چونکیں نہیں! یہ عام سی تاریخیں ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کوئی قابل ذکر واقعہ رونما نہیں ہوا۔ مگر کیا واقعی ایسا کہنا چاہئیے؟ کیا ایک مثالی اسلامی مملکت کی منزل کااہم ترین سنگ میل باعث توجہ نہیں ہو نا چاہئیے؟
جی ہاں! 30 مارچ کو جماعت اسلامی کے نئے امیر کے نام کا اعلان کیا ہوا ہر طرف سے الفاظ کی بارش ہو نے لگی۔ گویا آسمان کا بند ٹوٹ گیا ہو! کسی نے خوب کہا کہ کوریج کامسئلہ حل ہو گیا۔ اتنے کالمز، ٹاک شوز، بلاگزلکھے گئے کہ جماعت اسلامی خود خرچ کر تی تو بجٹ کم پڑ جا تا اور تب بھی اتنی بھر پور توجہ نہیں مل سکتی تھی۔ اسے کہتے ہیں چھپّر پھاڑ مدد! جب پورے ملک کے ابلاغی میدان میں صرف اور صرف جماعت کی امارت کو بائونسرز دیے جا رہے تھے تو اس سارے منظر نامے میں جہاں جماعت سے نا واقف افراد تک جماعت کا نام اور کردار پہنچ رہاتھا وہیں جماعت کے کارکنا ن ایک شش و پنج کا شکار نظر آ ئے۔ وجہ؟
جماعت کے مزاج کی مثال خرگوش کی سی ہے!( اس تشبیہ کی معذرت مگر انسان جو ملکوتی صفات کے ساتھ ساتھ حیوانی جبلتوں سے بھی متصف ہے تو اسی حضرت انسان کی بنائی ہوئی جماعتیں بھی کچھ نہ کچھ مشا بہت بھی ضرور رکھتی ہوں گی! آپ کا اس نظر یہ سے متفق ہونا ہر گز ضروری نہیں! ) ایک شر میلا سا پیاراجانور جو اپنی جھلک دکھاتا ہے مگر کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوتے ہی اپنے بل کے اندر گھسنے کی کوشش کر تا ہے۔ اس کی دل موہ لینے والی خوبصورتی کادیکھنے والی ا ٓنکھیں دور تک پیچھا کرتی ہیں۔ جی ہاں! ہم سب کارکنان بمع قائدین خلجان کا شکار کہ دنیا کے سارے ایشوز چھوڑ کر ہمیں کیوں ڈسکس کیا جا رہا ہے؟ حاسدین کی اپنی کینہ پروری کا تقاضا ہے کہ وہ اس مبہوت کر نے والی خوبصورت روایات کوکس طرح توڑ مروڑ کر پیش کر تے ہیں۔۔۔ مگر حق تو یہ ہے کہ ایک بار د یکھاہے دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے کی مصداق پوری قوم اس نظام کے حسن کو دور تک اور دیر تک دیکھ کر آ نکھیں ٹھنڈی کر نی چاہتی تھی۔ ہم جو جماعت کے اندر ہیں وہ شاید اس سارے سسٹم کو for granted لیتے ہیں جبکہ دیگر پارٹیاں اور گروپ یا جنہیں فیملی کمپنی لمیٹڈ کہنا درست ہوگا،بڑی حسرت بھری نگاہوں سے اس سارے ڈسپلن اور پروٹوکول کو دیکھتی ہیں۔
جب بھی جماعتوں کے نظام کا مقابلہ ہوتا ہے ،بحث و مباحثہ ہوتاہے جماعت کو ایک استثنا سا ملتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایسے ایک پروگرام کو دیکھنے کاتفاق ہوا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی ورکنگ کمیٹی ؍ ملازمین کی تعدا د اور نظام وغیرہ کا موازنہ ہو رہاتھا ، مزید یہ کہ اپنی انتخابی مہم کس طرح لانچ کرتی اور چلاتی ہیں تو ماہر کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں میں یہ فیملی ایونٹ یا پھر فرد واحد کے بل بوتے پر انجام پذیر پاتا ہے۔ کمپئیر اور چینل کا نام تو نہیں دیکھ سکے مگر ماہر اور مبصر تھے سہیل وڑائچ! جی ہاں این دن جیو کے ساتھ سے والے! تو جناب جب انہوں نے بتایا کہ جماعت کے ملازمین کی تعداد سب سے زیادہ یعنی سو ہے تو ان خاتون کمپئر نے بڑی طنز بھری حقارت سے ان کی بات کاٹ کر سوال کیا کہ کیا جماعت اسلامی کو اس کی ضرورت ہے تو سہیل صاحب نے ترت دو ٹوک جواب دیا کہ اصل میں جماعت کا آفس پورے سال کام کرتا ہے تو انہیں نظام کو رواں دواں کے لیے عملہ چاہئیے ہوتا ہے۔۔۔ بقیہ جماعتیں صرف انتخابی شیڈول کے بعد سر گرم ہوتی ہیں یا پھر حکومتی کارندوں اور وسائل سے اپنی مہمات چلاتی ہیں۔۔۔
عزیز قارئین! اس موضوع پر اتناکچھ لکھا اور پڑ ھا جا چکاہے کہ مزید وقت کاضیاع اور اور وسائل و نظر پربوجھ ہوگا مگر بحیثیت ایک کارکن میں اس پر اپنی بات نہ کہہ سکی۔ مصروفیات کے دفتر میں دل کے خیالات دل میں ہی رہ گئے۔افسوس رہ جاتا مگر اسی ایشو کے حوالے سے 30 اپریل کو جو تصویر شائع ہوئی اور پھر اس پر کچھ نہ کچھ کمنٹ ہوئے تو ہمیں بھی موقع ملا کہ اپنی نہ کہی ہوئی بات آپ کے ساتھ شئیر کر سکیں۔
جی ہاں! یہ تصویر ہے سالار جماعت کی جو بائیس تئیس سال تک اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کر کے سرخروئی سے واپس اپنے شہر کو جارہا ہے!ایک اور درخشاں روایت جو دوسری جماعتوں میں ناپید ہے جہاں قائدین مرنے کے بعد بھی پارٹی قیادت سے دست بر دار ہونے کو تیار نہیں ہوتے! مجھے فخر ہے کہ میں بھی اس کا حصہ ہوں 2008 ء میں رکنیت کا حلف اٹھانے کے چند ہفتوں بعد ہی بیلٹ وصول ہوا کہ امیر جماعت کا انتخاب کر ناہے۔اس میں تین نام ہماری آسانی کے لیے درج تھے۔ انتہائی فخر اور اعتماد سے ہم نے منور حسن کا نام درج کیا۔ یہ وہ شخصیت جس کی زندگی کے جتنے بھی پہلو نظروں کے سامنے تھے اسے اس کا حقدار بنا رہے تھے۔ معیار قیادت کی تمام شقوں پر پورا اتر تا ایک نام جس کو امیر چننے میں کسی تردد کی ضرورت نہ تھی!!
وہ جس شہر سے تعلق رکھتے تھے وہاں کی ایک متعصبانہ جماعت کا جماعت اسلامی پر تنقید کا ایک نکتہ ضرور ہوتا تھا کہ کوئی اردو سپیکنگ امیر کیوں نہیں بن سکتا؟ ان کے امیر بننے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جماعت اسلامی کے اندر ایسی کوئی گروہ بندی نہیں ہے۔ ذات برادریوں سے بالاتر ہو کر حلقہ امارت سونپا جاتا ہے۔
امیر جماعت بن کرذمہ داریاں کس خوش اسلوبی سے نبھائیں اس میں کوئی دو رائے نہیں! ان کی ہر تقریر سنت کے کچھ ایسے حصے ہمارے سامنے لاتی جواس سے پہلے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوتے اور ان کا اس سے پہلے ہم ادراک بھی نہیںکر سکتے تھے!! جماعت کا تائثر کتنا مثبت اور باوقار انداز میں سامنے آ یا۔ کتنے حوصلے سے چو مکھی کا سامنا کیا۔ میڈیا کی سحر انگیزی میںبھی دامن حق تھا مے رکھا۔ اس اعصاب شکن مرحلے نے جسم کو اندر ہی اندر گھلا ڈالا۔ ہم سب ان کی گر تی ہوئی صحت کو محسوس کر رہے تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب جو بیلٹ پیپر ہاتھ میں آ یا تو دل اور دماغ میں ایک کشمکش سی نظر آ ئی۔ ان کی لرزتی آوازاور کمزور جسم سامنے آ گئے۔ اور پھر ان پر مزید بوجھ ڈالنا گوارا نہ ہوا۔ یہ ہی بات شاید زیادہ تر ارکان کے مد نظر رہی اور ایک خاموش ہم آ ہنگی نے ان کو بری الذمہ قرار دے دیا۔ یہ وہ جذباتی پن ہے جسے میڈیائی جادو گروں نے ان کی شکست سے تعبیر کیا۔ جماعت میں شفاف اور مضبوط انتخابی نظام نے دوسری جماعتوں کی پول کھول کر رکھ دی اس تائثر کو زائل کرنے کے لیے توپوں کے رخ کھول دیے گئے۔ الفاظ کی بمباری نے ان لوگوں کے من کی بد دیانتی ظاہر کر دی۔
آ خر میں بس یہ کہنا ہے کہ وہ تصویر جس میں وہ ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہوکر اپنے گھر واپس جارہے ہیں ،دراصل ہمارے اسلاف کی وہ خوبصورت جھلک ہے جس میں عہدہ چھوڑتے وقت تن کے کپڑوںکے سوا کچھ نہیں ہو تا۔ ایسے حکمران اگر امت مسلمہ کو مل جائیں تو اس کی عظمت رفتہ بھی واپس آ جائے گی۔ تو پھر ٹھیک بات ہے نا کہ نہ یہ تاریخیں غیر اہم ہیں نہ وہ تاریخ جو رقم کی جا رہی ہے۔ زمانہ میںیوں ہی تو ہلچل نہیں ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام کی صورت گری نظرآ رہی ہے۔
فیس بک تبصرے