اقبال کا شاہین کون؟

yome-iqbal۹ نومبر کی تاریخ ہر سال کے کیلینڈر پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ اس دن کی اہمیت کے بارے میں آج کا نوجوان اس سے ذیادہ نہیں جانتا کہ یہ ’’یومِ اقبال‘‘ ہے۔ اور ایک اقبالؒ تھے کہ جن کو نوجوانوں سے بے تحاشہ امیدیں وابستہ تھیں۔
فرمایا کہ :
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کا م تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

یعنی نوجوان ہر قوم کا مستقبل ہیں۔ ان کو شاہین سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنی نگاہ اپنے مقصد پر رکھنی ہے۔ جیسے شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار پر رہتی ہیں جبتک کہ وہ اُس کو پا نہیں لیتا۔شاہین کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں ۔یہی عزائم اقبالؒ نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔
یہ تھے علامہ اقبالؒ۔۔۔

اور ہم اقبال کو کتنا جانتے ہیں؟
شاید صرف اتنا کہ بچپن سے اسکول کی اسمبلی میں پڑھتے چلے آئے۔۔۔
لب پہ آتی ہے دُعا بن کہ تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہوجائے

یہ اتنی پیاری دعا ہے کہ اگر اس کا مطلب صحیح معنوں مین جان لیا ہوتا تو یقیناًہر مقصدِ حیات میں کامیابی مل جاتی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نہ کبھی اس سے زیادہ جانا اور نہ جاننے کی کوشش کی۔ اتنا بھی اسکول کی حد تک ہے۔کالج اور یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے تو اقبالؒ صرف قومی شاعرہی رہ جاتے ہیں۔۔۔

اقبالؒ کی نظر میں نوجوان قوم کی اُمید اور یقین ہیں۔ انہیں کے دم سے ذندگی کی رونق ہے،عزت ہے اور امت کی بیداری ہے۔
ہم تو اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی بہترین طاقت و تعداد ہے۔ نوجوان ہماری قوت ہیں۔
مگر افسوس۔۔۔ کہ آج کا نوجوان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ غیر ملکی تقلید کو اپنانا چاہتا ہے۔ وہ اقبال ؒ کو نہیں ہالی وڈ کو جاننا چاہتا ہے۔

ایک موقع پر فلسطینی رہنماشیخ احمد یاسین نے فرمایا کہ:

اسرائیل سے ہماری جنگ یہی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم سے ہماری نوجوان نسل چھین لے اور ہم اسے بچانا چاہتے ہیں۔

اور کسی حد تک یہ ممکن بھی ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان کی فقط ظاہر ہی نہیں ان کی تہذیب بھی تبدیل کی جارہی ہے،اُن سے ان کا نظریہ چھینا جارہا ہے، ان کی شناخت تبدیل کی جارہی ہے، انہیں راحت پسند و کاہل بنایا جارہا ہے، ان کی ذندگی کا مقصد صرف دنیاوی لذت و شہوت رہ گیا ہے۔ اگر وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے تو صرف دنیا بچانے کے لئے، آخرت کے لئے نہیں۔۔۔

اقبال تصوف کے شاعر تھے۔ انہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور لوگوں میں شعور پیدا کیا، انہیں بیدار کیا۔۔۔ جس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ جی ہاں پاکستان بنا۔۔۔ گو کہ اقبال اُس وقت موجود نہیں تھے مگر یہ ان کا دیا ہوا علم تھا جس نے ان کے خواب کو پایہ تکمیل پہنچایا۔ ایسا ہی شعور ہم نے اپنی نسلوں میںآگے منتقل کرنا ہے۔ یہ ہماری اپنی غفلت ہے کہ ہم نے اپنی نسل میں اپنا دین، تہذیب اور زبان صحیح طریقے سے منتقل نہیں کی۔ ان کو بہترین تعلیم تو دینے کی کوشش کی مگر ان کے کردار و شخصیت پر ہماری کوئی توجہ نہیں۔۔۔

ہم نے اپنی آذادی کے لئے وقت سے پہلے اپنی نسل کو ٹی وی۔ موبائیل اور انٹرنیٹ تو دے دیا مگر کبھی اپنا قیمتی وقت دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔۔۔
تو پھر کیسے ہم امید رکھیں کہ ہمارا نوجوان ہماری امید بنے گا؟
کیسے قوم کا فخر بنے گا؟
کیسے اقبال ؒ کے شاہین کی طرح بلندی پہ پہنچے گا؟

اقبال کی سوچ یہ ہر گز نہیں تھی کہ نوجوان صرف دین کے تمام درجات کا علم حاصل کرلے تو وہ بہترین مسلمان کہلائے گا بلکہ انکی نظر میں تو بہترین مسلمان وہ ہے جو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی عبورحا صل کرے، دنیا کی ہر نئی آنے والی ٹیکنالو جی کے ساتھ مختلف زبانیں بھی سیکھے۔
اسی طرح نوجوان اقبالؒ کا شاہین بن سکتا ہے اور باطل قوتوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

مگر شرط یہ ہے کہ وہ اپنا مقصد حیات یاد رکھے نہیں تو اس کی تہذیب و تمدن غرض کہ اس کی

شخصیت بھی مسمار ہو سکتی ہے۔

بقول اقبال عظیم
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جائو گے
خواب ہو جائو گے افسانوں میں ڈھل جائو گے
اپنے پرچم کا رنگ کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جائو گے
دے رہے ہیں تم کو جو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تودہل جائو گے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جائو گے
تم ہو ایک ذندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جائو گے۔

فیس بک تبصرے

اقبال کا شاہین کون؟“ پر 2 تبصرے

  1. بہت خوب لکھا ۔
    آج کا نوجوان جس قدر تجسس اور تسخیر کا جویا ہے ، اُسے کلامِ اقبال میں اپنے سب سوالوں کا جواب ملتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اگر اقبال کو نصاب میں رہنے دیا جائے تب نا۔۔۔۔۔۔
    اقبال جدید دور کے تمام تقاضے پورے کرتے ہیں ، لیکن نوجوان نسل کی پہنچ سے دور ہیں۔
    اس ضمن میں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply