسار ظاہر کررہا ہےکہ غور و فکر کس درجے کا ہے ۔ عالم و دانشور وقت نے وقت ضائع کیے بغیر جواب دیا اگر انبیاء نہ ہوتے تو انسانیت نابود ہوجاتی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ،فرشتوں کا استفسار ،حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے سیکھے ہوئے علم کے ذریعے اشیاء کے ناموں کا بتانا ،فرشتوں کو سجدہ کا حکم ملتے ہی مسجود ہو جانا اور شیطان کا راندہ درگاہ ہو کر ابلیس ہو جانا وحی الہٰی سے سرفراز اقوام کے لیئےیہ ثابت شدہ واقعات ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر اتارتے وقت زندگی کا تعارف دے دیا گیا تھا۔
“پھر میری طرف سے تمہارے پاس وحی پہنچے گی توجو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے کوئی خوف نہیں اور غم نہیں جو اس سے انکار کریں گے اور ہماری آیت کو جھٹلائیں گے وہ آگ میں جانے والے ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے”۔{البقرہ:39}۔
ان آیات کے ذریعے یہ بات روز ِ اول سے طے کردی گئی کہ ہدایت انسان کو دو ہی ذرائع سے ملے گی ۔وحی الہٰی اور انبیاء کرام
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس وقت دنیا میں تشریف لائے انسانیت اس “ہدایت ” کو بھلا چکی تھی۔ یوں توانسانی تہذیب ہر لحاظ سے دگرگوں تھی لیکن بالخصوص معاشرتی پہلو ہر لحاظ سے گراوٹ اور تباہی کا شکار تھا۔
ایسے میں محمد عربی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا مبعوث کیا جانا ہر لحاظ سے خوشگوار تبدیلی کی نوید تھا ۔
سورہ الاحزاب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
دورِ حقیقت تم لوگوں کیلئے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم اخر کا امید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے-{الاحزاب:21}
اس آیت کے ذریعے مالک کائنات نے رہتی دنیا تک کے لئے طے کر دیا کہ “نمونہ کامل ” کوئی اور نہیں صرف “اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے”ّ
آیئے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی کچھ جھلکیاں انسانی رشتوں کے مختلف پہلووَں ، انسانی تعلقات کے مختلف دائروں اور عوام الناس کے لئے بطور داعی کے دیکھتے ہیں۔
کائنات میں دو انسانوں کے درمیان قائم ہونے والا سب سے پہلا رشتہ زوجین کا ہے۔لہٰذا ہم بھی سب سے پہلے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازدواجی زندگی سے اپنے لیئے عمل کے موتی چنتے ہیں ۔ یہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے ساتھ کہیں اور نہیں جاتے پلٹ کر اپنی زوجہ محترمہ کے پاس جاتے ہیں مسلم معاشرے میں اس رشتے کی مضبوطی ،اعتماد اور پائیداری کا نمونہ یہاں سے ملتا ہے ۔عرب روایات کے بر عکس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خاتون کو جو آپ کی زوجہ محترمہ اس اہم ترین واقعے کی خبر دینے جا رہے ہیں۔
زملونی، زملونی مجھے اوڑھا دو ۔ مجھے اڑھا دو۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتی ہیں جس میں بھر پور یقین شامل ہے۔
فرماتی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ رسوا نہیں کرے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلہَ رحمی کرتے ہیں۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ بہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں ،حق کے راستے پر آنے والی مصیبتوں پر مدد کرتے ہیں۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا یہ جواب شوہر سے محبت ،اعتماد اور ان کے اعلیٰ کردار کے ادراک کا بھرپور اظہار تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کم سن تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کا اظہار اس طرح کرتے جہاں سے منہ لگا کر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا پانی پیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں سے منہ لگا کر پانی پیتے۔
انصار کی لڑکیوں کو بلوا دیتے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ساتھ کھیلیں۔
یہاں تک کہ انہیں حبشیوں کا کرتب بھی دکھایا جب تک وہ سیر نہ ہو گئیں۔
ایک مرتبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہرضی اللہ تعالیٰ عنھا کے ساتھ حجرے میں موجود تھے۔ کنیز نے آکر کہا پڑوسن آگ مانگ رہی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا جلتی ہوئی لکڑی دے دو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس تمام مکالمے کے دوران خاموش رہے۔ بیوی کے گھر کے روز مرّہ امور میں دخل نہ دیا۔ جب کنیز لکڑی دینے چلی گئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے فرمایا: اے عائشہ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا حیران ہو کر بولیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جلتی ہوئی لکڑی ہی تو دی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم سمجھتی ہو کہ اس آگ میں پکا ہوا کھانا تمھارے لیے اجر کا باعث بن گیا۔{مشکوٰۃ}
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے فعل کو کتنے شاندار انداز میں سراہا اور امت کے تمام لوگوں کے لیے چھوٹے سے نیک عمل کو خوشخبری بنا دیا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو اونٹ پر سوار کرنے کے لیے اپنا گھٹنہ آگے بڑھا دیتے وہ اس پر پیر رکھ کر اونٹ پر سوار ہوتیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی ہیں:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدمیوں میں سے آدمی تھے۔اپنے کپڑوں کی دیکھ بھال خود کرتے۔بکری کا دودھ خود دوہتے اور کپڑوں پر پیوند لگاتے ۔جوتے مرمت کرلیتے”۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا فرماتی:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ نرم خو، متبسم اور خندہ جبیں تھے”۔[ترمذی۔مسلم]
قابل غور نکتہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ نے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان تعلق میں شوہر کے لیے بہترین نمونہ پیش کرکے آنے والوں کے لیے راہ عمل متعین کردی ۔آج بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح صرف اور صرف اسوہ کامل کے نمونہ زوج پر عمل کر کے کم کی جا سکتی ہے۔
زوجین کے بعد اگلا انسانی رشتہ اولاد کا ہے۔عرب معاشرے میں جہاں بیٹیاں زندہ گاڑ دی جاتیں۔حضرت زینبرضی اللہ تعالیٰ عنھا ، حضرت رقیہرضی اللہ تعالیٰ عنھا ، حضرت ام کلثومرضی اللہ تعالیٰ عنھا اور حضرت فاطمہرضی اللہ تعالیٰ عنھا سے بے مثال شفقت،رحمت و محبت نے عرب معاشرے کو حیران کردیا۔
حضرت فاطمہرضی اللہ تعالیٰ عنھا سب سے چھوٹی صاحبزادی اور سب سے چہیتی بھی تھیں ۔ان کی شادی کا وقت آیا تو فرمایا علیرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تمہارا نکاح کررہا ہوں۔
عظیم المرتبت والد اور قابل تقلید صاحبزادی کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے۔
والد فرماتے ہیں :علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مالی حالت کمزور ہے۔ سوال کر کے شرمندہ نہ کرنا۔
بیٹی نے سر ہلا کر اثبات میں جواب دیا۔
ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ دنوں کے لئے کسی کام سے مدینے سے باہر تشریف لے گئے۔ واپس آئے تو کھانا مانگا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھاخاموش رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھ گئے کھانا نہیں ہے۔ پوچھا کب سے کھانا نہیں پکایا، فرمایا، جس دن سے آپ گئے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مجھ سے کیوں نہیں کہا جب میں جا رہا تھا۔ جواب میں خاموشی۔ والد کی نصیحت نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو صبر و رضا سکھائی۔
ایک موقع پر کچھ غلام اور کنیزیں آئیں ۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی تمام مشقتوں کے گواہ تھے انہوں نے کہا جاوَ ابا جان سے ایک کنیز مانگ لو، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تشریف لے گئیں خاموش بیٹھی رہیں اور واپس آگئیں۔ شام کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے حجرے میں تشریف لے گئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے فرمایا اے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تم آئیں اور کچھ کہے بغیر لوٹ گئیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے اپنے والد کی نصیحت گرہ سےباندھ لی تھی کہ سوال نہ کرنا۔ چناچہ خاموش رہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ میں نے کنیز لینے بھیجا تھا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر کو مخاطب کرتے ہوے ارشاد فرماتے ہیں۔
اے فاطمہ: اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ فرائض کی پا بندی کرو۔ اپنے کنبے کے اعمال کو اپنا دستور بناوَ اور کنیز سے بہتر یہ ہے کہ جب تم بستر خواب پر جاوَ تو ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو[ابو داوَد۲۴۹۹]
فرمان محمدی صلی اللہ علیہ وسلم جب اسوہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بن جاتا ہے تو حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیار ہوتے ہیں۔
بحیثیت والد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر کے ہم کتنی ہی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی پیروکار اور حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسینرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین معاشرے کو دے سکتے ہیں۔خاندان کے اس دائرے میں ایک اور رشتہ آقا اور غلام کا ہے۔عرب میں جہاں انسانی غلامی کا ایک طویل اور تاریک دور رہا ہے۔ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آقا اور غلام کے رشتے میں کو یکسر مٹا دیا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو دس سال کی عمر میں بحیثیت خادم ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھررہے ان کا ارشاد ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بھی مجھے کسی کام کے بارے میں یوں نہیں کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ابھی بچے تھےکسی کام سے باہر بھیجا اور جلدی واپس آنے کو کہا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر نکلے تو لڑکے کھیل رہے تھے حضر ت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھیل دیکھنے کے لیے رک گئے اور اپنا کام بھول گئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہوا کہ کافی دیر ہوگئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے دیکھا تو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ
کھیل دیکھنے میں مگن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شانوں پہ ہاتھ رکھا اور نرمی سے کہا: اے بیٹے جو کام کہا ہے وہ کر لو۔
ہے نا حیرت انگیز بات کہ نہ ڈانٹ، نہ غصہ، نہ دیر ہونے کی وجہ سے ہونے والے نقصان پر لیکچر بس نرمی سے یاد دہانی، خوشگوار انداز اور وہ بھی خادم کے ساتھ۔ صلو علیہ وآلہ
انسانی تہذیب کا دائرہ اثر معاشرے کے اگلے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔
یہ دوست احباب کا دائرہ ہے یارِغار، حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
کہا صدیق نے میری صداقت ان کا صدقہ ہے
عمر دیں گے گواہی وہ عدالت لے کے آئے ہیں
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے ساتھی، ہم مذاق و ہم مزاج تھے۔ تاریخ گواہ ہے نظریہ یا عقائد کے بدلنے سے برسوں کےبرسوں کے ساتھی پل میں الگ ہوگئے سب رشتے ناتے کچے دھاگے ثابت ہوئے۔
اسوہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز تھا کہ صدیق اکبر کی پیاسی روح نے عقیدہ توحید پر سب سے پہلےلبیک کہا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسوہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کرتے ہوئے سب سے پہلے یہ دعوت اپنے گھر والوں کو دی پھر اپنے احباب کو۔آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ نرم خو،با اخلاق اور دریا دل تھے۔آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعوت سے حضرت عثمانرضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضر زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبیداللہ مسلمان ہوئے جو اسلام کا ہر اول دستہ بنے۔
حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے سب سے معتبر گواہ تھے۔واقعہ معراج کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں موجود کفار معراج کا حال بتاتے ہیں تاہم کفار بصیرت سے محروم رہے۔وہ حسب سابق انکار کرتے رہے حضرت ابو بکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت موجود نہ تھے۔وہ شہر سے باہر تھے جب وہ واپس آئے تو ایک شخص نے ان سے واقعہ معراج کا تذکرہ کیا آپرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً اس کی تصدیق کی۔ اسوہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کو صدیقِ اکبر بنا دیا۔
ہمسائے اور پڑوسی کی انسانی معاشرے میں ہمیشہ اہمیت رہی ہے۔نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشرتی دائرہ کو اعلیٰ اقدار سے مزین فرمایا۔
پڑوسی بڑھیا جو ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر کچرا پھینکتی ۔جب ایک دن نظر نہیں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا احوال دریافت فرمایا اور بیماری کا سن کر نہ صرف عیادت کی بلکہ تیمارداری بھی کی وہ خاتون اخلاق کے اتنے اعلیٰ مرتبے کی تاب نہ لا سکی اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اعلیٰ پیغام دیا کہ:
“تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہوتم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جن کی عداوت تھی وہ جگری دوست بن گیا”[حٰم سجدہ]
نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعویدار اسوہ حسنہ کی اس جھلک پر عمل کر کے اپنی محبت کا عملی ثبو ت پیش کر سکتے ہیں۔ دنیا اس اسوہ حسنہ کی منتظر ہےتاکہ زمین سے فساد ختم ہو۔ انفرادی دائروں سے نکل کر اب ہم اجتماعی دائروں میں داخل ہوتے ہیں ۔یہ مسجد ہے۔مسجد نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختصر نماز پڑھاتے ہیں۔حضرت انسرضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے لمبی کرنا چاہتا ہوں اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں اپنی نماز مختصر کردیتا ہوں کیونکہ میں ماں کی بے قراری جانتا ہوں۔[صحیح بخاری]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کے لیے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی امام ہو تو اسے ہلکی نماز پڑھانا چاہیے کیونکہ مقتدی میں کمزور ،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔البتہ اکیلے میں نماز پڑھتے وقت حسب خواہش نماز کو طویل کر لو{صحیح بخاری}
کیا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی اور ہے جو امت کے ایک ایک فرد کی ذہنی ،جسمانی ،جذباتی کیفیات کا ادراک رکھتا ہو اور اس کے مطابق ان معاملات برتے۔ صلو علیہ وآلہِ نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں مساجد میں نمازوں کی امامت کرنے والے اسوہ حسنہ کے اس پہلو سے کسی قدر با خبر ہیں اور با عمل ؟ قابل فکر بات ہے کہ ہمارے کسی رویہ سے نمازی مسجد سے دور تو نہیں ہو رہے۔
سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو ان گنت ہیں۔ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کتنی ہی ناقص العمل کیوں نہ ہو ناقص لایمان ہر گز نہیں۔
آج بھی مسلم نوجوانوں کی پسندیدہ ذات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔اس چنگاری کو ہوا دینے کی لئے اسوہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلووَں کو ہر سطح ہر دائرے میں اجاگر کرنا صاحبانِ علم و عمل کی ذمہ داری ہے۔
“بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو تم بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو۔”
اور درود سلام بھیجنے کی ایک صورت اسوہ حسنہ پر عمل بھی ہے۔صلو علیہ وآلہِ
فیس بک تبصرے