سانحہ پشاور میں شہید ہونے والے معصوم بچوں نے اپنا لہو دیکر قوم کو متحد کردیا ہے۔ اس دلدوز سانحے کی ہر جانب سے مذمت کی گئی اور قاتلو ں کے لیے سخت ترین سزائوں کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بات درست بھی ہے کیوں کہ جب تک مجرموں کو سزا نہ ملے ، وہ اپنے انجام کو نہ پہنچیں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی جرائم کی بیخ کنی ہوسکتی ہے ۔ دیکھیں ایک سیدھی سی بات ہے کہ جب ایک فرد کسی کا موبائل چھین لے، پولیس اسے گرفتار کرے اور معمولی سزا دیکر یا رشوت لیکر چھوڑ دے تو جانتے ہیں کیا ہوگا؟؟ اس موبائل چور کے دیگر دوست یار بھی یہ سوچیں کہ یہ تو بڑا آسان کام ہے، موبائل چھینو، بیچو اور پیسے کمائو اگر پولیس پکڑ لے تو رشوت دو اور چھوٹ جائو رونہ دو چار مہینے جیل میں گزارو اور پھر واپس آجائو، اس کے برعکس اگر اسے فرد کو کڑی سزا دی جائے اور اسے نشانِ عبرت بنا دیا جائے تو کئی ایسے لوگ جن کے دماغ میں موبائل چوری کا کیڑا کلبلا رہا ہوگا وہ اپنی موت آپ مرجائے گا۔یہی معاملہ قتل کا ہے جب تک قاتلوں کو سزائے موت نہ دی جائے تب تک قتل کے واقعات میں کمی نہیں آسکتی۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ایسے مجرموں کو سزائے موت جیل کی چار دیواری کے بجائے کھلے میدان میں سرِ عام دی جائے تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔صد شکر کہ شہید طلبا وطالبات و اساتذہ کی قربانی سے یہ فائدہ تو ہوا کہ یورپی یونین کے خوف سے سزائے موت پر لگائی گئی پابندی ہٹا لی گئی اور ابھی تک چھے مجرموں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے۔
لیکن دوستو! اس واقعے کی آڑ میں میڈیا اور لبرل طبقے نے مدارس اور علما کے خلاف جو محاذ کھولا ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔اگر طالبان انتہا پسند ہیں تولبرل ، سیکولر طبقے کا یہ رویہ بھی انتہا پسندی ہی ہے۔مولانا عبدالعزیز ایک جذباتی فرد ہیں اور اس سانحے سے قبل انہوںنے دو ٹی وی انٹریوز میں انتہا پسندانہ خیالات کا اظہار کیا، لیکن سانحہ پشاور کی تو انہوںنے بھی مذمت کی ، اس کو پسند تو انہوںنے بھی نہیں کیا۔ پھر ان کے خلاف محاذ کھولنا، وہاں مظاہرے کرنا کس حد تک درست ہے۔ لبرل سیکولر طبقے کی انتہا پسندی اور تعصب کا یہ حال ہے کہ گزشتہ روز جماعت اسلامی کراچی کے دفتر کے باہر بھی مظاہرہ کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ جماعت اسلامی اس سانحے کی مذمت کرے۔ حالانکہ کہ جماعت اسلامی نے اس سانحے کی نہ صرف پُر زور مذمت کی بلکہ قاتلوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی سفارش کی، سانحے کے فوری بعد ہونے والے اجلاس میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اس سانحے کے ذمہ داران کے خلاف قوم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ہر معاملے ہر قوم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔نہ صرف یہ بلکہ انہوںنے تو پھانسی کی سزائوں پر عملدرآمد کو بھی خوش آئند قرار دیا ۔ یہ ساری باتیں اخبارات اور میڈیا میں شائع ہوچکی ہیں لیکن اس کے باوجوداس موقع پر جماعت اسلامی کے خلاف مظاہرہ کرنا دراصل قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش اور لبرل سیکولر طبقے کا تعصب اور تنگ نظری ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ انتہا پسندی چاہے کسی کی بھی جانب سے ہو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس واقعے کی آڑ میں صرف مذہبی اور دین جماعتو ں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اگر اس رجحان کا خاتمہ نہ ہوا تو یاد رکھیں کہ ان معصوم بچوں کا خون رائیگاں جائے گا اور قومی اتحاد اور یکجہتی کی جو فضا قائم ہوئی ہے وہ ختم ہوجائے گی اور قوم ایک بار پھر منتشر ہوجائے گی۔ اس لیے خدارا قوم کے اتحاد اور یکجہتی کو توڑنے کی کوشش نہ کریں۔
فیس بک تبصرے