پچاس ایکڑ خطہ زمین پر خیموں کا جو عارضی شہر آباد تھا جہاں ایک ٹاریخ رقم کی جا رھی تھی کہ اس قافلہ سخت جان میں لاکھوں مردوں کے ساتھ ساتھلگ بھگ ایک لاکھ عورتیں اسلامی پاکستان کا خواب آنکھوں میں سجاٰئے ایک نٰئے پاکستان کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑی ہوئیں۔۔ جو میڈیا ہفتوں سارا سارا دن دھرنوں کی کوریج کرتا رہا وہ میڈیا اتنا بے توفیق تھا کہ ان عورتوں کے احساسات اس طرح نہ پہنچا سکا جو اس اجتماع کا حق تھا جنکا نظم و ضبط دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جنکا جوش اور جذبہ ایک تاریخ رقم کر رہا تھا جنکو یہ یقین تھا کہ انکا عزم معاشرے کو تبدیل کر سکتا ہے یہ پاکستان بھر کے نہ صرف بڑے شہروں بلکہ دور افتادہ گاؤں دیہات قصبوں سے آئی ہوئی عورتیں جو لائی نہیں گئی تھیں بلکہ بخوشی آئیں تھیں ان میں ان پڑھ نیم خواندہ دیہی خواتیں بھی ہیں اور اعلی تعلیمیافتہ پوش علاقوں تعلق رکھنے والی بھی ہیں جب رات کو وسیع و عریض کیمپوں میں تاحد نظر ڈالتی بستر دیکھتی تھی شدید سردی میں جنتی چھت ایک شامیانہ تھا اور شدید کہر کے باعث بستر گیلے ہو جاتے تھے یہی خواتین قبل از نماز فجر ہزاروں کی تعداد میں بیت الخلا اور وضو خانوں کے باہر کھلے آسمان تلے نظر آتی تھیں پھر دعا اور نماز میں مصرعف میں سوچتی تھی کونسی قوت ہے جو بظاہر ایک کمزور عورت کو اسقدر قربانی پر مجبور کر دیتی ہے۔
ہزاروں عورتیں اپنے معصوم بچعوں کے ہمراہ اجتماع میں شریک ہوئیں اسقدر کثیر تعداد کہ انتظامات کم پڑ جاتے تھے شرکاء کی تعداد توقع سے کہیں زیادہ ہونے کی وجہ سے انتظامات کا درہم برہم ہونا کوئی غیر معمولی واقع بھی نہیں ۔۔۔ہاں غیر معمولی بات یہ ھے کہ اس دھرتی پر لاکھوں مصائب کے باوجود ،طرح طرح کے مارے ہوئے لاکھوں نفوس اب بھی پر امید ہیں اب بھی ان کے عزم جواں ہیں ۔۔۔اب بھی انکی خواہش روٹی ،کپڑا اور مکان سے بھت بالا تر ہیں۔۔۔
ان کو کوئی لالچ نہیں لایا یہ کسی پیری مریدی کے سلسلے میں بندھی ہوئی نہیں ہیں انکا کوئی معاشی مفاد یہاں وابستہ نہیں۔۔۔ چاہے جو سماج کے کسی بھی طبقے سے وابستہ ہویہاں سب کی رہائش ایک جیسی ہے۔ سب کا کھانا پینا ایک جیسا ہے سب کی مشقتیں بھی ایک جیسی ہیں ،کبھی وضو کی لائنوں ،تو کبھی کھانے کی لائنوں ،کبھی ہجوم کے بیچ سے راستہ بناتی ان بے شمار عورتوں کو جانتی تھی جنکا تعلق ایلیٹ کلاس میں ہوتا ہے یہاں کسی محمود و ایاز کے لئے کوئی صف بندی نہیں ہے کھانا کسی وقت نہ ملنے پر بھی کوئی بد نظمی یا بد تہذیبی کے مناظر دیکھنے میں نہ آتے تھے میڈیکل کیمپوں میں آنے والی خواتیں سے انتہائی شائستہ سلوک، کسی عورت یا بچے کو زیادہ طبی امداد درکار ہوئی تو فوری ایمبولینس کا انتظام کیا جاتا اس تخصیص سے قطع نظر کہ جس کے لئیے ایمبولینس فراہم کی جا رہی ہے وہ کسی گاؤں دیہات سے ہے یا معاشرے کے کسی پوش طبقے سے۔۔۔ بیت الخلاء کی مناسب سہولتیں کی عدم دستیابی کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔
لیکن شکوے پر شکر کا غلبہ میں نے ہر موڑ پر دیکھا چاہے وہ اعلی تعلیمیافتہ خواتین ہوں یا دیہاتوں کی ان پڑھ عورتیں ایک قدر میں نے ان میں مشترک دیکھی وہ یہ کہ اسلام کا سچا درد رکھتی تھیں وہ سمجھتی تھیں کہ وہ دیں کی پکار پر یہاں آئی ہیں ۔۔۔مجھے حیرت ہوتی تھی جب نومبر کی ٹھنڈی راتوں میں کھلے آسمان تلے نصف شب تک عورتیں پنڈال میں برا جمان ایک انہماک سے مقرریں کی تقریریں سنتی رہتی تھیں اور پھر علی الصبح بیدار ہوجاتی تھیں ۔۔۔تین دن کی یہ بستی کسقدر فدائیت کے جذبے سے سجائی۔۔۔ جب میں سینکڑوں عورتوں کی گودوں میں بچھے دیکھتی طویل راستے دھول اور گردوغبار سے اٹے ہوئے۔۔۔ ناکافی سہولیات۔۔۔ تب میں سوچتی کہ جس قوم کی عورتیں اتنی پر عزم ہوں انکو کون شکست سے دوچار کر سکتا ھے۔۔۔ دور دراز سے طویل سفر کر کے، اپنے آرام دہ گھر چھوڑ کر یہاں کونسی قوت انہیں کھینچ لائی جبکہ نہ لائیو کوریج ھے کسی چینل کی نہ کوئی معاشی مفاد وابستہ ہے، نہ اقتدار کی ھوس نہ کرسیوں اور مناصب کا شوق، نہ کوئی معاوضہ دیا گیا انہیں یہا ں آنے پر پھر بھی اتنا اعلی نظم و ضبط ، صبر و شکر یہ سب نظر یہ کی قوت ہے وہی نظریہ جسکی بنیاد پر اس ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا وہی نظر یہ جس کے لئے کون کے دریا پار کئے گئے وہی نظر یہ جو اس خاک کے ہر ذرے میں پنہاں ہے اور وہ ہے لا الہ الا للہ اور نظریے کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی، نظریہ کو خریدا نہیں جاسکتا، نظریہ پر سوگ طاری نہیں ہوسکتا، نظر یہ کبھی مایوس نہیں ہوتا جب تک زندہ رہتا ہے قومیں زندہ رہتی ہیں اور اس نظر یہ کی زندگی ہی قوم کی بقا ہے۔ یہ نظریاتی لوگوں کا گروہ ہے۔ سید مودودی نے اسلامی اصولوں کی روشنی میں انکی شخصیت سازی کی ہے۔
اسلامی انقلاب کا پرچم بلند کرنے اور ایک اسلامی پاکیستان بنانے کا عزم گھروں سے لے کر نکلنے والی یہ خواتین جانتی ہیں کہ انہیں مغرب کی لادین معاشرت کے غارت گر اخلاقی طوفان سے مقابلہ درپیش ہے اور اہل مگرب کو اپنی ملحدانہ تہذیب اور ایجنڈوں کو پھیلانے کے لئے جس سپاب کی ضرورت تھی وہ اسے خود ہمارے ہی معاشرے سے باآسانی دستیاب ہوگئی جدید طاغوتی تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے ہم نے اپنی پوری خدمات پیش کر دی ہیں اور انہوں نے اور انہوں نے ملالہ کی صورت میں رول ماڈل پیش کیا۔
لیکن اگلے دن ٢٢ نومبر کو خواتین کانفرنس میں ایک لاکھ کے لگ بھگ خواتین کا جوش اور جزبہ دیدنی تھا جنکی موجودگی اس بات کا اعلان تھی کہ وہ نہ دین کو مسجد اور خانقاہ تک محبوس رہنے دینگی نہ ملالہ انکی رول ماڈل ہے بلکہ اسلام کے دیئے ہوئے اصولوں کی روشنی میں بدلتی ہوئی دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے حساھ بھی ہیں اور تیا ر بھی اور دنیا کی سپر پاورز اور انکی آلہ کار قوتیں اسلامی تہذیب اور معاشرت اور اسلامی سیاست اور قانون کے خلاف جو اعلان جنگ کر چکی ہیں ایک پاکستانی مسلمان عورت ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح بیدار ہے اور کل پاکستان اجتماع عام سے ہر کارکن اپنی بھاری تحریکی ذمہداریوں کا شعور و احساس لیکر رخصت ہوا کہ اب انہیں معاشرے کی تاریکیوں میں گھر گھر دئیے روشن کرنا ہیں اور ایک ایک دل تک اللہ کے دین کی یہ روشنی پہنچانا ہے۔
فیس بک تبصرے