جی نہیں! ہر گز دعوت کا مینو نہیں ہے جو آپ طعام گاہ کی طرف روانہ ہونے لگے! یہ تو صرف ہمارے بلاگ کا عنوان ہے
میرٹھ کا نام سنتے ہی کباب پراٹھے تصور میں آ جاتے ہیں! کھانے کے کمرے سے باہر آ ئیں! (کہا یہ جا تا ہے کہ کھانے کی اشتہا بڑھانے میں بھوک سے بھی بڑھ کر اس کی خوشبو کام کر تی ہے۔ رمضان میں اس کا مشاہدہ بہت اچھی طرح ہوتا ہے! )
میرٹھ ہماری والدہ کی جائے پیدائش ہے۔ جب بھی امّی اس بات کا ذکر کر تیں اباّ زیر لب بول اٹھتے ہاں وہیں سے جنگ آ زادی شروع ہوئی تھی۔ ہم بچے بھی مسکرااٹھتے کہ اپنی تاریخ کی کتاب کا سبق یاد آ جاتا! نہ جانے کتنے لوگ وہاں پیدا ہوتے، زندگی بسر کرتے اور اس کی تاریخ کا حصہ بن جا تے ہیں۔ ہمارے لیے خصو صا اہم ہے کہ 1857 ء کی جنگ آزادی جو دراصل تحریک پا کستان کا آ غاز تھی۔ ذرا چھٹی کلاس میں تاریخ کا سبق یاد کریں!
یہ میرٹھ چھائونی کامنظر ہے! سپاہیوں کو جو کارتوس دیے گئے ان میں سور اور گائے کی چر بی شامل ہے! سپاہیوں کے اعتراض کو حقارت سے ٹھکرا دیا جا تا ہے۔ 9 ؍ مئی 1857ء کو میرٹھ چھائونی میں پچاس دیسی سپاہوں کے انکار پر انگریز افسروں نے انہیں سزا دی اور قید کر دیا۔ اگلے روز چھائونی کے سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے اوراس طرح جنگ آ زادی کا آ غاز ہوا۔ جنگ آ زادی میرٹھ سے نکل کر جنوبی ایشیا کے اکثر علاقوں میں پھیل گئی۔۔ جھانسی کی رانی، نانا صاحب، جنرل بخت خاں اور دوسرے سورماؤں نے اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن بد قسمتی سے ان میں اتحاد اور نظم و ضبط نہ تھا اس لیے انگریزوں کے مقابلے میں نا کا م رہے۔۔۔
1857ء کی جنگ آ زادی سے مسلمانوں پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو جنگ کاذمہ دار ٹھہرایا اورظلم و جبرکی انتہا کر دی۔ ہندوئوں کے مایوس کن رویے نے دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی۔ مفکرین نے نظریہ کو آ گے بڑ ھا یا تو قائدین نے اسے عملی جامہ پہنا یا۔ اصل میں یہ ہی نظریہ نظر یہ ء پا کستان ہے جو اللہ کے فضل سے ہمارے پیا رے ملک پاکستان کی صورت میں قائم ہے۔
معزز قارئین!
تاریخ کا سبق یاد کر کے آپ کو بور نہیں کرنا چاہتے کہ اس کے لیے ہسٹری کے ٹیچرز ہی کافی ہیں! بد قسمتی یہ ہے کی تاریخ کا سبق یاد نہ رہنے کا بڑا سبب وہی طریقہ تعلیم ہے جس میں تاریخ رٹوائی جاتی ہے اور یہ بھی بڑی مشہور کہاوت ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھلادیتی ہے اس کا جغرافیہ بدل جاتا ہے! شاید اسی لیے امت مسلمہ کو اپنے متاع گمشدہ کی نہ فکر ہے نہ تلاش!! تاریخ کو تو روح اور جسم کا حصہ ہونا چاہئیے! اور پھرصرف تاریخ کے اساتذہ ہی کیوں کٹہرے میں کھڑے ہوں ؟ یہ صرف ان ہی کی یا درسی کتب کی ذمہ داری تو نہیں! وہ آبائ، وہ بزرگ جو تاریخ کے چشم دید گواہ ہوتے ہیں کیوں ٹک ٹک دیدم ہیں!ہماری درسی کتب میں صاف لکھا ہوتا تھا کہ انگریز تجارت کے بہانے آئے اور ہماری ہر چیز پر قبضہ کر لیا۔ ہماری نسل کے بچے انگریزکی بد دیانتی سے خوب اچھی طرح واقف ہوئے اور اب بچوں کو تاریخ کی ٹیچر بتاتی ہے کہ انگریز یہاں ترقی دینے ؍ مدد کرنے آ ئے اور خوبصورت مثالوں سے اس کی تشریح کی جاتی ہے! کوئی ہے جو اس ٹیچر کو یہ سمجھائے کہ انگریز نے جو اصلاحات کیں وہ اپنی آسانی کے لیے کیونکہ وہ رہنے کے ارادے سے ہی آ ئے تھے۔ ریلوے کا نظام ہو یا بیوروکریسی کا! فیصل آباد انگریزوں نے بسایا! یہ ان کے کریڈٹ پردیا جاتا ہے لیکن اگر اس کی حقیقت سمجھنا ہو تو اس کے آ ٹھ دروازے بمثل یونین جیک دیکھیں!
خیر صورت حال ہر جگہ یکساں نہیں ہے۔ آ ج کی نسل کے بھی جس بچے کو نصابی کتب کامواد محض رٹوانے کے بجائے سینہ بہ سینہذاتی مشاہدات کو جذ بات کے ساتھ گھول کر پلایا جا ئے تو نو سالہ بچی کہہ اٹھتی ہے ’’میں ملکہ بر طانیہ کے تاج میں جڑا ہیرا واپس لے کر آ ئوں گی۔۔۔‘‘ آپ سمجھ گئے ہوں گے اس بچی کو کیا OAC کر وائی گئی ہو گی! معلومات سے نظر یہ تک کاسفرکس طرح کروایا گیا ہوگا!!!
ہوسکتا ہے کہ آپ کو میری تحریر مبہم لگ رہی ہو! چلیں جنگ آ زادی کا chapter دوبارہ کھول کر پڑھتے ہیں! اس سے پہلے کی داستان بھی کچھ کم پر آشوب نہیں ہے۔ نواب سراج الدولہ ـ، سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان وہ چمکتے ستارے ہیں جنہوں نے وطن کی آ زادی کے لیے بھر پور جدو جہد کیں لیکن میر جعفر جیسے کرداروں نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔
کہنے سننے اور لکھنے پڑ ھنے کے لیے بہت کچھ ہے! چلیں بات وہیں لے جاتے ہیں جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اپنے اس بلاگ کا عنوان اور وجہ تسمیہ بتاتے ہیں۔
۵؍ مارچ کو پاکستان نے کر کٹ میں بھارت کو شکست دی تو جہاں پاکستانیوں کے دل کی کلی کھل اٹھی وہیں ہندو عصبیت کھل کر سامنے آئی جب میرٹھ کے ہوسٹل میں پاکستان کی فتح کا جشن منا نے والے طلبا ء پر تشدد کیا گیا اور یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ تو بس اسی موقع پر یہ بلاگ معہ عنوان ذہن میں آ یا مگر کچھ مصروفیات اور کچھ تیکنکی مسائل کی وجہ سے نامکمل ہی ڈیسک ٹاپ پررکھا رہا۔ ادھورے کام پن کی طرح چبھ کر اپنی موجودگی کا احساس کرواتے ہیں تو بس اس کو مکمل کر نا ہی پڑا۔
جی ہاں! تاریخ اپنے آ پ کو دہراتی ہے!وہی میرٹھ کا مقام ہے جہاں سے جدوجہد شروع ہوئی تھی اور نقطہ آ غازبننے والے بھی وہ ہیں جو نسلوں سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اب اس کا تعین ہونا باقی ہے کہ پزل کے باقی حصے کہاں سے جڑیں گے؟ دہلی پر پاکستان کاجھنڈا لہرانے کا خواب نہ جانے کس سال کے کون سے حصے میں حقیقت بنے گا؟ ایک زبر دست سسپنس ہے! مگر لگتا ہے کہ منزل بہت قریب ہے! کیسے؟؟ ہندو انتہا پسند عناصرکی کامیا بی ہندوٗں کی طرف سے مسلمانوں کو خون اور خوف کی دلدل میں دھنسانے کا منصوبہ ہے اور جس کے شواہد ملنے بھی لگے ہیں مگر درحقیقت مسلمانوں کے جذبہ آ زادی کو مہمیز اسی سے ملے گی۔ ایک ایسے شخص کا بطور وزیر اعظم منتخب کروانے کا فیصلہ جس کے بارے میں ہندو وزیر اعظم کا بیان ( دسمبر۲۰۰۲) ریکارڈپر ہے۔ انہوں نے گجرات کے سفر کے دوران جہاز میں اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ سوچ کر میرا دل تیزی سے دھڑک رہا ہے کہ جلسوں میں مودی نجانے کیسی احمقانہ باتیں کہہ ڈالے گا۔۔۔‘‘
ہمیں نہ مودی کا نام برا لگتا ہے اور نہ شکل سے کوئی مطلب ہے مگر ا ب ایسے احمق؟ شخص کا وزیر اعظم بننا صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے!!
ہمیں تو میرٹھ کے پراٹھے کبا ب کھانے کی فکر ہے اور کشمیری چائے بھی وہیں جا کر پینی ہے ان شاء اللہ!
بد قسمتی یہ ہے کی تاریخ کا سبق یاد نہ رہنے کا بڑا سبب وہی طریقہ تعلیم ہے جس میں تاریخ رٹوائی جاتی ہے اور یہ بھی بڑی مشہور کہاوت ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھلادیتی ہے اس کا جغرافیہ بدل جاتا ہے!
بجا لکھا