ایک پر مشقّت سفر کے بعد لاہور اسٹیشن پر اترے تو مینار پاکستا ن تک جانے کے لیے مختصرسے فاصلے کے لیے بس میں بیٹھنا پڑا! یہ رو داد ہے ایک سفر کی! اسے پکنک بھی کہہ سکتے ہیں اور کیمپنگ بھی۔۔۔
وہا ں پہنچ کر سیکورٹی کے مراحل سے گزر کر آگے بڑہے تو پختہ روش کے دونوں اطراف میں مختلف صوبہ جات کے بینر لگے ہوئے تھے۔ ہم اپنے صوبے کے کیمپ میں داخل ہوئے تو اضلاع کے نام چمکتے نظر آئے۔ اپنے ضلع کی طرف بڑھے تواگلی تقسیم زونز کی تھی۔ اور یہ ہی ہمارا ٹھکانہ تھا۔ مناسب جگہ دیکھ کر سامان رکھا۔ گھاس پر بستر بچھا کر بیٹھے تو منہ سے بے اختیار نکلا ’’ کتنے آسانی سے آکر اپنے پلاٹ پر بیٹھ گئے جیسے کہ ایڈریس پر آتے ہیں۔ کیا حسن انتظا م ہے! یہ تھا پہلا تاثر!
ذرا سستانے کے بعد کیمپ سے باہر آکر مینار پاکستان کا نظارہ کیا تو چمکدار سورج کی روشنی میں کچھ میلا میلا نظر آیا۔ کسی نے رائے زنی کی ’’ اس کو بھی دھو ھلادیا جاتا۔۔۔‘‘ مگر اس رائے کا فوری جواب منتظمین کی طرف سے ہونے والے پانی کے باکفایت استعمال کی ہدایت نے دے دیا۔ ظہر کا وقت تھا۔ وضو کے لیے باہر نکلے تو ہر طرف کھانے کی دیگیں اتررہی تھیں اور طعام کے نگران اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف بیت الخلاء کی ڈیو ٹی پر ما مور عملے کے حو صلے کی بھی دا د دینی پڑ تی ہے! اپنے اپنے گھر وں میں آئینے کی طر ح چمکدا ر غسل خا نے رکھنے وا لی خوا تین کس صبر اور ضبط سے یہا ں انتظا مات میں مصرو ف تھیں !اور محتا ط اور مختصر طرز گفتگو رکھنے وا لیا ں میگا فون ہا تھ میں پکڑے یہا ں کے آدا ب دہرا رہی تھیں اپنے گلے بٹھا کر ! ذمّہ دا ری جو ٹہری!
شرکاء کے سا تھ آنے والے بچّوں کو مصروف اور مطمئن رکھنے کے لیے گوشہ اطفال کا عملہ ہمہ تن مصروف تھا۔ دوسری طرف کیمپ میں موجود افراد کی صحت و تندرستی کے لیے طبّی عملہ بھی اپنی ذمّہ داریاں احسن طریقے سے ادا کررہا تھا۔ ضروریات زندگی کے لیے فوری خریداری کے لیے بازار بھی لگے ہوئے تھے، جس میں اسٹال لگانے والی ایک بوڑھی عورت ہاتھ اٹھا کر کیمپ لگانے والوں کو دعا دیتی نظر آئی ’’اتنی عزّت سے چند گھنٹو ں میں اتنا کما لیا جتنا مہینے بھر میں بھی نہ کما سکتے تھے۔۔۔
یہ عارضی بستی جو دو دن کے لیے بسا ئی گئی تھی لو گو ں کے جذ با ت کو مہمیز کر کے با لآخر سمیٹ دی گئی۔ جی ہا ں ۱یہ تذکرہ ہے جما عت اسلا می کے اجتما ع عام کا! اس قسم کی گید رنگ کا جوا ز اگر کسی اجتما عیت کی لذّت سے سرشار فرد سے پوچھا جائے تو وہ بہت کچھ کہ سکتا ہے دلیل میں ! لیکن اگر اس کے برعکس بات ہو تو جلے دل سے یہ ہی کہے گا:
پتہ نہیں کیا ملتا ہے لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرکے؟ شاید اس طرح یہ لوگ کسی آفت کی صورت میں پناہ گزیں ہونے کی پریکٹس کرتے ہیں۔۔۔
بات تو حقارت سے کہی گئی یا کہی جاتی ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا اقرار ہے! جو جماعت کے مخالفین تک اس کی خدمت خلق کی سرگرمیوں کا کرتے ہیں اور یہ سرگرمیاں ہر پلا ننگ، خواہ لانگ ٹرم ہو یا شارٹ ٹرم، کا لا زمی حصّہ ہوتی ہے اور ناگہانی آفا ت دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو اس سے نبٹنے کی بھرپور تیاّری پورے سال جاری رہتی ہے۔
یوں تو جماعت کا ہر کارکن اپنی کمائی، وسائل اور صلاحیتوں اوروقت کا ایک حصہ لازما ٌ فلاحی کاموں کے لیے مختص رکھتا ہے مگر اس کا ایک شعبہ ’’الخدمت ‘‘ تو رف اور صرف خدمت پر ہی مامور ہے۔ جہاں تمام افرادی قوّت، دستیاب وسائل کے ذریعے (جو وہ مخیّر حضرات سے وصول کرتے ہیں) مستحق اور ضرورت مند تک بلاتفریق مذھب و نسل، رنگ و زبان پہنچ کر مدد کرتے ہیں۔ یہ ضرورت پانی کے ایک کولر سے لے کر کنویں کی کھدائی تک، ضروریات زندگی سے لے کر جہیز باکس تک، وبائی امراض سے لے کر سرجری تک، انڈسٹریل ہوم سے لے کر فنّی تعلیمی ادارے تک، میٹرنٹی ہوم سے لیکر اسکول تک، گشتی شفاخانہ سے لیکربڑے ہاسپٹل تک، ٹھیلوں سے لے کر سلائی مشین کی فراہمی تک۔۔۔ غرضیکہ خدمات کی ختم نہ ہونے والی فہرست ہے جس کے ذریعے عوام الناس کو راحت دینے کا انتظام ہوتا ہے۔ مگر اس کا سب سے نمایاں کردار ہنگامی حالات میں سامنے آتا ہے۔ جیسا کہ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں زلزلے کے بعد اور پھر قبائلی علاقہ جات میں آپریشن کے نام پر ہونے والی تباہی سے، جماعت آج بھی نبٹ رہی ہے۔ پے درپے آنے والے سیلاب ہوں یا صحرائے تھر کا قحط! ہر امتحان میں سرخرو رہتی ہے !
الخدمت، چونکہ ایک مربوط نظام کے کے تحت ہمیشہ امدادی کا موں میں مصروف رہتی ہے اور جس کے لیے انفرااسٹرکچر پہلے سے موجود ہوتا ہے لہذا اگر مگر میں یا پھر کمیشن، گروپ یا کونسل بنانے میں وقت ضائع کیے بغیر ریلیف کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ابتدا ئی طور پر صرف الخد مت ہی نظر آ تی ہے جس کا اعتراف ملکی اور غیر ملکی میڈیا برملا اور بلا تعصّب کرنے پر مجبور ہے۔ کیونکہ جو نظر آتا ہے یا آرہا ہے اسے جھٹلانا اتنا آسان تو نہیں!
کسی ٹاک شو کے دوران ایک جا رح اینکر کو کہنا پڑا کہ سیاسی جماعتوں میں صرف الخدمت ہی کام کررہی ہے، جس کا جواب چکنے گھڑے صدرمملکت ( سابق ) کی ڈھیٹ ترجمان نے یہ کہہ کر دیا کہ جماعت اسلامی تو زکٰوۃ جمع کرتی ہے ہم تو نہیں کرتےــ۔ یہ بھی دراصل اقرار نامہ ہے! اپنی کوتاہیوں، لاپرواہیوں اور بے ایمانیوں کا! جماعت توحکومت کے مقابلے میں بڑے محدود وسائل رکھتی ہے۔ حکومت تو پورے خزانے کی مالک ہے۔ وہ تو پورے ملک سے زکٰوۃ وصول کرتی ہے، اس کا اگر درست اور جا ئز استعمال ہورہا ہوتا تو عوام کی تقدیر نہ بدل جاتی؟ ان ناگہانی آفات پر یوں ہاتھ نہ پھیلانا پڑتا! اور چلیں اگر آفت بہت بڑی ہے تو اتنی ساکھ ہی رکھی ہوتی کہ لوگ اپنی جھولیاں اس طرح خالی کردیتے جیسے الخدمت اور اس طرح کی دیگر تنظیموں پر کررہے ہیں۔ بات تو اعتماد کی ہے!
الخد مت پر عوا م کے اس اعتماد کو کمزو ر اور حقیر کر نے میں حکو مت کے کا رندو ں کے سا تھ کچھ میڈیا کے جا دو گر بھی برا بر کے شریک ہیں اس سلسلے میں سب سے بڑے اشاعتی ادارے کی کالم نگارجو خودایک بہت بڑی مصنفہ ہیں، نے اپنا حصہ یوں ڈالا کہ بہت سے نام نہاد خدمت خلق کرنے والوں کا ذکر اوّلین اچھے الفاظ میں کرنے کے بعد آخر میں یہ جملہ لکھا:
جماعت اسلامی کے کیمپ بھی کہیں کہیں نظر آرہے ہیں۔۔۔
اورپھر ساتھ ہی اس خوف کا اظہار بھی کہ کہیں سماجی خدمات کے صلے میں مذہبی جماعتیں نہ غالب آجائیں؟ گویا اپنی دانست میں خدمت کے کام کو چھوٹا کرنے کی کوشش! مگر چاند پر تھوکنے سے کبھی اسکی چاندنی کم ہوئی ہے کہیں؟ وہ تو سب پر بلا تفریق نسل و جماعت اپنا نور نچھاور کرتا ہے! جما عت کے رضاکا ر جو صرف اورصرف اپنے رب کی رضا کے لیے میڈیا کمپین اور فو ٹو سیشن سے بے نیاز اپنے کا م میں مصروف ہیں۔ ان کو اتنی فرصت کہا ں کہ اپنے خلا ف ہونے والی سرگوشیوں اور اپنی توصیف میں ہونے والی خبروں کا تجزیہ کر سکے!
ایک دفعہ کسی پروگرام میں مقّرر نے جماعت کی برکتیں سمجھانے کے لیے یہ جملہ کہا تھا کہ جماعت کا جو بھی نیک کام کہیں ہورہا ہو اس میں تمام افراد شریک ہوتے ہیں! کس قدر امید افزا اور حوصلہ دلانے والی بات ہے! سلام جماعت اسلامی سلام! تونے ہمارے چند روپوں اور چیزوں کو کتنا بڑھا اور پھیلا دیا ہے! گویا ایک دانے سے پوری فصل تیار ہوگئی ہے جس کے ثمرات صرف اس دنیا تک محدود نہیں ہیں، آخر ت میں بھی معاونت کریں گے ان شاء اﷲ۔
فیس بک تبصرے