شورش کاشمیری کہتےتھے کہ آج ہم مردہ یزید پر تو لعنت بھیجتے ہیں مگر زندہ یزیدوں کی پوجا کرتے ہیں۔
ذکر شہادت حسین اور ظلم یزید اسلامی سال کے آغاز سے ہی عوام کو گھنٹوں سیر حاصل گفتگو کا سالانہ موقع فراہم کرتا ہے۔ محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی لوگ باقاعدہ اس موضوع پر بات کرنے کے لئے محافل سجاتے ہیں۔ اہل تشیع اس موقع پر غم واندوہ کا اظہار اجتماعی زنجیر زنی کے ذریعے کرتے ہیں اور سنی مسلمان اصل حقائق لوگوں تک پہچانے اور نئی نسل کو آگاہ کرنے کیلئے اجلاس منعقد کرتے ہیں، بہرحال واقعہ کربلا ایک ایسا سانحہ عظیم ہے جس پر تا قیامت مسلمان رنجیدہ ہی رہیں گے۔
اس سالانہ یاد دہانی کے موقع پر لوگ یہ یاد کرتے ہیں کہ سانحہ کربلا کس طرح پیش آیا تھا مگر اصل محرک ہی بھول جاتے ہیں ، یا پھر اگر بھولتے نہیں ہیں تو یقینا اس عظیم شہادت کا مقصد اہم نہیں سمجھتے کہ اس کو پورا کرنے کیلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کی جرات کر پائیں۔ پیدائش حسینؓ کے ساتھ ہی شہادت کی خبر بھی آنحضرت ﷺ کو سنا دی گئی تھی سو واقعہ کربلا تو پیش آنا ہی تھا کہ یہ اللہ کے طے شدہ فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھا مگر اس سانحے کا سبب بننے والوں کے لئے معافی نہیں ہے۔
اصلا معاملہ ہی ہے کہ اسلام زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرنے والا ایک مکمل دین ہے اور اسلام نے سیاست کے میدان کو بھی ہدایات سے خالی نہیں چھوڑا ۔ خلافت وہ طرز سیاست و حکمرانی ہے جو اسلام کے اصولوں پر کھرا اترتا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ طرز خدمت گزاری ہے اللہ کی اور اللہ کے بندوں کی بھی۔ کیونکہ حکومت تو بہرحال اللہ ہی کی ہے اور خلیفہ ہو نے کا مطلب ہے کہ اللہ کے بندوں کو ایسا رہبر مہیا کرنا جو اللی کے بندوں کو اللہ کے راستے کی طرف لے کر چلنے والا ہو اور اس راہ میں آنے والی مشکلات اور شیطان کے کارندوں سے لڑنا جانتا ہو۔
خلافت ایک قطعی اسلامی جمہوریت ہے جس میں امیر عوام کے مشورے سے چنا جاتا ، یہاں لوگ خود کو رہنمائی کے لئے پیش نہیں کرتے بلکہ عوام جسے صالح اور قابل سمجھتی ہے اسے قیادت کا موقع دیتی ہے۔ اس نظام کے تسلسل میں رکاوٹ کا پہلا پتھر پھینکا تھا امیر معاویہ نے، جنہوں نے حضرت علیؓ کے بعد خود کو قیادت کیلئے پیش کیا ۔وہ دور کیسا تھا وہ علیحدہ بحث ہے مگر اس وقت متعلقہ بات ہی ہے کہ رکاوٹ کا دوسرا پتھر بھی امیر معاویہ ہی کی طرف سے آیا کہ انھوں نے قبل از مرگ اپنے بیٹے یزید کو اپنا جان نشین مقرر کر دیایعنی اپنے بعد خلافت اپنی ہی اولاد کے سپرد کر دی۔ یہ نسل در نسل اقتدار کا سونپا جانا بادشاہت کہلاتا ہے، ایک ایسا طرز حکومت جس کی اسلام نے مذمت کی ہے اور جو ااکثر اوقات ہی غیر مسلم حکومتوں میں دیکھنے میں آیا کرتا تھا اور جس کو توڑنے کے لئے ہی اسلام نء خلافت کی حمایت کی تھی۔بہرحال یزید کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا ، ہے اور رہے گا کہ وہ ایک برا شخص تھا جسے اللہ کے اصولوں سے کوئی سروکار نہ تھا بلکہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر اللہ کے بندوں کو کاربند دیکھنا چاہتا تھا۔
اللہ کے نبی ﷺ کے نواسے جنگ و جدل کے حامی نہ تھے مگر جب کوفہ والوں کا اصرار پہنچا اور یزید کا کردار دیکھا تو جہاد ناگزیر محسوس ہوا۔ یہ جہاد نہ صرف یزید اور اس کے پیروکاروں کے خلاف تھا بلکہ اس نظام سیاست یعنی بادشاہت کے خلاف بھی تھا کہ کوئی بھی خلیفہ اپنی نا اہل اولاد کو پوری مسلمان امت کی قیادت سونپنے کا مجاز نہیں ہے۔ یہ سراسر نا انصافی اور پوری امت مسلمہ پر ظلم ہے۔
اب اگر یزید ہی تخت نشین رہتا تو نہ صرف یہ کہ مسلمان بھی اسلامی تعلیمات سے دور ہو جاتے اور شیطانی اعمال اختیار کرتے بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو یہ پیغام جاتا کہ اگر کوئی مسلمان غلط کردار کے باوجود بھی ہماری رہنمائی کرنا چاہے تو اسے کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ ناپسند کرنے والے خاموشی اختیار کر لیں کیونکہ اہل بیت بھی خاموشی رہے۔ اگر یہ عمومی تاثر دنیا میں جاتا تو شاید آج اسلام اس دنیا میں موجود ہی نہ ہوتامگر اللہ کے ساتھ غیور مسلمانوں کو بھی اسلام کی زندگی عزیز تھی سو اپنی جانیں راہ حق میں قربان کیں اور اسلام کی رگوں میں اپنا خون دوڑایا
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اب ذرا ہم اپنے حال پر نظر کر لیں، کیا اسی یزیدیت کی گرفت میں ہم نہیں پھنسے ہوئے؟ہماری سیاسی جماعتیں اسی طرز بادشاہت پر قائم ہیں، وہ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم ہو یا کوئی اور جماعت، سالہا سال سے ایک ہی پارٹی صدر کیوں موجود ہے؟ جمہوریت کا نعرہ لگانے والے پارٹی میں جمہوریت کے قائل کیوں نہیں ہیں؟کیوں پارٹی الیکچن نہیں کرائے جاتے یا اگر کرائے جاتے ہیں تو ان کے نتائج عوام کے سامنے کیوں نہیں لائے ؟ سیاسی جماعتوں کی بادشاہوں کی اولادوں میں وہ کون سی خصوصٰات ہیں جو پارٹی کے سینئیر سیاستدانوں میں نہیں ہے؟
ہم جب یونیورسٹی میں تھے تو ہمارے ڈیپارٹمنٹ ادارہ علوم ابلاغیات میں تقریب ملاقات ہوا کرتی تھی، مختلف ٹی وی چینلز کے پروگرام بھی ہوتے رہتے تھے، ایک بار تقریب ملاقات اور نجی ٹی وی کا پروگرام دونوں ساتھ کرنے کا ارادہ ہوا اور سعد رفیق کو مدعو کیا گیا۔ ایک طالب علم نے ایک قطعی نئے سیاست دان کے بارے میں سوال کیا کہ آپ اگر انھیں پارٹی ٹکٹ دے سکتے ہیں الیکشن لڑنے کیلئے تو ہمٰیں کیوں نہیں۔ ہماری تو ڈگری بھی جعلی نہیں ہے اور ہم صلاحیت شاید ان سے بھی زیادہ ہے سعد رفیق نے بنا توقف جواب دیا کہ آپ کو ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے، وہ بڑے تجربہ کار ہیں اور جیل میں بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اس جواب نے مجھے ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ ہم کیسی قوم ہیں جو مجرموں کو رہنماگردانتی ہے اور ان کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو پاگل قرار دیتی ہے اور پاگل قرار نہ بھی کہے تو حوصلے ضرور پست کر دیتی ہے کہ ہونا کچھ بھی نہیں ہے تم اپنی سی کر لو۔ حالانکہ اللہ نے کوشش کرنا فرض کیا ہے، مثبت نتائج حاصل کرنا نہیں۔
ہم خود مجرموں کو آگے آنے کا موقع دیتے ہیں ۔ ہمیں صالح ، سچے اور ایماندار لوگ پسند نہیں آتے ۔ ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ کون بہتررہنما ہے اپنا ووٹ انھیں مجرموں کے نام کرتے ہیں جن سے پہلے پریشان رہ چکے ہوتے ہیں۔، پھر ووٹوں کے دم پر جب پھر سے یہی بے ایمان منتخب ہوتے ہیں اور اقتدار میں رہ کر جرم کرتے ہیں تو ہمیں پھر مصیبت لگتی ہے حالانکہ یہ وہی مصیبت ہوتی ہے جو ہم نے خود اپنے لئے منتخب کی ہوتی ہے ۔ موروثی سیاست اور سیاستدانوں کے نا اہل وارثوں کو منتخب کرتے ہوئے ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی جگہ کسی قابل انسان کو کیوں نہیں دی جا سکتی؟
اس سب کی وجہ وہی ہے جو شورش کاشمیری بیان کرتے ہیں کہ
ہم مردہ یزید پر لعنت بھیجتے ہیں مگر زندہ یزید وں کی پوجا کرتے ہیں۔
فیس بک تبصرے