خواب گُل پریشان ہے!

baldia-town-factory-fire’’فکر کی کوئی بات نہیں! یہ تبدیلی کی عمر ہے اس میں اسی طرح ہوتا ہے۔۔۔۔‘‘ ماہر نفسیات ڈاکٹر غزالہ نے شہلا کو تسلی دی اور کچھ ہلکی پھلکی دوائیں لکھ دیں مگر وہ خود بھی دل میںسوچ کر ہنس رہی تھیں کہ16برس کی تو وہ ہوتی ہے جب ہر چیز خوبصورت لگتی ہے بھلا ڈپریشن کیوں؟ sweet sixteen میں تو انسان بن پئے مد ہوش ہوتا ہے۔کھڑے کھڑے نیندآ جا تی ہے۔ یہ تو سمن فاطمہ تھی جسے اس عمر میں نیندنہ آنے کا عارضہ لا حق ہو گیا تھا مگر وہ کیا کرے جسے آنکھ بند کرتے ہی ڈرائونے خواب نظر آنے لگیں اور وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھے !اس فکر نے ہی ماں کو مجبور کیا کہ ماہر نفسیات سے رابطہ کرے۔ کائونسلنگ کے دوران عادات وماحول اور خا ندانی مسائل سے لے کر بات بچپن تک آپہنچی۔

شادی کے پانچ سال بعد شہلا کی گود ہری ہوئی تو ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی۔باپ خو شخبری لے کر ہسپتال سے گھر جا رہا تھا کہ ہنگاموں میں پھنس گیا۔کالج کی طالبہ (بشریٰ زیدی)بس کے نیچے آکر کچلی تو جلائو گھیرائو شروع ہوگیا جلتی ہوئی بس سے اترنے کی کوشش میں حیدر علی زخمی ہواشکر ہے جان تو بچی!

ادھر ہسپتال میں بیوی اپنی نوزائیدہ بچی کے ساتھ سولی پر لٹکی رہی اتنے ارمانوں ؍دعائوں سے پیدا ہونے والی بچی کا استقبال کیا عالیشان ہو تا جب باپ موت وزیست کی کشمکش میںمبتلا ہواورروزگار دائو پر ہو تو یہ سب خواب محسوس ہوتا ہے! بے چاری شہلا خود آرام کیا کر تی ، الٹا زخمی شوہر کی تیمارداری میں لگ گئی شکر ہے کہ نام کا تحفہ پہلے ہی دیا جا چکا تھا ،سمن فاطمہ!شاید اس کی کشش تھی کہ باپ تیزی سے روبصحت تھا۔

وقت اچھا ہو برا گزر ہی جا تا ہے! سمن خوشیوں کے ہنڈولے میں پر ورش پا رہی تھی۔اس کی خوبصورتی ، ذہانت،خوش اخلاقی اور مستعدی ہر ایک کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی۔اب وہ دو سال کی ہو نے والی تھی۔ الفا ظ تو بہت پہلے سے بو لتی تھی مگر اب جملے بولنے کی کو شش کرنے لگی تھی۔ ان ہی دنوں حالات پھر تیزی سے خراب ہو نے لگے تھے اورپھر ایک وا قعے نے اشتعال کا رنگ پکڑ لیا تھا۔ شادی ہالز کے با ہر سے دو بہنیں اغوا ہوگئیں جن کی لاشیں انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں ملیں۔اس کے بعدفسادات شروع ہوگئے۔ پریشان حیدر علی گھر پہنچاتو بیوی نے سکون کا سانس لیا اور ننھی سمن باپ کی گود میں چڑ ھ گئی۔اور ٹو ٹے پھوٹے لفظوں میں بولنے لگی۔۔۔
’’بابا !۔۔۔شادی میں نہیں جا نا۔۔۔مر جا تے ہیں۔۔۔‘‘
اس جملے کی تکرار سن کر ماں باپ ششدر رہ گئے۔ سمن نے اپنا پہلاجملہ بولا بھی تو کیا؟؟پریشانی ، خوف اور بے اطمینا نی ،بد امنی میں ڈوبا ہوا! جس کے پور پور سے تشویش عیاں تھی۔

وقت گزرنے کے ساتھ جیسے سمن بڑی ہو رہی تھی اس کی حساسیت پریشان خیالی میں بدلتے جا رہی تھی۔ حالات کی کشیدگی شہر میں ہو یا ملک میں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والی امن و امان کی غیر محفوظ صورت حال اس کی بے چینی میںاضافہ کاباعث بن جاتی۔ اب وہ میٹرک کی طا لبہ تھی۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پوری دنیا خصو صاً خطے کے لوگ شدید خطرات کی زد میں تھے۔ بہت کچھ یقین دہانیوں کے ب اوجود سمن کی بے قراری کم نہ ہو تی۔ ماں پریشان ہو کر بالآ خر ڈاکٹر غزالہ کے پاس آ پہنچیں مگر بہت احتیاط کے ساتھ کہ کسی کو معاملے کی بھنک نہ ملے۔

مستقل کائونسلنگ اور ذہنی مشقتوں کے بعد سمن نا رمل ہوتی جا رہی تھی۔صحت بحال ہوئی تو رنگ و روپ دوبارہ کھل اٹھا۔ ابھی انٹر میں آ ئی تھی کہ رشتوں کی لائن لگ گئی مگر وہ تو بچپن سے ہی پھپھو کے بیٹے سعد کی منگیتر تھی۔سیکنڈ ائر کے امتحانات سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ دلہن بن کر رخصت ہو گئی۔ زندگی کے اس خو بصورت موڑ پر سمن اس آسیب سے گویا باہر آگئی تھی۔اور اپنے اندر نئی زندگی کاوجود پا کر تو جیسے قوس و قزح کھلنے لگی تھی اور پھر وہ دن آ پہنچا جب دنیا کا مقدس ترین رشتہ عطا ہوا۔وہ ایک ٹک اپنی گڑ یا کو دیکھے جا رہی تھی۔ ریحا تھی بھی اتنی پیاری! سمن کا بچپن صاف جھلک رہاتھا۔

ایک ماہ کی ریحا کو لے کرسمن اور سعد کشمیر روانہ ہوئے تاکہ سیر و سیاحت کے علاوہ عید اپنے آ با ئی علاقے میں منا سکیں۔ابھی انہیں یہاں پہنچے ہفتہ ہی ہوا تھا کہ پورے علاقہ میں شدید ترین زلزلہ آ گیا۔ سمن اپنی بچی کو سینے پر چمٹائے کھیتوں میں ننگے پائوں اور سر کھڑی تھی۔ سعد کو دیکھتے ہی اس سے لپٹ کر بے ہوش ہوگئی۔ریلیف کے کاموںکا آ غاز ہوا تو واپس کراچی آ گئے۔گھر پہنچ کر سمن ایسی بے سدھ ہوئی کہ ماں با پ اس کی طرف سے ایک بار پھر ما یوس ہو نے لگے۔دوبا رہ علاج شروع ہوگیا۔

وقت بڑا مر ہم ہے اور موت کا خوف بھی لوگوں کے دل سے کم ہو نا شروع ہو گیا تھا۔ اور سمن بھی بہتر ہو تی چلی گئی۔ اور اپنی ریحا کو دیکھ کر تو جیسے اس کو نئی زندگی مل جاتی تھی۔ ریحا اب پورے دو سال کی ہو رہی تھی۔اسکی پرورش کے ساتھ ساتھ اب تعلیم کی طرف بھی دھیان ہونے لگا تھا۔سمن ہر ایک سے اس معاملے میں مشورہ کرنے لگی تھی۔کبھی ان کا دل چاہتا کہ اپنی بیٹی کو حافظہ بنائے۔کبھی ڈاکٹر!کبھی ٹیچر!وہ خود ہی اپنی سوچوں پر مسکرا دیا کرتی تھی۔

انہی دنوں اسلام آباد کے ایک مدرسے میں ایسا معرکہ ہوا کہ انسانیت ششد کررہ گئی۔معصوم بچیاں فاسفورس سے راکھ بنا دی گئیں۔وہ ایسا دن تھا کہ سمن ہرایک بار پھر وہی دورہ پڑا۔ماں باپ کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔سعد بھی بہت سخت پر یشان تھا۔بیوی کی حساسیت اتنی بڑھ چکی تھی کہ اسے لمحے بھر کی دیر ہوتی توخوف سے زرد پڑجاتی۔کہیں بم دھماکہ کہیں خودکش حملہ کہیں جلائو گھیرائو!

چینلیز کی بھر مار کی وجہ سے اسیے واقعات کی تشہیر بھی بہت زیادہ ہونے لگی ہے۔چناچہ اس کی پریشانی دوچند ہو گئی ہے۔اخبارات کا داخلہ بند کروایا،کیبل کنکشن کٹوایا،مگر موبائل سے اطلاح کی فراہمی روکناممکن نہیں!!اور ہے بھی آجکل کے حالات میں رابطہ کا ذریعہ!!چنانچہ سمن کوہر وقت ایک ڈوزدیتے دیتے وہ تھک سا گیاہے۔۔ ادھرحالات ہیں کہ مخدوش سے مخدوش ہوتے جا رہے ہیں۔اب سمن کی ساری بے قراری ریحا میں منتقل ہو چکی ہے۔ معصوم سی بچی کسی سے بات کرے گی تو سب سے پہلے سوال کرے گی ’’آپ کی طرف حالات ٹھیک ہیں؟‘‘

جو سنتاہے اس بات پر مسکرا اٹھتا ہے مگر ایک تکلیف کے ساتھ! اس جملے میں چھپا درد اس شہر پریشان میں رہنے والا ہر فرد خوب محسوس کر تا ہے۔
آج بھی صبح وہ کام پر جا نے کے لئے نکلنے لگا تو پہلے بیوی اور پھر بچی کو تسلی دی۔

’’ میں فیکٹری پہنچ کر فون کروں گا! اور ہاں بیٹا تیار رہنا! آج با با کو تنخواہ ملے گی تو شاپنگ کو چلیں گے۔ آپ اسکول جا ؤ! شام کوسالگرہ بھی تو ہے ہماری بیٹی کی؟‘‘
سعد نے بیٹی کو اسکول روانہ کیا اور خود فیکٹری جانے کے لئے تیار ہونے لگا۔ حسب معمول فیکٹری پہنچ کر خیریت کا فون کیا مگر اس کے بعد مصروفیت کے باعث رابطہ نہ کر سکا۔ سمن بھی اطمینان کے ساتھ شام کی تیاریوں میں مشغول تھی۔ ریحا کو بہلاتے بہلاتے وہ تھک گئی تھی سعد ابھی تک نہ واپس آ یا تھا۔اسی وقت ابو کا فون آیا وہ تشویش کے عالم میں سعد کاپوچھ رہے تھے۔۔۔اور پھر قیامت پڑی گویا۔۔۔
’’ فکر نہ کرو! میں بہت جیوں گا! میری کوئی لاش واش حادثے کا شکار ہوکر گھر نہ آ ئے گی۔۔۔‘‘
اس کی یہ بات تو پوری ہو گئی۔ لاش کیا گھر آ تی؟ راکھ تو بن گیا تھا سب کچھ!!!
سمن خوف سے زرد پڑتی ریحا کو دیکھ رہی تھی اور اپنے عمر بھر کے خوف کو ایک حقیقت بنتے دیکھ کر سوچ رہی تھی
’’کیا میری پریشان خیالی میری بچی کی محرومی میں ڈھل گئی ہے!‘‘ریحا کو سینے سے چمٹا تے ہوئے اس نے اس سفر کے بارے میں سوچا جس کی آ بلہ پائی شاید سعد کے تپش میں گھرے جسم سے کسی طرح کم نہ تھی!

(دو سال قبل 11، ستمبر 2012ء کو بلدیہ ٹائون میں فیکٹری میں آگ بھڑکنے سے سینکڑوں لوگ خاکستر ہوگئے تھے، اس واقعے سے متا ئثر ہو کر لکھا گیا۔)

فیس بک تبصرے

Leave a Reply