موبائیل کی میسج ٹون نے مجھے چونکا دیا! دیکھا تو ایس ایم ایس میں لکھا تھا کہ:
“ہماری ساتھی نمرہ کے لئے دعائوں کی درخواست ہے وہ آئی سی یو میں ہے۔” یہ میسج میری عزیز ساتھی زینب کی طرف سے موصول ہوا تھا۔ مجھے یہ پڑھ کہ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کون لڑکی ہے؟ میں اسے نہیں جانتی تھی، نہ میں نے کبھی اسے دیکھا تھا۔لیکن اس وقت نہ جانے کیوں میرے دل میں اُس کے لئے ایک انجانی سی محبت پیدا ہوگئی اور فوراًاللہ پاک سے اس کی صحت و زندگی کے لئے دُعا مانگی۔
دل میں بہت سے خیالات آرہے تھے کہ اسے کیا ہوا ہوگا؟جو وہ اس حالت میں آگئی،سال پہلے وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی تھی اور ماشأاللہ اپنی زندگی بہت خوش و خرم گذار رہی تھی۔ میں کئی گھنٹوں تک اُس کے بارے میں سوچتی رہی کہ اب وہ کیسی ہوگی؟ کب ٹھیک ہوگی؟
کون سے اسپتال میں ہے؟
میں اپنے خیالات کے حصار میں گم تھی کہ موبائیل پر دوسرا ایس ایم ایس آیا “اناللہ وانا علیہ راجعون نمرہ کا انتقال ہوگیا ہے”۔
اس خبر نے تو میرے دل و دماغ کو سُن کردیا، میرے قدم لڑکھڑا گئے، میں سوچنے لگی کہاں ابھی تو میں اُس کی صحت و زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھی۔ یا اللہ! یہ کیاہوا؟ میری آنکھیں اس انجانی لڑکی کے لئے غم زدہ تھیں جسے میں نے آج تک دیکھا ہی نہیں تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے ساتھ میرا کوئی رشتہ ہے، کوئی بہت مضبوط رشتہ۔۔۔
اُس کی تکلیف مجھے محسوس ہورہی تھی، اُس کی اذیت کا مجھے اندازہ تھا، اُس کی بے بسی مجھے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے پیارے اس کی زندگی کی آس میں تھے۔۔۔ مگر وہ مایوس ہوچکے تھے۔۔۔
اس وقت مجھے اپنا رہن سہن، لباس اپنی ہر شے سے شدید نفرت ہورہی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھے زندگی کی حقیقت معلوم ہوئی۔ میں سمجھ گئی کہ زندگی کیا ہے؟ بس یہی زندگی ہے۔ چند لمحوں میں کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ انسان کی سوچ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتی۔
زندگی صرف گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کا نام نہیں ہے۔ زندگی کا اصل مقصد سمجھنے میں ہم اکثر اتنا وقت لگا دیتے ہیں کہ ہماری موت کا وقت قریب آجاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ سننے کو ملتا ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے۔۔۔ زندگی بھرپور طریقے سے گذارنی چاہیئے۔۔۔ جیسے چاہو جیو۔۔۔ ہماری زندگی ہے۔۔۔ ہماری مرضی جو بھی کریں۔۔۔ وغیرہ۔
واقعی زندگی صرف ایک ہی بار ملتی ہے اور یہ اللہ کی امانت ہے۔۔۔ ہر انسان کو ایک دن لوٹ کے جانا ہے۔۔۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں۔۔۔ موت کو قریب سے دیکھ کر بھی اپنی موت بھول جاتے ہیں۔۔۔ ہم دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ زندگی عارضی ہے۔
زندگی کی اصل حقیقت یہی ہے۔۔۔ وہ کہتے ہیں نا کہ
“سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں”
بالکل یہی ہے ہماری زندگی۔۔۔ آسائیشوں سے بھرپور زندگی کی خواہش اور یہ بھول جاتے ہیں کہ آخرت کی زندگی کیسی ہوگی۔ کبھی ہماری یہ خواہش نہیں ہوتی کہ آخرت میں ہمیں آسائیشیں ملیں۔۔۔ اگر آخرت میں آسائشیں لینی ہیں تو دنیا کی آسائشوں کو بھولنا ہوگا۔۔۔ اگر آخرت کی زندگی کی فکر ہوگی تو دنیا کی زندگی کی نیندیں اڑ جائیں گیں۔
آج مجھے وہ حدیث مبارکہ بہت یاد آئی کہ جس میں نبیﷺ نے فرمایا:
اللہ کی قسم آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی مثال بس اتنی سی ہے جیسے تم میں کوئی شخص اپنی انگلی دریا کے پانی میں ڈالے اور غور کرے کے انگلی کے ساتھ کتنا پانی لگتا ہے۔(رواہ امام مسلم)۔
بیشک یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی زندگی صرف اتنی ہی ہے جتنا کہ انگلی پر لگنے والا پانی اور آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی جس کی فکر ہم سے کوسوں دور رہتی ہے۔ ہم بعض اوقات دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔۔۔ اگر ہمیں اللہ نے نوازا تو اس میں اپنا کمال دکھائی دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں دیا تو اُس کی قسمت نظر آتی ہے۔۔۔ زندگی کی اصل حقیقت کیا ہے؟ اس کو سمجھنے میں شاید انسان کی ساری عمر نکل جاتی ہے۔۔۔ انسان کی سوچ بس صرف اتنی ہی رہتی ہے کہ میں اور میری اولاد، میرا گھر، میرا رہن سہن سب سے منفرد ہو۔۔۔ انسان کس لئے کماتا ہے؟ اسی لئے تو کہ اُس کو ہر آسائش میسر ہو۔۔۔ لیکن۔۔۔
اُس کمائی کو بھولا بیٹھا ہے نادان انسان جس کا پھل آخرت میں ملنے والا ہے۔
فیس بک تبصرے