عید قربان کے نام کے ساتھ ہی جہاں نت نئے پکوانوں کا تصور ذہن میں آنے لگتا ہے وہیں چہار جانب جانورں کی منڈیاں اور ان سے پھوٹنے والی مخصوص باس بھی گھومنے لگتی ہے۔ باربی کیو، گرل، روسٹڈ کھانوں کا تصور اور ان کی تراکیب کے حصول کے لیے سرگرمی نظر آنے لگتی ہے اور قصائیوں کے نخرے عروج پر پہنچے ہوتے ہیں۔ بے شک قربانی حکم الہی اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ نیز قربانی کے عمل میں جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی کا ثواب بھی طے شدہ ہے مگر ذرا ٹہریں! قربانی ضرور کریں مگر صرف جانور کو ذبح کرکے ہی نہیں بلکہ اپنی نیند، اپنی خواہشات، مفادات، جذبات، آرام، جان اور مال کوبھی قربان کریں۔ قربانی سر تا پا محبت کا درس دیتی ہے وفائے محبت سے پر ہوتی ہے اور ہر سال عید الاضحی ابرا ہیم علیہ السلام کی اس محبت بھری قربانی کی یاد دلاتی ہے جو انہوں نے صرف اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری پھیر کرادا کی تھی اور جواب میں اللہ تعالی نے مینڈھے کو قربان کروا کے پو ری امت مسلمہ کے لیے ۱۰ ذوالحجہ کو قربانی واجب قرار دے دی۔
ارکا ن اسلام پر غور کیا جا ئے تو ہر ہر عمل میں اولیت محبت ہے، رب کا قرب ہے۔ دوران نماز میں، سجدہ اللہ سے نزدیک تر ہونے کے لیے۔۔۔ ادا ئیگی زکواۃ و انفاق سے مال کی محبت کو صرف اللہ کی خوشنودی ہی کے لیے خرچ کر کے عشق الہی کا عملی ثبوت۔۔۔۔۔ روزہ سے حکم الہی کی تعمیل میں معین وقت تک کے لیے حلال اشیاء کو بھی دسترس میں ہونے کے باوجود اپنے اوپر حرام کر لینا۔۔۔ ہجرت و جہاد میں اپنا سب مل و متاع لٹا دینا حتی کہ جان بھی قربان کر دینا۔۔۔ غرض اخلاق و معا ملات ہوں سب میں عشق الہی لا زمی امر ہے اللہ ہی کا ہو کر رہ جانا۔ اللہ ہی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینا اور اس ذات با ری تعالی کی محبت و قربت کو پالینا ہی مومن کی معراج ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسی قربا نی کا مظہر ہے، جنہوں نے رب کی وحدانیت کی شہادت میں باپ سے ترک تعلق کیا، ہجرت کی وطن چھو ڑا، دشت و صحرا کی خاک چھا نی، آگ میں کو د پڑے۔ محبوب بیوی اور شیر خوار بچے کو یکہ و تنہا مکہ کی سنگلا خ وادی میںچھوڑ دیا اور حکم الہی کی فوری تعمیل میں اکلوتے محبوبِ نظر کی بھی قربانی کی اعلی ترین مثال قائم کی۔
عید خوشیوں کا نام ہے، رب سے عبا دت و ریا ضت کے ساتھ جڑے رہنے کا نام ہے، احترام انسا نیت اور حقوق العباد کے لیے اپنے من کو مار کر دل سے حسد، کینہ عداوت و بغض کو کچل کر معاشرے میں امن و محبت کے پھیلاؤ کے لیے عید الاضحی تقاضہ کر رہی ہے کہ قربان کریں دل میں موجود گھمنڈ کو، فخر و غرور کو، دولت و مرتبہ کی طلب کو، آسا ئش دنیا کی کثرت سے مغلوب ہوجانے کو، دشمنی و عداوت کو، نیند کی حلاوت سے فرائض کی عدم ادائیگی کو، سالہا سال کی دشمنی و بغض کو، بے جا خوا ہش، پسند و نا پسند کو، اسراف کو نام و نمود اور ریاکاری کو، عیب جوئی سے زبان کی آلودگی کو، فحاشی و عریانیت کے ذریعے گمراہ معاشرے کے چلن کو، غرض ہر وہ عمل جو رب کی قربت کے بجائے دور لے جانے والا ہو، رضائے الہی کے حصول کے لیے اس کو قربان کرلیں اور پھر عید منائیں۔ نت نئے پکوان ضرور تیا ر کریں مگر سیلاب اور قدرتی آفا ت کے نتیجے میں متاثرین کی بھی داد رسی کریں۔ ماں، بیوی اور بہن ہونے کے نا طے مجا ہدین کی صفات سے مزین اعلی و با کردار نسل کی تعمیر کریں اور اپنا منصب سنت رسولﷺ کی پیروی میں ذاتی خواہشات و مفادات سے بالاتر ہو کر محبت کے گندھے جذبا ت سے ادا کریں۔
فیس بک تبصرے