زہے مقدر۔۔۔

kabaسب سے پہلے ماہ رمضان میں رضیہ نے بتایا کہ حج پر جارہی ہوں! حج کا موسم آ گیا!! فوراً دل میں خیال آ یا۔ بالکل اس طرح جیسے کوئل کی کوک آ مد بہار کی اطلاع دیتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موسم بہار کا ہو یا حج کا اس کی تیاری پورے سال پر محیط ہوتی ہے۔ یہ بات وہ لوگ بہت بہتر سمجھ سکتے ہیں جو اس سا رے عمل کا حصہ ہوتے ہیںخواہ وہ منتظمین میں سے ہوں یا حج کر نے والوں میں سے! لیکن جو اس مقدس سفر پر چلا جا ئے اس کے دل کی ایک دھڑ کن وہیں رہ جاتی ہے اور پھر وہاں کی ہر جنبش سے متحرک ہوتی ہے۔کبھی کوئی خوشبوکا جھونکا، کبھی کوئی آواز یا تصویر وہیں پہنچا دیتی ہے خواہ کتنا ہی وقت گزرچکاہو۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ جو یہ کر چکا ہو دوبارہ کی آرزو کرتا ہے۔

ہمیں حج کیے ہوئے چار سال ہوچکے ہیں مگراس کا ایک ایک لمحہ یادوں میں اسی طرح تازہ ہے کہ محو ہونا بھی چاہے تو نہیں ہو پا تا کہ ہر سال حج کا موقع اس کو نمایاں کر دیتا ہے۔ الماری کے اوپر رکھا ہینڈ بیگ جس میں حج کے دوران استعمال گئی اشیاء تبرک کے طور پر رکھی ہیں۔ دراز میں نیچے کی طرف رکھی فائیل جس میں تمام حج کی متعلقہ دستاویزات رکھی ہیں ،چند سکے جو باقی بچ گئے تھے۔۔۔ اور تو اور کمرے میں رکھی سیاہ چپل جو ایک سو ساٹھ روپے میں حاجی کیمپ سے خریدی گئی تھی اور جس پر حج کا پورا سفر طے ہوا کبھی بھولنے دیتی ہے ؟جوگرز اور سینڈلز جو خاص حج کے لیے خریدے گئے تھے یوں ہی دھرے کے دھرے رہ گئے اور اس چپل نے ہمارے ساتھ حج کے تمام ارکان ادا کیے۔

اس کا پس منظر عرض ہے کہ 7 ذو الحج کو جب ہم سب نہا دھو کر تیار تھے چائے کا پرو گرام بنا۔چائے صبح شام بنائی اور پی جا تی ہے مگر اس وقت یہ انہونی ہوئی کہ گر ما گرم چائے ہمارے پاؤں پر اس طرح گری کہ آ نکھوں کے آ گے تارے آ گئے۔ تکلیف اور اس سے بھی زیا دہ اس بات پر آ نسو کہ اس زخمی پیر کے ساتھ کیسے حج کے ارکا ن ادا ہو سکیں گے؟ اب تو وقت آ یا تھا حج کے لئے کشید کی گئی توانائی کو استعمال کر نے کا! ایمر جنسی سی ایمر جنسی رہی! اللہ کا شکر ہے کہ سوائے اس کے کہ طواف افاضہ وہیل چئیر پر کر نا پڑا با قی تمام ارکان بخیر و عافیت اسی پائوں اور چپل سے ادا ہوئے۔ آج پائوں پر جلنے کوئی نشان نہیں ہے مگر بہر حال چپل کے حاجی ہونے کا اعزاز بر قرار ہے۔کمرے میں پاپوش پر رکھی اس چپل کافخر حج کی یاد کوماند نہیں ہونے دیتا،۔ اورتو اورمیڈیکل باکس میں رکھی مصری ساختہ بینڈیج ( جو استعمال کے بعد بچ گئی تھی ) کبھی کبھار ہمیں منٰی، عرفات اور مکّہ پہنچادیتی ہے۔۔۔۔

اس ایک خاص واقعے کے علاوہ بھی یادوں کا ایک سمندر ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا! کبھی بستر پر لیٹے لیٹے خود کوشہر مکہ کے ایک علاقے النز ھۃمیں شاہراہ منصور پر واقع نو منزلہ بلڈنگ، برج ایمن کی چوتھی منزل پر واقع ایک کمرے میں موجود پا تی ہوں جہاں سات خواتین قیام پذیر ہیں! اس کمرے میں موجود واحد کھڑ کی جس سے بہت دور تک کا منظر صاف اور واضح نظر آ تا تھا۔ کیونکہ یہ عمارت مضافا تی علاقے میں تھی لہذا یہاں دور تک محض پہاڑیاںاور ٹیلے تھے جن میں لڑکوں کی ٹولی کبھی کبھی کھیلوں میں مصروف ہوتی تھی۔ ہم اکثر اے سی آف کر کے کھڑ کی کھول کر اس خوشبو اور منظر کو اپنے اندر جذب کر نے کی کوشش کر تے جو ہمیں اس زمانے میں پہنچا دیتا جب محمد ﷺ یہاں موجود تھے!

کتنی حیرت انگیز خوشی کی بات ہے کہ ہمارا یہاں قیام پورے ایک ماہ کا رہا!26؍ اکتوبر سے 27 ؍ نومبر تک!گویا ہم یہاں مکین تھے! قصر کے بجائے پوری نمازیں ادا کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ جہاں ترپین سال رہے وہاں ہم ایک مہینے رہ کر ان کے محبوب شہر کے مکین ہونے کا فخر رکھتے ہیں! اس یقین کے ساتھ کہ ہم نے ان کی دعوت کو لبیکّ کہا ہے۔امید ہے کہ اللہ ہمارا انجام بخیر کرے گا ان شاء اللہ۔

کمرہ یاد آ یا تو وہاں کے ساتھی مکین بھی! عمر، مزاج، ذوق کی اقسام کے باوجود ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے ہم سب! فاطمہ نے سب سے کم عمر ہونے کے باعث کمرے کی صفائی کی ذمہ دار ی رضاکارانہ طور پر اپنے اوپر لی ہوئی تھی۔ قالین کو گتے کے ٹکڑوں سے صاف کر نا آسان نہ تھا مگر بقیہ خواتین اس کو سراہنے کے باوجود اس کی مدد کرنے سے قاصر تھیں بوجوہ تقاضائے عمر اور صحت! عمر پر یاد آیا جب پہلی دفعہ گروپ کے ارکان ملے تو ایک خاتون کی دوسرے کوآ نٹی کہنے پر بد مزگی ہوتے ہوتے بچی (بزرگی کی قبا کوئی پہننے کو تیار ہی نہیں ہوتا!!)مگر فوراہی اس کا ڈراپ سین ہوگیا جب ہنس کریہ ظاہر کیا گیاکہ جیسے لڑکیاں مذاق میں اپنی دوستوں کو آ نٹی یا ہم عمر کو بیٹا کہہ کر پکارا کرتی ہیں شکر ہے! ورنہ اس تلخی کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا کتنا تکلیف دہ ہوتا؟

ممتاز مفتی نے گھروالوں کے آپس میں تعلقات کے بارے میں ایک جگہ لکھاتھا کہ یہ یا تو الماری میں رکھے سامان کی طرح ہو تے ہیں کہ ہر چیز الگ الگ کر کے رکھی جا تی ہے یا پھر ہا نڈی کی طرح ہو تے ہیں جس میں تمام مصالحہ جات آپس میں یکجان ہو کر مزہ اور ذائقہ دیتے ہیں! اور ہمارا کمرہ گویا چولہے پر دھری ہا نڈی کی طرح تھا۔ چولہے کے ذکر پر اس بلڈنگ کا الیکٹرک چو لہا یا د آ یا جو ہر کچن میں موجود تھا اور جس پر محض کھاناگرم یا چائے بنائی جا سکتی تھی مگر ذہین پا کستا نی قوم کا کیا کہنا! اس پر بڑے تجربے کیے جا رہے تھے اور پھر وہ ایک دن غا ئب بھی ہو گیا۔ ابھی تو یہ بہت معمولی بات لگ رہی ہے مگر اسوقت اس کے بغیر کافی مسائل ہوئے تھے۔ مسئلے پر یاد آ یا ہمارے کمرے کے با ہر ایک شاندار محل وقوع کا واش روم تھا مگر اس میں کنڈی نہ تھی لہذا کوئی اندرہوتا تو دو سرا باہر چوکیداری کے لیے موجودہوتا اور اگر یہ ممکن نہ ہو تا تو واشنگ مشین دروازے کے ساتھ لگانی پڑجا تی۔ایک دفعہ دوسرے فلور والے موقع سے فائدہ اٹھا کر واشنگ مشین لے گئے کہ یہاں تو استعمال ہی نہیں ہو رہی۔ بڑی مشکل سے بازیاب کروائی کہ یہ تو ہمارے دروازے کی سیکورٹی ہے!

اس جملہ معترضہ کے بعد یہ کہنا ہے کہ ساری خواتین کے شیر و شکر ہونے کی وجہ سے ہمارا کمرہ توجہ کا مرکز بن کر رہ گیا تھا۔ خوش ذوق، خوش باش گفتگو کی شوقین زینب خضر تو گویا انسائیکلو پیڈیا تھیں تو ہر ایک کی خیر خواہ خاتون بیگم المعروف خا لہ ( یہ واحد خاتون تھیں جو اس لقب پر بظا ہر معترض نہ تھیں )، سگھڑ اور میٹھی زبان والی صبیحہ، کم گو اور سادہ مزاج زبیدہ ،سب کی معاون اور مددگار رضیہ اورفاطمہ! ہماری خوبی لکھاری ہونے کے سوا کچھ نہ تھی کہ جس کو جان کر بقیہ سب ہم سے تعلقات اچھے رکھنے پر مجبور تھے کہ ہمارے بارے میں کچھ نہ لکھ دیں! (اپنے قلمکار ہونے کا ہم نے کسی کو نہ بتا یا تھا مگر رات کو جب ڈا ئری میں تمام دن کی روداد لکھ رہے ہوتے تو سب ہم کو بتارہے ہوتے کہ آ پ یہ بھی لکھیں ،افسوس کہ وہ ڈائری رمی کے دوران ہم سے بچھڑ گئی اور روداد حج یادداشت کی بنیاد پر لکھنی پڑی)۔

یہ ہفت رنگ کمرہ اس وقت اور چہک اٹھتا جب برابر کے کمرے سے ہمارے گروپ کی بقیہ ساتھی ثنائ، فوزیہ،نادیہ اور ذکیہ آجا تیں۔ کبھی ایک ساتھ یا کبھی اکیلے اکیلے! یہاں اس کمرے کی رونق ایسی تھی کہ ہر وقت کہنے اور سننے والے موجودرہتے تھے۔ ہم سب حج کے مقدس سفر میں تھے لہذا ہر دلچسپی اور گفتگو کا محور اسی کے گرد رہتا تھا مگر پھربھی انسانی جبلتّ کے ہاتھوں خواتین ہونے کے ناطے اور خصو صا کھانے پکانے اور گھریلو مسائل سے بری ہونے کے باعث عام گفتگوکے لیے بھی وافر وقت ہوتا جس میں شعر و شاعری و شکاریات سے لے گھریلو ٹو ٹکے تک شامل ہوتے۔ ہم تو جلد سونے والوں میں تھے ایک دن آ نکھ کھلی تو صابن بنا نے کی ترکیب بتائی جا رہی تھی۔ ہم نے چونک کر گھڑی دیکھی تو گیارہ بج رہے تھے۔ ہم کو اٹھتے دیکھ کر قصہ گو اور سامعین جلدی سے کمبل اوڑھ کر سونے لگے کہ اب بقیہ باتیں بعد میں ہو ں گی۔ مسکرا کر ہم نے بھی کروٹ لے لی تھی۔۔۔ جب کوئی شاپنگ کر کے آ تا تو ایک بازار یہیں سج جاتا۔ بھائو تائو سے لے کر پسند ناپسند تک ،پھر اس سامان کے سوٹ کیس میںبند ہونے اور نکلنے کے مراحل بار بار دہرائے جاتے حتٰی کہ سب اس کو evaluate کرلیتے۔۔۔

دیکھا آ پ نے قارئین! ایک موتی اٹھائو تو یادوں کی پوری لڑی سامنے جگمگا اٹھتی ہے۔ اس کو یہیں چھوڑ کر موضوع پر آتے ہیں یعنی اس سال کا حج جس سے اس کالم کا آ غاز ہوا تھا! پھر تو ہرطرف سے حج پر روانگی کی خبریں آ نے لگیں۔ گلی، محلہ،خاندان، حلقہ درس، آشنا نا آ شنا! جوق در جوق ،گروپ در گروپ! دنیا کے ہر کونے میںہلچل مچ اٹھی! کوئی امریکہ سے جا رہا ہے تو کوئی کینیڈا سے! بر طانیہ سے جانے والوں کی بھی کمی نہیں! ایک لہر ہے جس نے پورے گلوب کو لپیٹ رکھا ہے! کچھ خواتین و مرد بیرون ملک جارہے ہیں اپنی اولاد کی اولاد کو سنبھا لنے کہ وہ اس مقدس دورے پر جا سکیں جبکہ کچھ اپنے چھوٹے بچوں کو وطن لا کر اپنے عزیزوں کے پاس رکھ کر خود اطمینان سے حج پر جارہے ہیں!! کچھ اپنے بچوں کو حالت امتحا ن میں اور کچھ بیماری میں! جب سفر کا اذن مل جائے تو کوئی بھی رکاوٹ نہین رہتی۔ یہ ہی تو فلسفہ قر بانی ہے!

اب ہونا تو یہ تھا کہ اتنے عظیم اور عالمی اجتماع کے ہر پل کی خبر میڈیا فراہم کر کے اس سے دابستہ مقاصد کو واضح کیا جاتا۔ جذبات کو مہمیز کیا جا تا! لبیک کی صدائوں سے فضا ئیں گونجنا شروع ہو جاتیں۔حج کی update فراہم کی جاتی! دنیا میں کہیں بھی 30لاکھ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور کوئی خبر نہ ہو! مگر یہ ہمارا میڈیا تھا اور ہے جو T 20جیسے معمولی پروگرامز میں لوگوں کو الجھائے رکھتا ہے،اس سے فر صت ملے تو انڈیا کے اور غیر ملکی مردہ اور زندہ فنکاروں کی موت او پیدائش کے دن لے کر بیٹھ جا تا ہے۔ کیا دنیا میں حج سے بڑا اجتماع ممکن ہے؟ یقین کریں اگر یہ ان کفار کے پاس ہو تا تو وہ خوشی سے پاگل ہوتے۔ کیونکہ یہ ہی موقع تھا جب دین کے مکمل ہو نے کی سعادت ملی تھی۔اسی دن دنیا کا سب سے پہلا انسانی چارٹر عطا ہوا تھا۔ عورتوں کے حوالے سے جامع اور بہترین حقوق ملے تھے! دنیا کا کوئی بھی مذ ہب یہ نہیں رکھتا! دیگر مذاہب کے پاس سوائے سالگرائیں منانے کے کچھ بھی نہیں! قربانی کی جتنی خوبصورت مثال ہمارے پاس ہے اگر ان کو نصیب ہوتی تووہ بے چارے انڈے رنگ رنگ کر تہوار منا رہے ہو تے یا کدو چھیل چھیل کر زیمبیز نہ بنا رہے ہو تے! کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ یقینا ہے! جبھی تو جوق در جوق لوگ اس سفر پر روانہ ہو تے ہیں اور ہوتے رہیں گے ان شا ء اﷲ! مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی روح کو سمجھ نہیں پا رہے۔

اگر میڈیا کا جائزہ لیں تو فضائیں لبیک کی آوازوں سے گونج رہی ہیں اور ہمارا میڈیا زیمبیز کی تیاری کی خبریں دے رہاہے! کراچی اور کونے کونے میں ہونے والے فیشن شوز کی خبریںاور رپورٹ دے رہا ہے۔ عید الضحٰی کے حوالے سے جانوروں کی گرانی اور بکرامنڈیوں میں ان کی کیٹ واک سے آ گے نہیں بڑھ پا رہا۔ رپورٹ بھی ہو تی ہے تو یہ کہ بچوں سے سوال کہ آپ اتنی محبت کررہے ہیں تو کیا ان کو کاٹ کر افسوس نہیں ہو گا ؟؟ یعنی سارا زور اس بات پر کہ کہیں قر بانی، مشقت اور دین کے لیے کٹ مر نے کا جذ بہ نہ بیدار ہو جائے! لوگ مہنگائی کا رونا سن کر قربانی سے رک جائیں!

یادش بخیر کبھی واحد چینل ہوتا تھا مگر رمضان سے ہی حج کی تیاری اور مدینہ منورہ کی تعمیرکی فلم آناشروع ہو جاتی تھی۔بار بار ایک ہی فلم دیکھ کر بھی دل نہ بھر تا تھا! بلکہ شوق اور لگن پیدا ہو جاتی تھی۔اور آ ج ستر سے زیادہ چینل، ہر بچے کے پاس موبائیل! جدید ترین ٹیکنالو جی مگر حج کے نام پر کوئی خبر چل جاتی ہے یا پھر کسی مولانا کو بٹھا کر تقریر! اﷲ اﷲخیر ّصلا! نہ کوئی جدت کا استعمال نہ کسی قسم کی تخلیقی صلا حیتوں کو آ زمانا!

نامعقول اور فضول رسومات کو اتنا گلیمرائزڈ کرنا اور حقیقی وروحانی واقعات کو بھولی ہوئی داستان بنا دینا! کمر شلائزیشن کے باوجود حج کا اس کی قدر سے کم اہمیت دینا! کیا دین و دنیا کے الگ ہونے کی ذہنیت کا مظا ہرہ نہیں ہے ؟؟ یہ وہی ذہنیت ہے جو رسالوں سے لے کر نصابی کتب تک میں نظر آ تی ہے۔ دینی عنصر بس گزارے لائق بنایا جاتا ہے کہ کہیں متائثر نہ ہو جائیں اپنے شاندار تشخص سے!

چار ہزار سال سے جا ری ایک رسم جو تا ابد قائم رہے گی کاکتنے زاویوں سے جا ئزہ لیا جا سکتا ہے، پیش کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس چیلنج کو ہم قبول کر تے ہیں یا صرف افسوس کرتے رہیں گے؟

فیس بک تبصرے

زہے مقدر۔۔۔“ ایک تبصرہ

  1. مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی روح کو سمجھ نہیں پا رہے۔
    بس ایک لائن میں آپ نے سب حقیقت بیان کردی

    کیسا منظر کھینچا دیارِ حرم کے سفر کا . . .آنکھوں میں سب یادیں تازہ ہوگئیں
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور خوش رکھے

Leave a Reply