2 جون 2014 کو اخبار کے دفتر جاتے ہوئے موبائل فون کی گھنٹی بجی، دفتر کے ایک ساتھی کا فون تھا ، میں نے جیسے ہی فون آن کیا ان کا پہلا سوال تھا کہ ’’سلیم بھائی پاکستان ٹور پر گئے ہوئے لوگوں کے حوالے سے کیا خبریں ہیں ؟ کوئی حادثہ ہوگیا ہے کیا؟ میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار تو انہوں نے کہا کہ آپ معلوم کریں کچھ ایسی اطلاعات آرہی ہیں۔اتنی بات کرکے انہوں نے فون بند کردیا لیکن میرے دل میں وسوسے اٹھنے لگے اور دل ہی دل میں دعائیں مانگتے ہوئے میں نے شجیع بھائی کا نمبر ڈائل کیا لیکن کسی نے فون نہین اٹھایا، تین چار بار کوشش کے بعد نعمان حمید اور صہیب بھائی کا نمبر ملایا لیکن نتیجہ وہی رہا۔اتنے میں ایک اور دوست کا فون آیا اور اس نے بھی مجھ سے حادثے کے متعلق دریافت کیا، میں نے کہا مجھے کچھ پتا نہیں ہے ،ہوا کیا ہے؟، دوست نے کہا چینلز پر خبر چل رہی ہے کہ شجیع بھائی دریا میں ڈوب گئے ہیں ۔ اُس کا جواب سن کر میرے اوسان خطا ہوگئے ، ایسا حادثہ ہوگا یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔
نصرا للہ خان شجیع بہادری و شجاعت کا پیکر تھے، وہ اسمِ بامسمیٰ تھے ۔میری نصر اللہ بھائی سے پہلی ملاقات غالباً 1997میں ہوئی تھی جب وہ ناظم کراچی تھے اور میں جمعیت کا رفیق تھا۔ ہمارے ناظم صاحب ناصر اشفاق بھائی نے ناظم کراچی سے انفرادی ملاقات کی پروگرام رکھا تھا ۔ اس ملاقات میں نصر اللہ بھائی سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات ہوئی تھی۔اس ملاقات میں انہوں نے میری نمازوں ، مطالعہ قرآن ، مطالعہ حدیث اور جمیعت کے پروگرامات میں شرکت کے حوالے سے بات چیت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تعلق باللہ اور اجتماعیت کے ساتھ جڑنے کے حوالے سے مفید مشورے دیئے۔ انفرادی ملاقات کے بعد ناظم صاحب کے ساتھ ناشتہ کیا گیا۔نصراللہ بھائی یہ سے انفرادی ملاقات اور ان کے ساتھ ناشتہ میرے لیے ویسے بھی اعزاز کی بات تھی اور نصرا للہ بھائی کی شہادت کے بعد تو یہ لمحات اب زندگی کا سرمایہ محسوس ہوتے ہیں۔
اس ملاقات کے بعد نصر اللہ بھائی سے کبھی براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ، نصرا للہ بھائی صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی بنے، جلسے جلوسوں کی قیادت بھی کرتے رہے، کم و بیش گیارہ بارہ سال بعد عثمان پبلک اسکول کیمپس VIII میں میرا تبادلہ ہوا۔ نصرا للہ بھائی بھی کیمپس VIII میں ہوتے تھے۔ میرا خیال تھا کہ جب میں ان کے پاس جاؤں گا تو وہ مجھے پہچان نہیں پائیں گے، ایک تو اتنا عرصہ گذر گیا اور پھر نصرا للہ بھائی سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور انتہائی مصروف انسان ہیں ، انہیں بھلا یہ مختصر سی ملاقات کہاں یاد رہی ہوگی؟ لیکن جب میں کیمپسVIIIپہنچا اور نصرا للہ بھائی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے دیکھتے ہیں اپنی مخصوص بھاری بھرکم آواز میں نعرہ بلند کیا’’ سائیں چھا حال آہے ؟‘‘ معلوم ہوا کہ شجیع بھائی کو وہ مختصر ملاقات ابھی تک یاد تھی۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
یہ مرحلہ تو گذر گیا اب ایک دوسرا مسئلہ درپیش تھا کہ مجھے ہنسی مذاق کی عادت ہے اور میں آفس میں لطیفہ سناتا رہتا ہوں لیکن نصرا للہ بھائی کے خوف سے سہما سہما رہتا ، یہی سوچتا کہ ان کو میری کوئی بات بری نہ لگ جائے لیکن چند دنوں میں ہی مجھے محسوس ہوا کہ اسمبلی کی رکنیت نے ان کے مزاج پر کوئی اثر نہیں ڈالا تھا اور نہ ہی ان کی گردن میں وہ مخصوص سریا جو کہ عموماً ہمارے معمولی سے یونین یونسلر کی بھی گردن میں فٹ ہوتا ہے۔ نصرا للہ بھائی انتہائی محبت ، خلوص اور خوش اخلاقی سے ہم لوگوں سے ملتے اور محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے درمیان بیٹھنے والا یہ فرد قومی سطح کا انتہائی اہم رہنما ہے۔
آفس میں چائے کے وقفے میں سب لوگ کچھ رقم ملا کر کوئی نہ کوئی چیز منگواتے کبھی پیٹیز، کبھی بسکٹ، کبھی پراٹھا وغیرہ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ بھی اس میں حصہ ملائیں اور اس کام کی ذمہ داری بھی آپ کی ہی ہوگی کہ روزانہ سب سے رقم جمع کرکے کچھ نہ کچھ منگوالیا کریں۔ میں نے صہیب بھائی کے مشورے سے روزانہ کا ایک مینو بنایا اور ان سے کہا کہ اگر تمام لوگ روزانہ پیسے دینے کے بجائے ماہانہ 300روپے دیدیا کریں تو زیادہ آسانی ہوگی اور روزانہ مختلف اشیاء منگوانے کے بجائے ہم کوئی ایک کھانے کی چیز منگوالیں گے۔ اس تجویز کو نصرا للہ بھائی نے بھی پسند کیا اور اس کی پابندی کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ شجیع بھائی نے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی کہ آج فلاں چیز منگوا لیں یا فلاں چیز منگوالیں بلکہ مینو کے مطابق جو چیز منگوائی جاتی وہ سب کے ساتھ وہی چیز کھاتے ۔ ان کا یہ عمل اجتماعیت کے ساتھ رہنے اور
دوسروں کی رائے کا احترام کرنے کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
اسلامی نظامت تعلیم نے عسکری پارک میں ’’اسٹوڈینٹس گالا ‘‘ کا اہتمام کیا۔اس میں سائنسی نمائش کا بھی اہتمام تھا ،اس میں ہمارے کیمپس کے طلبہ نے بھی حصہ لیا اور ہم نے وہاں تین اسٹال لگائے تھے۔ ان میں سے ایک سٹال غالباً جماعت پنجم کا تھا اور اس میں ہمارے ہونہار طالبعلم عبد الرحمن حبیب ( جو کہ اس وقت پانچویں جماعت میں تھے ) موجود تھے پہلے دن کا واقعہ ہے کہ ہمارے اسٹال تیار تھے ، لوگوں کا رش بھی تھا لیکن ہمارے اسکول کے اسٹال کی جانب کوئی نہیں آرہا تھا، نصرا للہ بھائی اس صورتحال کو دیکھ رہے تھے، ان کے ساتھ صہیب بھی موجود تھے۔ میں نے نصرا للہ بھائی سے کہا کہ شجیع بھائی چلیں اسٹال کا ٹیمپو بناتے ہیں ، یہ کہہ کر میں عبدالرحمن کے اسٹال پر گیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کا کس چیز کا اسٹال ہے؟ عبدالرحمن سمجھا کہ میں مذاق کررہا ہوں لیکن میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے بتائیں ، انہوں نے بتانا شروع کیا، ڈپٹی ڈائریکٹر میڈم راحیلہ بھی وہاں موجود تھیں، جب عبد الرحمن نے بولنا شروع کیا تو میڈم بھی وہاں آگئیں، شجیع بھائی بھی آگئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسٹال پر رش لگ گیا،( یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ہم اپنے سارے سازو سامان کے ساتھ آئے تھے لیکن اتفاق سے اسکول کے نام کا ایک بھی بینر ساتھ لانا بھول گئے اور ہمارے اسٹال بغیر بینر کے تھے) اچانک میں نے عبدالرحمن کو روکا اور پوچھا ’’ آپ کا تعلق کس اسکول سے ہے؟ ‘‘ انہوں نے اسکول کا نام بتایا تو میں پوچھا اور کیمپس کون سا ہے؟ انہوں نے کیمپس کا نام بتایا تو پھر میں نے اچھا اچھا اب آپ اپنے پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں۔ عبدالرحمن نے پروجیکٹ کے بارے میں تفصیلات بتائیں ، حاضرین نے بھی چند سوالات کیے ۔ نصرا للہ بھائی یہ سارا ماجرا دیکھ کر مسکراتے رہے، بعد میں جب بھی وہ دیکھتے کہ اسٹال خالی ہے تو مجھے کہتے ’’ سلیم بھائی جائیں ذرا ٹیمپو بنائیں‘‘ اور جب میں جانے لگتا تو پیچھے سے شرارت بھری آواز میں کہتے ’’ سلیم بھائی اسکول کا نام پوچھنا مت بھولیے گا‘‘ اور جب میں پلٹ کر دیکھتا تو وہ اور صہیب بھائی ہنس رہے ہوتے۔
کیمپس میں کوئی تقریب تھی شائد عید ملن ہورہی تھی۔ چھٹی کے وقت بڑی جماعت کے طلبہ نصر اللہ بھائی کے ساتھ تصاویر بنارہے تھے اور شجیع بھائی بھی ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے خوشدلی سے تصاویر بنوا رہے تھے، کیمپس کے خاکروب موسیٰ کو بھی دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی شجیع بھائی کے ساتھ تصویر بنوائے لیکن یہ بات کہنے کی اس کی ہمت نہیں ہورہی تھی وہ بار بار شجیع کے قریب آتا اور پھر جھجک کر پیچھے چلا جاتا، شجیع بھائی نے اس کی کیفیت بھانپ لی اور پکارا ’’ کیا ہوا موسیٰ تصویر بنوانی ہے؟‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو شجیع بھائی نے اس کو اپنے قریب بلایا اور اس کے ساتھ کھڑے ہوکر تصاویر بنوائیں۔
احساسِ ذمہ داری:
طلبہ کے مسائل اور ان کے معاملات میں شجیع بھائی گہری دلچسپی لیتے ۔ بچوں نے پکنک پر جانا ہے، فارم ہاؤس پر رکنا ہے، اسکول میں کوئی تقریب ہے۔ شجیع بھائی ایک ایک چیز کو خود دیکھتے ، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ شجیع بھائی نے کوئی کام کسی کے ذمہ لگایا ہو اور خود بری الذمہ ہوگئے ہوں۔ فارم ہاؤس جانا ہے تو فارم ہاؤس منتخب کرنے میں وہ خود حصہ لیتے، خود جاکر دیکھتے کہ فارم ہاؤس کیسا ہے؟ کیا کیا سہولیات ہیں؟ جگہ کیسی ہے؟ اگر اسکول میں تقریب ہے تو ایک ایک چیز کو خود بھی دیکھ رہے ہیں سامان مکمل ہے؟ بچوں کی تیاری ہے؟ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی ہے؟ پھر وہ کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں طلبہ کے ساتھ فارم ہاؤس پر ضرور رکتے ۔ رات میں جب سارے طلبہ اور سٹاف تھک ہار کر سوجاتا نصرا للہ بھائی اس وقت بھی جاگتے رہتے ۔ ان کی شہادت دراصل ان کی فرض شناسی اور احساسی ذمہ داری کی ہی شہادت ہے۔
نگاہ بلند سخن دلنواز
شجیع بھائی کے ساتھ کام کرنے کے دوران کبھی انہوں نے ایک افسر بن کر ہم سے بات نہیں کی بلکہ تمام اساتذہ اور عملے کے ساتھ ان کا رویہ انہتائی نرم اور مشفقانہ ہوتا تھا۔ کسی کی بڑی سے بڑی غلطی پر بھی وہ بہت نرمی سے سرزنش کرتے، اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے صرف سرزنش کی ہو اور غلطی کو ازالہ کرنے کی صورت نہ نکالی ہو، بلکہ وہ صورتحال کے مطابق مسئلے کا حل نکالتے اور پھر سمجھاتے کہ اگر اس طرح کرلیتے تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ پھر بات یہیں تک ختم نہیں ہوجاتے وہ اگلے کام کا بھی جائزہ لیتے ، اس کی منصوبہ بندی میں اگر کوئی کمی یا خامی محسوس کرتے تو اس کو بھی درست کرواتے تاکہ غلطی کا امکان ہی نہ رہے۔
اسٹاف میٹنگ میں تو لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم کسی میٹنگ میں ہیں بلکہ ایسا لگتا تھاکہ کوئی اجتماع ہورہا ہے اور نصرا للہ بھائی تمام لوگوں سے بڑی نرمی اور ملائمت سے بات کررہے ہیں۔ اگر کسی فرد نے کوئی غلطی کی ہے تو میٹنگ میں کبھی انہوں نے نام لیکر اس کی سرزنش نہیں کی بلکہ سنتِ رسول ؐ کے عین مطابق شجیع بھائی عمومی انداز میں بات رکھتے تاکہ متعلقہ فرد تک بات پہنچ جائے اور دیگر لوگ ایسی غلطی نہ کریں۔
شجیع بھائی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں ان کی باتیں ہمیں یاد آتی رہیں گی۔ ان کے طلبہ اور ان کے ساتھی آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔
بچھڑا کس اس اد اسے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
(نوٹ:یہ مضمون شجیع بھائی کی یاد میں تیار ہونے والے مجلے کے لیے لکھا گیا تھا)
May Allah accept his shahadah and help us follow his path.
یقیناً وہ پہاڑی کا چراغ تھا کہ جو لوگوں کو راستہ دکھاتا رہا
میری تحریر نصراللہ بھائی کیلئے میرے بلاگ پر
http://www.draslamfaheem.com/2014/06/pahari-ka-charagh.html