پچھلے سال اپریل کی بات ہے۔مغرب سے چند لمحوں پہلے موبائیل کی گھنٹی بجی۔ نامانوس نمبرہونے کے باوجود یہ سوچ کر اٹھا لیا کہ انتخابا ت کی گہما گہمی میں بہت سے نئے رابطے ہوئے ہیں جو موبائیل کی ڈائریکٹری میں محفوط نہیں ہوسکے ہیں مگر اٹینڈ کر نا ضروری محسوس ہوا۔ دوسری طرف ایک مہذب ، شائستہ اور دھیمے لہجے میں مردانہ آ واز تھی جو اجنبی ضرور تھی مگر رانگ ہر گز نہیں تھی۔ ایک بھائی جو اپنی بستر مرگ پر لیٹی بہن کے مو بائیل میں موجود ناموں پر فون کر کے دعاکی درخواست کر رہاتھا۔
یہ تھی فر یال یاور جس سے میں کبھی نہیں مل سکی تھی مگر اس کی تحریر اس کا تعارف بنی۔اور پھر ایک دفعہ رائٹرز فورم کنونشن میں اس کو دعوت نامہ بھیجا اورتوقع تھی کہ ملاقا ت ہوگی مگر چند گھنٹوں پہلے بارش کی وجہ سے وہ پروگرام ملتوی کر نا پڑا اور ملاقات کی آ رزو تشنہ رہ گئی۔اور ایک شہر میںرہتے ہوئے ایک ضلع سے دوسرے تک کا سفر ناممکن نہیں مگر آسان بھی نہیں لہذامیں چاہنے کے باوجود نہ مل سکی ۔ہاں البتہ اس کے قریب رہنے والی اپنی بہن کو اس سے متعارف کروایا جس نے رابطہ کیا۔
اور آج وہی فریال موت و زیست کی کشمکش میں تھی ! بھائی کے الفاظ سے مایوسی جھلک رہی تھی مگر امید کا رنگ بھی نظر آ رہا تھا۔میں نے دعا کا وعدہ نبھایا مگر اگلے روز ہی بہن کی موت کی اطلاع آ گئی اور اب فون کر نے والی اس کی پھو پھی تھیں جو اس کی مغفرت کی دعا کی درخواست کر رہی تھیں ! میں آپس کی محبت سے بہت متائثر ہوئی کسی فیملی ممبر کی جدائی آسان نہیں!حالانکہ معلوم ہے کہ ہمیں بہت جلد ایک دوسرے سے ملنا ہے مگر۔۔۔ یہ نہیں معلوم تھا کہ بھائی اپنی بہن سے ملنے کو اتنا بے چین ہوا کہ ٹھیک ایک سال بعد ہی اپنی بکنگ کروابیٹھا جانب جنت!
جی ہاں ! یہ بات ہے شمعون قیصر کی ! وہی جو پچھلے ہفتے ایک واردات میں شہادت کے درجے پر فائز ہو گیا۔ رات گئے ملنے والے اس کی المناک موت کے ایس ایم ایس پڑھ کر میں اپنا چودہ سال پرانا جملہ دہرا بیٹھی۔ ’’لگتا ہے اس شہر میں کوئی بھی طبعی موت نہیں مرے گا۔۔۔‘‘ اور یہ واقعہ تھا حکیم سعید کو گولی مار کر شہید کرنے کرنے کا! ہر ایک کے نام کی ایک گولی بنی ہوئی ہے۔ ایک ڈاکٹر اپنے موبائیل فون کو بچاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔۔۔ واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ اپنے اثاثہ جات سے بزور ہتھیار محروم ہونے والے مال کو جان کا صدقہ سمجھ کر شکرانہ پڑ ھتے ہیں! لیکن جبر سے جان اور مال لینے والوں میں روز بروز اضا فہ نظر آ تا ہے۔
ATM سے ایک وقت میں کتنے پیسے نکلوائے جاسکتے ہیں؟ دس، بیس ہزار؟ کتنے دن چل سکتے ہیں؟ مگر مقصد صرف مال نہیں بلکہ انتشار پھیلانا ہے کہ ان کے آ گے پورا شہر یر غمال ہے! لگتا ہے کہ قوت مدافعت ختم ہو چکی ہے۔ لوگ بے چوں و چرا اپنی نقدی مال کی ہو یا عمر کی، ان قاتلوں کے حوالے کر دیتے ہیں! ایسے میں کوئی جری انکار کرتا ہے تو وہ اس منصب شہادت پر فائز ہو جا تا ہے۔ حدیث کانوں میں گونجنے لگتی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جو اپنے مال ،جان کی حفا ظت کر تے ہوئے مارا جائے وہ شہید ہے۔۔۔ مبارک شہادت!
تم زندہ ہوگئے شمعون جنت کے سفر کے لیے!!!
ٹھیک اسی دن صبح کے وقت گھر والوں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ اپنے ATM کارڈ سے پیسے نہ بھی نکلوائیں تو احتیاطًا بیلنس ہی چیک کر لیا کریں تاکہ کارڈ ایکٹو رہے ۔اس بات پر عمل درآمد بھی کر نا تھا مگر اب میں شاید نہ کر سکوں نہ جانے کون منتظر کھڑا ہو خدانخواستہ!
ہر شہری کی طرح میرے خوف کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہوگیا ہے! حضرت عزرائیلؑ کو جان لینے کے لیے صرف ایک لمحہ چاہئیے ہوتا
ہے مگرہر دم مر نے والوں کے لیے کیا ہے!!!
ایک وال چاکنگ یاد آ رہی ہے کراچی کی!
What is life before DEATH!!!
انا للہ و انا الیہ راجعون
اللہ پاک شمعون قیصر اور فریال یاور کو جو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔اٰمین
دونوں فروغ دین اور بقائے ملک و ملّت کیلئے کی جانے والی جدوجہد کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے
inna lilah wa innah ilahe rajeon allah marhom ki kawishon ko qbwl kare or ham logon lo un ka namul badal nasrb kare