کہتے ہیں تجھے بھی چاہوں اور تیرے چاہنے وا لوں کو بھی چاہوں۔ اس قول کی صداقت مجھ پر اس وقت آشکار ہوئی جب دوران اجتماع پروگرام روک کر نصراللہ بھائی کے ملنے کی خصوصی دعا مانگی گئی۔ دلخراش حاثہ سن کر وہاں موجود تمام بہنوں کے کلیجے منہ کو آگئے تھے۔ ہر آنکھ پر نم ہوچکی تھی دل کی گہرائیوں سے اللہ کی غیبی مدد کو پکارا جارہا تھا۔ قائدین بہنوں نے ہچکیاں لیتے ہوئے اجتماعی دعا کروائی تھی مگر ابھی رحمت ایزدی کو منظور نہ ہوا تھا۔ بڑی دل گرفتہ حالت میں رواں پروگرام پورا کر کے بقیہ ایجنڈا آئندہ کے لیے ملتوی کر کے اجتماع ختم کردیا گیا تھا۔
لوگ دل شکستہ حالت میں گھروں کو لوٹ آئے تھے مگر دل کسی کا قا بو میں نہ تھا۔ اور جتنا بھی غم کی حالت بیان کر لیں تھوڑی ہی لگے گی۔ نصراللہ بھا ئی کی قد آور شخصت مدتوں تک دلوں میں راسخ رہے گی، بہت سی خواتین کے لیے نصراللہ بھائی بمثل بیٹے کے تھے اور کتنی ہی خواتین ان کو بھائی کی مانند چاہتیں تھیں۔ اپنے اسکول کے بچو ں کے لیے شفیق باپ کی ما نند دلوں میں راج کرنے والا شخص بھلا کیسے بھلایا جاسکتا ہے۔ گو میرا ان سے کو ئی تعلق یا کوئی رشتہ داری تو نہ تھی لیکن جماعت سے وابستہ رہتے ہوئے ان کی پاک باز و بہا دری سے پر روشن و تابناک زندگی بے مثال تھی۔ جب جب جلسوں اور ریلی میں شرکت کی ان کے دلیرانہ و گرجدار نعرے حاضرین محفل میں جان ڈال دیا کرتے تھے۔ ہر وہ پرو گرام جو با ہر روڈ پر ہو اس میں مردا نہ نظم کے ذمہ داران، اجتما ع میں شریک اپنی کارکن بہنوں کی حفا طت کے لیے یہ کا رکن بھائی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں مگر مجا ل ہے کہ جلسہ میں شریک بہنو ں کے اوپر کو ئی میلی نگا ہ تو ڈال دے شیر کی مانند، اپنی نیندوں کو قربان کر کے اجتماع عام میں شریک بہنوں کی حفا ظت کرنے والوں پر پھر دل کیوں نہ محبت و قدر دانی سے معمور ہو۔
میں کیسے کہہ دوں کہ میری تو کو ئی رشتہ داری نہ تھی، میں تو ان کی فیملی کو جا نتی بھی نہیں، جماعت سے وابستہ ہر رکن، کارکن ہمارے بھائی ہی تو ہیں۔ ان کی جان کی حفا ظت کے لیے ہم ہمہ وقت دعا گو ہی ہیں اور ان پر آئی کوئی بھی ناگہانی پر اسی طرح دل دکھتا ہے جیسے جسم کے کسی حصے پر درد ہو اور پورا جسم تکلیف محسوس کرے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہر فرد ایک خاندان کی مانند ہوجاتا ہے جس کی ہر خوشی اپنی خوشی اور ہر غم اپنا غم بن جاتا ہے۔
میرا بیٹا جمیعت کے زمانے ہی سے ان کا گرویدہ تھا اور جب اس کو ان پر بیتے حادثہ کا پتہ چلا تو اس کو کتنی ہی دیر تک یقین ہی نہ آیا کہ نہیں امی وہ تو اتنے لمبے چوڑے قد آدر شخص تھے وہ کوئی اور ہونگے آپ غلط سمجھ رہی ہیں نصرا للہ بھا ئی نہیں ڈوب سکتے وہ تو اتنے شجاع اور دلیر تھے کہ مخالف پارٹی کے لوگ بھی ان سے بھڑے بغیر راستہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ وہ نہیں ڈوب سکتے امی، شدت غم سے با ر بار وہ اسی جملے کی تکرار کیے جارہا تھا اور اس وقت سے میرے دل میں اب تک یہی صدا چلی آرہی ہے کا ش ایسا ہی ہو، کاش اللہ میا ں اپنا معجزہ دکھا دیں اللہ کے خزانے میں تو کسی چیز کی کمی نہیں، کاش اللہ میا ں ماں کے دل کی پکا ر سن لیں، سفیا ن اپنی ما ں سے آملے، اس کی ماں اپنے جگر گوشے کو دیکھ لے، رحمت ایزدی جوش میں آجائے اللہ ان دونو ں کے سا تھ خیر کا معاملہ کرلے، اے اللہ لاکھوں دلوں کی صدا تجھ تک بخوبی پہنچ رہی ہے، تو بے نیا ز ہے ما لک ہم سب تجھ سے معجزے کی امید رکھتے ہیں اور نصراللہ شجیع اور حافظ سفیان عاصم کی سلا متی و عافیت سے واپسی کے لیے دعاگو ہیں اور اپنی تحریک کے اس قیمتی اثاثے کو تیری امان میں دیتے ہیں۔
فیس بک تبصرے