16دسمبر پاکستان کی ملی تاریخ کاایک انتہائی افسوسناک دن۔۔۔ جب ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا۔بہت کچھ اس موضوع پر لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ ابھی لکھا جا سکتا ہے کیانکہ کسی ایک فرد کی داستان نہیں ہے اور نہ کسی ایک گروہ کی بلکہ یہ تو ہماری اجتماعی بے حسی کا نوحہ ہے۔۔۔
آج بھی جب یہ دن آتا ہے تو ذہنوں میں کئی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ہم وہ نسل ہیں جنھوں نے اس دن کا خود سے مشاہدہ نہیں کیا۔ لیکں تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر تاریخ سے سبق ھاصل نہ کیا جائے تو انجام کار سنگین ہو سکتا ہے۔ لیکن کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ تایخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسانوں نے کبھی تاریخ سے سبق حاصل نہ کیا۔۔۔ ورنہ ہماری داستان شاید کچھ مختلف ہوتی۔
بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے جنرل سیکٹری قمر الزماں صاحب کے پھانسی کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ تو اپنے رب سے ملاقات کے منتظر ہیں اور کیا خوب ملاقات ہوگی ان شائ اللہ لیکن ان پر ظلم ڈھانے والے اپنے انجام سے اس قدر بے خبر کیوں ہیں۔ انہیں اپنا انجام کیوں نہیں دکھائی دیتا؟اس سے قبل عبدالقادر ملا کو تختِ دار پر چڑھایا گیا، مولانا غلام اعظم قید میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے لیکن اس شان سے کہ۔۔۔ یہ شان سلامت رہے۔۔۔؎
ان سب کا جرم کیا ہے۔۔۔ صرف یہ کہ انہوں نے پاکستان کو تقسیم ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔۔۔اس خطہ زمین پر اللہ کے نام کا بول بولا چاہتے تھے۔۔۔ یا یہ کہ انہوں نے ظلم کے آگے سرنگوں ہونے سے انکار کیا۔
مشرقِ پاکستان کی علیحدگی کا ذکر ہو تو۔۔۔ قصوروار نا عاقبت اندیش حکمران بھی ہیں۔۔۔ ہمارے مفاد پرست سیاست دان بھی اور چب سادھ لینے والے عوام بھی۔۔ہر ایک نے اپنا حصہ ڈالا۔ نفرت کی آگ بہت کچھ بھسم کر ڈالتی ہے۔ پھر اقتدار کی کشمکش میں انا اور ہوس بڑاکام دکھاتی ہے۔
ریاست کے خلاف احتجاج ہمیشہ اقلیتی پارٹی کرتی ہے لیکن سقوط مشرقی پاکستان کا یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ اکثریتی پارٹی نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔ اس پارٹی نے جسے انتخابات میں عام کی اکثریت حاصل ہوئی۔حقدار کو اس کا حق نہ ملے اور جب ظلم و ستم عام ہوجائے تو ایسے ہی سانحات رونما ہوتے ہیں۔۔۔
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہمارا اصل دشمن کون ہے۔ لیکن ہمارے حکمران،ہمارا میڈیا ـ’’امن کی آشا‘‘۔۔۔ کے راگ الاپ الاپ کر نہیں تھکتا ۔ اور کبھی حکومتی ایوانوں سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ہماری زبان ایک ہے، ہماری تہذیب ایک۔۔۔ تو پھر یہ سارے جھگڑے کیوں۔۔۔؟کیوں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی گئیں۔۔۔ کیوں خونی کی ہولی کھیلی گئی ۔ کیوںہمارے بزرگوں نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔
کیا یہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی نہیں ہے۔۔۔ اپنی کرسیوں کو مضبوط کرنے کے لیے کیسے کیسے حربے آزمائے جاتے ہیں۔ کاش کہ ہمارے حکمران تاریخ سے سبق حاصل کریں ۔ قوموں کی تاریخ میں آزمائشون کاآنا ایک فطری عمل ہے لیکن اس سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ اور غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کا داعیہ اپنے اندر پیدا کرنا اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دکھ تو اور بھی بہت سے ہیں۔ مگر سانحہ مشرقی پاکستان کے اہم کردار سابق وزیر اعظم کے نواسے کا یہ جملہ کہ ــ’’جماعت اسلامی کے ساتھ جو کچھ بنگلہ دیش میں ہورہا ہے وہ یہاں بھی ہونا چاہیے‘‘۔ گو یہ بات بہت پرانی ہوچکی ہے؛ لیکن زبان کا گھاؤ بہت دیر میں مندمل ہوتا ہے اور پھر ان سے امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔۔۔لیکن ابھی تو بیالیس سالہ پرانا زخم بھی نہیں بھرا۔۔ ۔ پھر اس پر اپنوں کے رویے۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
فیس بک تبصرے