کیا مصیبت ہے؟ آج بھر وہی ماش کی دال، اور کچھ ہے ہی نہیں پکانے کو۔۔۔
رابعہ اپنی روز مرہ ذندگی سے تقریباً اُکتا چکی تھی۔ بظاہر اللہ کا دیا سب کچھ تھااس کے پاس مگر وہ دنیا کی رنگینیوں میں کھونے لگی تھی۔ یہ سطریں گذشتہ روز آنے والے اخبار میں شائع ہونے والے ایک افسانے کی تھیں۔ پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کبھی نہ کبھی اپنی زندگی میں بھی جانے انجانے مین یہ رُخ آہی جاتا ہے۔
کبھی کھانا پسند کا نہیں، تو کبھی زندگی کی آسائیشیں نہیں ہیں، کبھی گاڑی نہ ہونے کا شکوہ، کبھی بڑا گھر نہ ہونے کا دُکھ اور کبھی کچھ اور۔۔۔ غرض کہ جو نہیں ہے اس کی خواہش اور جو ہے اس کا شکرانہ ہی نہیں۔۔۔ بعض اوقات یہ سب بہت معمولی لگتا ہے مگر حقیقتاً یہ سوچیں ہمیں دیمک کی طرح اندر ہی اندر چاٹ رہی ہوتی ہیںاور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ کیسے ہماری ذات کوزنگ آلود کردیتی ہیں۔ ساتھ ساتھ انسان احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہوتے نفسیاتی مرض میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ایک قریبی عزیز کے نومولود بچے کی رسم عقیقہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں بھی یہی سب دیکھنے کو ملا۔ اس بات پر حیرت ہوئی کہ بجائے اللہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ نے والدین کو نعمت سے نوازا ہے۔ وہ مسلسل اسی بات پر پریشان رہے کہ جس باورچی سے کھانے کا انتظام کیا تھا وہ اس وقت شہر سے باہر گیا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھوں کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے، نہ جانے کھانا کیسا ہوگا؟
ڈیکوریشن کا انداز کیسا ہے؟ بس مناسب ہی ہے، ہمارا ارادہ تو شہر کے کسی بڑے فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھنے کا تھا۔۔۔ مگر وقت کی کمی بھی تھی اور آج کل شہر کے حالات بھی کافی ناخوش گوار ہیں۔۔۔ اسی لئے تقریب گھر ہی پر رکھنی پڑی۔۔۔ گویا کہ ہر جملے میں کفرانِ نعمت۔۔۔
اور جب وقتِ طعام آیا تو دل کے درد میں مزید اضافہ ہواکہ رسمِ عقیقہ اور چار قسم کے سالن، ساتھ چاول، اچار، چٹنیاں، سلاد، قلفی غرض کہ چائے کا بھی انتظام تھا۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ رسمِ عقیقہ نہیں ہے صدرِپاکستان کے آنے کی خوشی میں عشائیہ دیا گیا ہو۔ کفرانِ نعمت اور ناشکری تو ایک طرف دل اس بات پر مزید کڑھ رہا تھا کہ وقت اور پیسے کا کتنا زیاں ہے؟
ایک طرف یہ ہے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کہ تن پہ کپڑا نہیں ہے، کسی کے ہاتھ میں روٹی نہیں ہے، کوئی تعلیم سے محروم ہے، کسی کے سر پر چھت نہیں، کوئی صحت کی سہولت سے آراستہ نہیں، کوئی تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے، کوئی مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کردیتا ہے۔ کوئی کچرے سے کھانا چُن کر کھاتا ہے۔ کوئی کسی کی اُترن پہنتا ہے۔ یہ کیا ہے؟
ایک طرف تو اتنی فراوانی اور دوسری طر ف اتنی تنگی یہ کیسا انصاف ہے؟
تقریب سے واپسی پردل میں ایک خلش سی تھی۔ ایک عجیب سے احساس میں خود کو مبتلا پایا کہ کہیں میں خود توکفرانِ نعمت کرنے والوں میں شامل نہیں ہوں؟ کہیں میرا شمار بھی تو ان لوگوں میں نہیں ہوتا جو ہزارہا نعمتیں ملنے پرتو ذرا شکر ادا نہیں کرتے اور ایک چیز نہ ملنے پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں؟ْ کیا میری سوچ بھی زنگ آلود ہے؟
نہیں نہیں نہیں۔۔۔ میرے اندر کے ضمیر کی اس آواز نے مجھے جھنجھوڑا۔۔۔ میرے جسم کو حرکت دی تو ایک لمحے کو ایسا لگا کہ جیسے یہ میری زندگی کا کوئی نیا موڑ ہو۔۔۔ جہاں ناشکری کا کوئی لفظ مجھے دیمک کی طرح چاٹنے والا نہیں۔۔۔
الحمدوللہ میں زندہ ہوں،اشرف المخلوقات ہوں۔ میرے اللہ نے مجھے علم و آگہی دی ہے۔ اور مجھے اپنے اللہ پر پختہ یقین ہے کہ اُس نے مجھے وہ نہیں دیا جو مجھے پسند تھا بلکہ وہ دیا جو میرے اللہ نے میرے لئے پسند کیا۔
بہت اچھی سوچ