ہم بھی تو شاید یہی کہتے ناں کہ
تم دور کھڑے دیکھا کئے اور ڈوبنے والا ڈوب گیا
ساحل ہی کو تم منزل سمجھے تم لذت دریا کیا جانو!
تم تماش بین کبھی نہیں تھے تم تو وہ تھے جو ساحل مراد کو، اپنے رب کی حقیقی معرفت کو پاگئے تھے۔ تم نے اگر زندگی اسکی رضا کی طلب میں کھپائی تو تمہارے لئے بھی آسمان سے شہادت کی نوید اتری کہ تمہارا رب بھی تم سے راضی ہے اور اس عارضی گھرکی بجائے ایسا گھرتمہارا مقدر ٹھرا جو کبھی بھی شکستہ نہ ہوگا اور دنیا کے مسافروں کو توکھول کھول کر بتا دیا گیا تھا کہ “وما الحیوت الدنیاالامتاعالغرور” کہ دنیا کی یہ زندگی دھوکے کے سوا کچہ بھی نہیں اور دنیا میں رہنا ہے تو مسافر کی طرح رہنا ہے اورمسافروں کے دل بھلا کہیں رستوں میں لگتے ہیں؟ ان کے سروں میں تو منزل سمائے ہوئے ہوتی ہے۔
اوروہ ایک لمحہ۔۔۔ ہاں اک لمحہ ہی تو ہوتا ہے ناں جو جادوگران فرعون کو رب کی معرفت عطا کرجاتا ہے۔۔۔ وہ ایک لمحہ جب حضرت ھاجرہ بے آب و گیا وادی کومسکن بنا لیتی ہے اور حضرت ابراہیم کو نظروں سےاوجھل ہو جانے دیتی ہے۔ اگروہ اس لمحہ میں ان کے پیروں کی زنجیر بن جاتیں تو تاریخ کاسفررک جاتا۔۔۔ ہاں وہی ایک لمحہ تو ہوتا ہے جب لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جایا کرتی ہے۔۔۔ اور تم جانتے تھے کہ اک انسانی زندگی کوبچانا ” انسانیت ” کو بچانے کےمترادف ہے اک انسان کو بچانے کےلئے اپنی زندگی وار کر تم یہ پیغام ثبت کر گئے کہ انسانیت کو بچانا ہی زندگی کااصل نصب العین ہے کہ کاش بستیوں والے جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔۔۔ کسی طرح انکو جنت کے راستے پرڈال دیا جائے۔۔۔ لوگوں کو لوگوں کی غلامی سےبچا لیا جائے۔۔۔ تم نےگلی کوچوں میں بھی ببانگ دھل پکارا اور اقتدار کے ایوانوں میں بھی۔۔۔ اسمبلیوں کی درودیوا ر تمہاری اس مجاہدانہ للکار کی گواہی دے رہے ہونگے آج رب کے حضور۔۔۔ اور انسان تو فانی ہے مگر حق کبھی فنا نہیں ہوتا دریا کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر تمہارا اخلاص فتح ہوگیا۔۔۔ مادیت پرستی مغلوب ہوگئی۔۔۔ ہاں کنہار کی موجوں پر لکھا ہے کہ اپنے لئے جینا بھی کؤئی جینا ہے جو انسانیت کے لئےجیتے ہیں وہ امرہو جاتے ہیں۔ دنیا والے تو انسے محبت کرتے ہی ہیں مگر دریا کی موجیں بھی انہیں خود سے جدا کرنے تیار پر آمادہ نہیں ہوتیں۔۔۔
قانون فطرت تو یہی ہے کہ دریا سمندر میں اتر جاتے ہیں مگر اب کے برس ایک سمندر دریا اتر گیا ہے اوروقت کی سعید روحوں نے پہچان لیا ہےکہ اصل خیر خواہی کسے کہتے ہیں۔۔۔ اللہ کو اپنے محبت کرنے والوں پر کتنا مان ہے۔ اپنے دشمنوں کو دہشت زدہ رکھنے والا وہ شخص کسی ملامت سے ڈرا نہ مصلحتوں کا قیدی بنا اس جیسے “میدانوں کے شیر کسی نے کم ہی دیکھے ہونگے “تجات ننجیکم من عذاب الیم” کا سودا بھی اسنے خوب ہی چکا دیا اس تجارت کی خاطر اس نے شب و روز حق کی سر بلندی کے لئے وقف کئے۔۔۔ اپنے اہل وعیال کی پرتعیش زندگی کے بجائے اللہ کی راہ میں تھکنے کے راستے کآ انتخاب کیا۔۔۔ حق کے لئے قولاً اور عملاً خود کو وقف کئے رکھا اور جونہی موقع ملا اور دام کھرے نظر آئے اپنی جان کے مول لگا لئے اور خودکو انسانیت کے بچانے کے عظیم نصب العین کی خاطر سر پھرے دریا کی لہروں کے حوالے کر کے ہیرے موتی کےخیموں، مشک و زعفران کی زمینوں، سونے چاندی کے محلات اور دودھ اور شہد کی نہروں کے بیچ میں چلا گیا اور دنیا والے اسے کنہار میں تلاش کرتے رہ گئے۔ کیا خوب سودا کیا تھا تم نے اپنے رب سے۔۔۔ غلبہء دین کی جدوجہد میں تم نے کچھ بچا کے نہ رکھا سب کچھ اس راستے میں لٹا آئے یہی ہے فوز عظیم دین حق کے غلبے کے خواب نے تمہاری آنکھوں سے سب خواب چھیں لئےتھے اورادیان باطل پر حق کے غلبے کی تمنا نے باقی سب تمناؤں کو دل سے رخصت کر دیا تھا۔۔۔ آسمان نے تو دیکھا تھا یہ منظر جب ایک صحابی حرام بن ملحان کے پیٹ سے نیزہ آرپار ہوا تو وہ خون کے قطرے اپنے چہرے اور سر پہ ملتے ہوئے پکار اٹھے کہ “اللہ اکبر اخزت رب الکعبہ” (اللہ بہت بڑا ہے اور رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا)۔۔۔ کامیابی کا یہ اعلان انشاءاللہ کنہار کی بے کل موجیں بھی سن رہی ہونگی۔ یہ تو وہ حقیقی کامیابی تھی جس کے لئے اصحاب رسول بھی شہادت کی آرزو سے اپنے سینوں کو آباد رکھتے تھے دنیا کے وسائل ان کے قدموں میں ڈھیر تھے مگر وہ دنیا سے اپنا دامن جھاڑ کرگزر گئے۔ دنیا انکےسامنے ناک رگڑتی رہی “جس نے بس ایک غم کو ہی اپنا غم بنا لیا اللہ اسکے لئے دنیا کے غم اور فکر میں کافی ہو گیا اورجس کو دنیاوی فکروں نے الجھا دیا اللہ تعالٰی نے بھی پرواہ نہ کی کہ وہ دنیا کی کس گھاٹی میں گر کر ہلاک ہواـ”(رواہ الحالم وصححت وافقی الذھبی)
تم ففرو الی اللہ کی عملی تفسیر تھے اورایسے ہی لوگوں کی تو شناخت کرائی ہے قرآن نے کہ ” یہی ہیں جو نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو انکی طرف دوڑ جانے والے ہیں (المومنون) اور یہی درد آشنا اس زمین پر پہاڑی کے چراغ ہیں۔۔۔ آنے والے قافلے جنکی ضوفشانیوں میں نشان منزل پاتے رہیں گے
کنہار کی موجوں سے صدا آ رہی ہے
دوستو! غازیو! عشق کی ایک ہی جست میں
میں نے چودہ قرن کی مسافت کو طے اسطرح سے کیا
دل میں طائف کا منظر بسا جب لیا
خلق میرا نسیم سحر ہو گیا
اور بدر واحد کا سبق جب پڑھا
عزم قطرہ تھا میرا بحر ہو گیا
میں نے اسلاف کی ہرنشانی کے مٹنے کے اس دور میں
انسانیت کے پرچم کو اونچا کیا
میں نے حق و صداقت کے روشن دئے
خون دل سے بھرے
دل وہ جس میں ہمیشہ سے چاہت رہی
ہر کسی کے لئے
لب وہ جن پر صدا مسکراہٹ رہی
ہر شناسا ہر اجنبی کے لئے
اسطرح بھی ہوا
حلقہ دوستاں میں کسی طور بھی
وسعت قلب کی جب کمی ہوگی
دامن دل وہاں پھیلا دیا
سب کو بتلا دیا
حق کی راہوں می مرنا تو آسان ہے
جینا مشکل ہے۔۔۔ جی کر بھی دکھلا دیا
میرے کردار کا میرے اخلاص کا
اک اک نقشِ پا
صدقہ جاریہ
عشق راہوں میں یوں جاوداں ہوگیا
ایک ستارہ تھا میں
کہکشاں ہوگیا
فیس بک تبصرے