دبی دبی سسکیوں کی آواز نے فضا میں طاری گہرا سکوت توڑ دیا تھا، کہ اچانک زوردار ہچکی کی آواز آئی اور وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگا۔۔۔ پنجاب یو نیورسٹی کے وسیع و عریض سبزہ زار میں طول و عرض تک پھیلا ہوا پنڈال طلبا سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا۔۔۔ ملک بھر سے اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوان 1989 میں ہونے والے پہلے “اجتماع عام ” میں شرکت کیلئے موجود تھے، جمعیت کے دستور کے مطابق ناظم اعلیٰ کی مدت ختم ہوئی اور نئے ناظم اعلیٰ کا انتخاب ہوا، ارکان جمعیت نئے ناظم اعلیٰ کو اپنے جلو میں لئے پنڈال میں پہنچے توسب نوجوان اپنے راہنما کا والہانہ استقبال کرنے کیلئے کھڑے ہوگئے اور فضا قائد اعلٰی قائد اعلیٰ ناظم اعلٰی ناظم اعلیٰ کے نعروں سے گونجنے لگی۔۔۔ ناظم اعلیٰ کو تیزی سے اسٹیج پر لایا گیا جہاں سابق ناظمین اعلیٰ قطار بنائے نومنتخب ناظم اعلیٰ کے استقبال کیلئے کھڑے تھے ۔۔ مگر یہ کیا؟ نئے ناظم اعلیٰ کا رو رو کر برا حال تھا اور وہ حلف پڑھنے سے معذرت کر رہے تھے، اسٹیج پر موجود پروفیسر خورشید احمد نے انہیں دلاسہ دیا، خرم مراد مرحوم نے گلے سے لگایا اور سید منور حسن نے سہارا دیا۔۔۔ سب ہی نئے ناظم اعلیٰ کو حوصلہ، ہمت اور استقامت کی دعا دیتے ہوئے حلف پڑھنے پر آمادہ کرہے تھے اور پھر ناظم اعلیٰ کی سسکیوں بھری آواز مائیک کے ذریعے دور تک سنائی دینے لگی۔۔۔ “میں سراج الحق اللہ کو حاضر ناظر جان کر عہد کرتا ہوں کہ۔۔۔” حلف مکمل ہوا تو ایک بار پھر فضا قائد اعلٰی ناظم اعلٰی کے نعروں سے گونجنے لگی۔۔۔ ناظم اعلٰی سراج الحق ابتدائی تقریر کیلئے ڈائس پر آئے تو دیر تک روتے رہے اور کچھ نہ کہہ سکے۔۔۔ حالت سنبھلی تو بولے کہ ” اگر کسی شخص کے گلے پر کُند چھری چلا دی جائے تو وہ ایسی حالت میں کیسے تقریر کر سکتا ہے۔۔۔ ” اور ایک بار پھر ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔۔۔ ناظم اعلیٰ نے آزمائش اور ابتلا میں جکڑی جمعیت کو صبر اور استقامت کا درس دیا اور اپنا خطاب مکمل کیا۔۔۔ اور پاکستان کی طلبہ تاریخ کی سب سے بڑی اور منظم ریلی کی قیادت کرتے ہوئے موچی دروازے کا رخ کیا۔ “عزم انقلاب ریلی” نے جمعیت میں تحرک اور استحکام کے دورس نتائج پیدا کئے۔۔۔ سراج الحق جمعیت کے ایسے ناظم تھے کہ جنہوں نے جمعیت کا کلچر بدلا، کارکنان کے مزاج اور رویوں میں تبدیلی لائے۔۔۔ انہوں نے پو رے پاکستان میں اس قدر دورے کئے کہ سفر کی وجہ سے ان کی کمر کے مہرے ہل گئے اور بیمار پڑ گئے۔
میں نے سراج الحق کو پہلی بار اُس وقت دیکھا جب وہ 88 یا 89 میں ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے جامعہ پنجاب میں لاہور جمعیت کی ایک تربیت گاہ میں خطاب کیلئے آئے۔۔۔ اپنی تقریر میں کہنے لگے کہ ” ذمہ داری کا ایسا بوجھ ہے کہ گھر جانے کا وقت نہیں ملتا، کئی دنوں بعد اپنے گھر جاسکا تھا، ماں بیمار تھی دوائی لینے گھر سے باہر بازار آیا تو ایک ساتھی بھاگتا ہوا آیا کہ مسئلہ ہوگیا ہے جلدی آئیے، اُس کے ساتھ آگے چلا گیا اور پھر ابھی تک واپس گھر نہیں جاسکا ہوں”۔ واقعی سراج الحق نے اپنی ذمہ داریاں ایسے نبھائیں کہ گھر نہ جاسکے۔۔۔ پہاڑوں کے دامن میں کچا سا گھر اب بھی ویسا ہی ہے۔۔۔ جمعیت کے بعد جماعت اسلامی کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے عوام نے ایسی پذیرائی دی کہ دو مرتبہ کے پی کے اسمبلی پہنچے۔ صوبے کی سب سے اہم وزارت سینئر وزیر اور خزانہ کا قلمدان سنبھالا تو وزارت چلانے کی بھی انوکھی مثال قائم کردی۔۔۔ کرپشن سے پاک ایسا وزیر خزانہ جس نے دوسرے ممالک کے دورے بھی کئے مگر حیرت انگیز طور پر پیسوں کا بوجھ نہ پڑا، قوم کے پیسوں کو امانت سمجھنے والے سینئر وزیر نے پرتعیش ہوٹلوں کے بجائے مساجد میں قیام کیا اور اپنے صوبے کے پیسے بچا ئے۔
بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے والے ، وزارت کے باوجود سیکرٹریٹ کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھ کر نان چنے کھانے والے سراج الحق کو جماعت اسلامی کے ارکان نے اب اپنا امیر منتخب کر لیا ہے۔۔۔ ارکان کے اس فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ جماعت اسلامی غیر روایتی اور انقلابی پارٹی ہے۔۔۔ سراج الحق کو گھر جانا اور گھر بنانا نصیب نہیں ہورہا۔۔۔ سچ ہے قوم کی خاطر کچھ کرنے کیلئے اپنی جان گھلانی ہی پڑتی ہے۔۔۔ اور اپنے گھر کی قربانی دینی پڑتی ہے۔۔۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہر پارٹی کا لیڈر اور سیاستدان اپنا گھر بنانے پر ہی لگا ہوتا ہے۔ عوام کبھی ان کیلئے ترجیح اول نہیں بنے۔
سراج الحق سیاستدانوں کیلئے اس حوالے سے مشعل راہ ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ عوام اور پارٹی کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو اپنی پہلی ترجیح بنایا اور اپنی ذات اور اپنے گھر کی قربانی دی ۔
سابق امیر منور حسن نے ایک بار پھر سراج الحق کو اسقامت کی دعا کے ساتھ مبارکباد دی اور سراج الحق ایک بار پھر رو دئیے۔ اتنا روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔۔۔ کہنے لگے کہ “اتنا بڑا بوجھ کیسے اٹھا ؤں گا” مگر اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ہی درویش صفت مردانِ حق ہی بڑا بوجھ اٹھا یا کرتے ہیں۔
Zabrdast ,rula dia aap ne tu