گرلز کالج سے انٹر کر نے کے بعد آنرز کے لیے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو ایک نئی دنیا تھی۔ حالانکہ آ ٹھویں جماعت تک لڑکوں کے ساتھ ہی پڑھا تھا مگر وہ بے چارے معصوم سے برادران جو پہلی جماعت سے ہمارے ساتھ پڑھتے چلے آ رہے تھے ان کی تو ہمت نہ پڑی کہ کبھی پوزیشن لے سکیں کجا کہ کوئی جملہ بازی کریں مگر جامعہ کے مخلوط اداے میں آکر الجھن کا آ غاز ہواجو جسمانی کے ساتھ ذہنی بھی تھی۔ میری اس بے چینی کانام تھا کوریڈور!
جی ہاں! کوریڈور ہر بلڈنگ کا ایک لازمی حصہ ہوتے ہیں مگر تعلیمی ادارے میں اس کی اپنی الگ اہمیت ہے! انتظار کلاس کا ہو یا ٹیچر کا، ہر دو صورتوں میں یہ آباد رہتا ہے طلبہ نام کی مخلوق سے! اگر یہ کہا جائے کہ تعلیمی زندگی کا آ دھا دور کوریڈور میں گزرتا ہے تو بے جا نہ ہوگا! میری بے چینی کی وجہ اس منڈیر کے ساتھ بیٹھے طلبہ کا گروپ ہوتا تھا۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ان کے چلبلے جملے سننا کسی قدر عذاب سے کم نہ لگتا تھا۔
’’سب آ پ کو دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ’’جی !!‘‘ جس طالبہ سے یہ جملہ کہا گیا تھا وہ غصے سے پلٹ کر بولی ’’ آپ کی قمیض کو دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔!‘‘ اس پر دنیا کے دنیا کے ممالک کے جھنڈوں کی تصاویر تھیں۔ بات قہقہ میں اڑا دی گئی۔ کسی طالبہ نے پیلے یا خاکی رنگ کے کپڑے پہن لیے تو مایوں کے گیت گانے شروع کر دیے۔ کبھی کبھی بات پر لطف رہتی مگر اکثر بد مزگی پر ختم ہوتی اور طالبات خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتیں۔ میری ایک کلاس فیلو کا کہنا تھا کہ اگر میرے ابا یہاں کا منظر دیکھ لیں تو مجھے اسی دن یونیورسٹی سے اٹھا لیں گے! اس تمام ہوٹنگ پر کبھی کبھی بہت کوفت محسوس ہوتی تھی لیکن جب آ ج اس وقت کی طالبات کے حلیے اور لباس کو یاد کرتی ہوں تو پیشانی عرق آلود ہوجاتی ہے۔ ٹی جیز اور سینوریٹا کے اسٹائلش سوٹوں کے ساتھ جارجٹ کے مہین دوپٹے بال اور جسم کی ستر پوشی سے عاجز تھے۔ اس وقت کا ٹرینڈ یہ ہی تھا۔ شکر خداکہ لیب کوٹ تھوڑا سا رکاوٹ بن جاتا ہمارے دکھاوے میں مگر وہی کلاس فیلوز کے اصرار کہ کپڑوں کے ڈیزائن تو نظر آ ناچا ہیے۔
اسی کشمکش میں وقت گزرتا گیا۔ نئے تعلیمی سال کے آ غاز میں نئے داخلے ہوئے۔ اب کوریڈور میں نئے چہرے نظر آنے لگے۔ ایک دن اس میں بھوری سی داڑھی والے ایک نئے فرد کو دیکھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ہماری کلاس کے۔۔۔ بھائی ہیں۔ ان کو وہاں دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کچھ اچھا نہ لگا کہ وہ بھی اس قسم کے مشاغل میں شامل ہوں! لیکن آ ہستہ آ ہستہ یہاں کا رنگ بدلنے لگا۔ شوخی تو وہی رہی، ہاں کانوں میں پڑ نے والے فقروں کارنگ، لہجہ اور الفاظ تبدیل ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔
اورایک دن ان طلبہ میں سے ایک کے ہاتھ میں پردہ نامی کتاب دیکھی۔ بڑا تجسس محسوس ہوا اور اس سے زیادہ حیران کن وہ مکالمے:
’’ کیا اس کو پڑھ کر پردہ کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘ لہجے میں تمسخر اور شوخی نمایاں تھی۔
’’ نہیں بھائی! اس کو پڑھ کر میری آ نکھوں کا پردہ ہٹ گیا۔۔۔‘‘ یہ جملے سماعت کے لیے بڑے بھلے سے لگے۔
میرے ہاتھ میں بھی یہ کتاب آ ئی مگر اس سے پہلے یا اسی کے دوران قرآن کو ترجمہ سے پڑھنے کی سعادت ملی۔ درجنو ں بار پڑھنے والی آیات جب ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ نظروں سے گزریں تو زاویہ نظر بدلا اور راستہ سمجھ آ نے لگا اور پھر میری آ نکھوں سے بھی پردہ ہٹ گیا اور مجھے تو ایک قدم آ گے بڑھ کر اسے اپنے جسم کی زینت بنا نا تھا۔ میری زندگی کا ایک خوشگوار دن جب میں نے اللہ کے دیے ہوئے تحفے کو قبول کرکے فطری سکون حاصل کیا!!
آ ج بھی طلبہ اور نوجوان کوری ڈورز میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ بے مقصد اور لا پرواہ! بلکہ اب تو عالمی کوریڈور (سوشل میڈیا) میں بیٹھے شغل کر رہے ہوتے ہیں! کاش کوئی بھائی، بہن ان کے ہاتھ میں یہ کتاب پکڑا دے جو ان کی آ نکھوں کے پردے بھی ہٹا دے!
عرصہ بعد اتنی مختصر اور اثر انگیز روداد پڑھی ہے۔
خوبصورت تحریر ………دل کو چھُو لینے والی
مجھے بھی بری صحبت کے سبب کچھ عرصہ ایسے کوریڈوری دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کی لعنت رہ چکی ہے۔
اور صرف میں ہی نہیں، شائد ہر پاکستانی مرد کبھی نہ کبھی ایسے دور جہالت سے گزر چکا ھوتا ہے۔
لیکن نوجوانوں (اور بعض اوقات بڈھوں) کے اس رویے کی بعض مخصوص وجوہات ھیں، جن میں لڑکیوں کا ہرگز کوئی قصور نہیں ھوتا۔
کبھی اپنے بلاگ پر لکھوں گا۔