عالم اسلام اس وقت ایک طرف عالمی طاقتوں کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہے تو دوسری طرف عالم اسلام میں خود ایسے عناصرموجود ہیں جوعالم اسلام کواندرسے کھوکلا کرنے میں مصروف ہیں۔ عالم اسلام کی دوبڑی طاقتیں سعودی عربیہ اور ایران عالم اسلام میں بااثر ممالک کے طورپرجانے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی امت مسلم کی ہے کے یہ دونوں ممالک مسلم دنیا میں اپنے اثرات کو غلط طریقے سے استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ مسلم دنیا کی اکثرممالک کی اندورنی معاملات میں مداخلت یہ دونوں ممالک آج کل اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ خواہ وہ پاکستان ہویا افعانستان، مصراور شام ہو یا بنگلادیش اکثرممالک کے اندورنی معاملات میں بے جا مداخلت اورمغربی لابی کی بے جا حمایت عالم اسلام کیلئے بلکہ مشرق وسطی کیلئے ناسور سے کم نہیں۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کے دو اہم مما لک مصر وشام اندرونی طور پر سخت کشیدگی میں مبتلا ہیں لیکن جہا ں حالات کی نزاکت کو دیکھ کر آمن کی بحالی کے لئے قدم اٹھانا چاہیئے وہاں ان دونوں ممالک کے مداخلت تشدد میں مزید اضافے کی سبب بن رہی ہے۔
مصر جہاں پرامن طریقے سے جمہوریت پٹڑی پر آئی اور مصر کی سب سے بڑی جماعت اخوان المسلمین اقتدار میں آئی تھی لیکن آمریت نے مصر کے لئے اسلام پسندی کو گورا نہ کیا اور اخوان کی حکومت گرادی۔ فوجی آمریت کے قیام کے ساتھ ہی سعودی شاہ نے اس کا خیر مقدم کیا (منتخب صدر محمد مرسی جب منتخب ہوئے تھے تو سب سے پہلے واشنگنٹن کی بجائے سعودی عربیہ کادورہ کرکے اپنے اسلام پسندی کا ثبوت دیاتھا) اور خیر مقدم کیساتھ ساتھ سعودی شاہ نے امداد کا علان بھی کیا۔ اخوانی قیادت گرفتار ہوئی ہزاروں مرد عورتیں اسیر بنی لیکن اخون المسلمین کے کارکنوں نے عزم اور ہمت سے کام لے کر پر آمن طریقے سے مرسی حکومت کی بحالی کے لئے ملک گیر احتجاج شروع کیا جس میں ہزاروں لوگ شہید اور زخمی ہوئے۔ فوجی عدالتیں قائم ہوئیں اور اخوان المسلمین پر مقدمے شروع ہونے لگے۔ حال ہی میں مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع اور سپیکر محمد البتاجی سمیت 529 افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ سرزمین مصر اخوانیوں کے لیے تنگ کردی گئی ہے۔
اے میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں
بات ہوتی گُلوں تک تو سہ لیتے ہم
اب تو کانٹوں پہ حق بھی ہمارا نہیں
ان ہی حالات میں جہاں مصر میں اخوان کی خلاف انتقامی کاروائی جاری ہے سعودی حکومت نے مذمت کی بجائے فوجی آمریت کی حمایت میں زور لگا کر اخوان المسلمین کو دہشت گرد قرار دے دیا حتیٰ کے یہاں تک بھی پیچھا نہ چھوڑا سعودی مفتی اعظم نے اخوان کی حامی جماعتوں کو تنبیہ دیدی کے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ سعودی عربیہ جس سے ہم اخوت اور محبت کی امیدیں لگائیں بیٹھے ہیں کا امت مسلمہ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک امت مسلمہ کے لئے تکلیف دہ ہے۔ امت مسلمہ کی بنیادوں کو ختم کرنے کیلئے اخوان پر سعودی عرب کی طرف سے حال ہی میں لگائی گئی پابندیوں پر اخوان المسلمین نے موقف پیش کیا اتنا کچھ ہونے کے با وجود اخوان تشدد کے بجائے پرامن طریقے سے بات کرنے کی قائل ہے۔ 8 مارچ کو اخوان نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ:
ملکی امور میں عدم مداخلت کے مستقل اصول پر قائم رہتے ہوئے ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے سامنے انے والا حالیہ موقف مملکت کے بانی کے دور سے لے کر آج تک جماعت کے ساتھ سعودیہ کے تعلقات کی پوری تاریخ کے بالکل برعکس ہے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اخوان المسلمین کی جماعت ہر طرح کے غلو اور انتہا پسندی سے دور رہتے ہوئے صحیح اسلامی فکر اور سوچ کی ترویج و اشاعت میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اس امر کی گواہی مملکت کی متعد اکابر علماء کرام اور حکام بھی کئی باردے چکے ہیں سعودی عرب میں بھی تمام لوگ بہ خوبی جانتے ہیں کہ اخوان المسلمین ہمیشہ علی الاعلان یہی کہتے ہیں کے وہ کتاب اللہ اورسنت رسول ﷺکی تعلیمات سے ماخوذ طریقہ کار پر ہی عامل رہی ہے۔ اخوان عالم اسلام کے ممالک میں سیاسی قیادت کے ساتھ واضح نظریاتی نقطہ ہائے نظر کی بنیاد پر تعامل کرتی ہے جن میں سے سب سے اہم یہ اعتقاد ہے کے ہمارے معاشرے مسلم معاشرے ہیں ہمارے اور ان کے مابین اور ان مسلم معاشروں کے مختلف سیاسی قوتوں اور حکومتوں کے مابین نصیحت وخیر خواہی کا تعلق ہے نہ کہ دوسروں کو کافر یا خائن قرار دینے کا اخوان نہ تو کسی ملک کو کافر قرار دیتی ہے نہ مرتد کہ جس کی وجہ سے وہ اس کی دشمنی اور تصادم مول لے اسی اصول کی بنا پر سعودیہ کے ساتھ اخوان کا تعلق بھی صرف اور صرف خیر خواہی اور مشورے پر مبنی ہے۔ اخوان کو اپنے نظریہ اور فکر پر فخر ہے اور تمام مسلم معاشروں کی عوام کے ساتھ وابسطہ اپنی تاریخ پر بھی۔ اس نے ہمیشہ اسلام کی جامع مفہوم کو اپنے دعوت کی پہچان بنایا ہے اور ائندہ بھی اسے اپنا بنیادی تعارف قرار دیتے ہیں۔ اخوان تقریبا ہر مسلم ملک میں امت کا حصہ ہے اور اسی بنیاد پر وہ امت مسلمہ عالم اسلام اور عوام کے مسائل حل کروانے کے لئے اپنا فرض ادا کرتے رہینگے۔ جماعت اخوان ہر شہری کی آزاد وعزت بخش زندگی یقینی بنانے کے لئے سیاسی میدان میں ملک کے تمام شہریوں سے تعاون پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی دینی یا مذہبی اختلافات کی باوجود مختلف قومی شخصیات وجماعتوں سے اشتراک واتحا دکرتی ہے اور یہ واضح اعلان کرتی ہے کہ وہ اسلام کے نام پر لوگوں کے نگران یا ٹھیکدار نہیں بنائی گئی۔ جماعت اخوان اعلیٰ اخروی حدف رکھتی ہے اور اس کا حصول نظریاتی معاشرتی سیاسی اور دینی گروہوں سے گفت وشنید کے ذریعے ہی ممکن سمجھتی ہے اخوان المسلمین خیر خواہی کے راہ پر چلتی اور ملک وقوم کی مفادات کے برعکس کیئے جانے والے ہر اقدام کی مخالفت جاری رکھتے ہوئے یہ واضح کرتی ہے کے وہ اپنی سیاسی اور اصلاحی جدوجہد کو کسی بھی ملک میں محض کسی حکمران کی مخالفت کی بنیاد پر شروع نہیں کرتی بلکہ وہ ہر قسم کی تشدد، ایذا رسانی اور اتنہا پسندی سے دور رہتے ہوئے حکمت پر مبنی دعوت اور خیر خواہی پر مبنی نصیحت پر یقین رکھتی ہے۔
اخوان کا مؤقت روز اوّل سے ہی عیاں ہے۔ لیکن اپنی بادشاہت کے تحفظ کے لیے ہر حد سے گذرجانے والوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی بھی مصر میں فوجی آمریت کے تسلسل کے لیے خاموش حمایت جاری ہے۔ اس خاموشی سے کہیں ایسا نہ ہوکرایمن الاظواہری کی اس بات کوتقویت ملے کہ اے اخوانیوں تم بار جمہوریت کے ذریعے آؤگے اور یہی لوگ آپکو گرادینگے۔
فیس بک تبصرے