جن بستیوں سے ایک بار موت کا گذرہوجائے انہیں زندگی کی روئیدگی دینے کیلئے کئی برسوں کا سفردرکار ہوتا ہے۔ جن کھیتوں کو خشک سالی ڈس لے وہاں صرف موت اگا کرتی ہے، لاغرمویشیوں، بیمار بچوں، اور تھکے ماندے وجودوں کے ساتھ (کیونکہ مٹھی کا اکلوتا ہسپتال اب انکے وجودوں کا بوجھ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہے) وہ اپنے ’’مکے ‘‘سے ’’مدینہ‘‘ کی تلاش میں ہجرت کررہے ہیں۔ لیکن ’’معصومین تھر‘‘ یہ نہیں جانتے کہ ہجرتیں تب کامیاب ہوتی ہیں جب’’انصار‘‘پشت پر ہوتے ہیں۔ میلوں ٹھیلوں کے رسیا کب ’’بھوک‘‘کی لذت سے آشنا ہوتے ہیں۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ جب پریس بریفنگ دے رہے تھے ’’تھر‘‘کے افلاس زدہ عوام پر گذرے والی جگ بیتی کی تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ سری لنکا سے میچ ہارنے پر تبصرہ کررہے ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جیسے اعمال ہوتے ہین ویسے ہی عمال ہوتے ہیں۔ جمشید دستی نے جو آئینہ دکھایا ہے اس کریکٹر کے حکمرانوں سے اور توقع بھی کیا جاسکتی ہے؟؟وزیراعلیٰ جب مٹھی تشریف لے جاتے ہیں تو ایک پرتکلف استقبالیہ جو مٹھی کی ’’باغیرت انتظامیہ‘‘ انکے اعزاز میں پیش کرتی ہے لطف اٹھاکر ائرکنڈیشنڈ کمرے میں آرام فرماکر فوٹوسیشن کرواکے واپس آجاتے ہیں۔ اور اعلی الا اعلان قوم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اس ریاست میں لیڈر’’برہمن‘‘ اور عوام ’’شودر‘‘ہیں۔۔۔ حکمرانوں کے رویے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم بارود کے لباس پہن کر آگ کے سامنے کھڑے ہیں۔ بس جلنے کا تماشا ہونا ابھی باقی ہے۔اور وہ تماشا گاہے بگاہے ہوتا ہی رہتا ہے۔ حکمرانی کی بے حسی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ہزاروں من گندم اب بھی وہ تقسیم کرنے پر آمادہ نہیں اور لوگوں کے بھوک سے لڑنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ فکری طور پر معذور ہیں اور قوم کے یہ ناخدا قوم کی کشتی بیچ بھنور میں چھوڑ کر تنہا اپنے سفر پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنی ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں، منرل واٹر کی بوتلوں ،اور فرانس کی خوشبؤئیں استعمال کرنے والے تھر کی کھال اترتی گرمی اور کندھوں پر اپنے جنازوں کا بوجھ اٹھانے والوں کی جھولی میں چند مٹھی گندم ڈال دینے پر بھی تیار نہیں ہیں! تھر کے پسماندہ لوگوں نے جنہیں اپنا نمائندہ بناکر اسمبلیوں میں بھیجا وہ تو اسمبلیوں میں ڈیسکیں بجانے اور گھومنے والی کرسیوں پر جھولنے اور فیسٹول کی رنگینیوں میں مصروف ہیں۔پچھلے 65 برس سے مجرموں کے ہاتھوں پر دستانے ہیں اسلئے عدالتیں انکے ’’فنگرپرنٹس‘‘ حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ عدالتیں اگر ظالموں کو پھانسی پر چڑھارہی ہوتیں تو ریاستی مظالم یہاں تک کیسے پہنچتے؟
وہ 150 بچے، مفلسوں کے بچے، ننگے بھوکے بچے، اگر جی بھی لیتے تو کیا کارنامہ سرانجام دے لیتے؟ وہ روٹی بونے اور روٹی کاٹنے اورروٹی کیلئے لڑنے میں ہی جیون گذاردیتے۔۔۔ زمین کا پیٹ یا زمین کی پیٹھ ان کیلئے برابر ہی توتھی۔ نہ معلوم کتنے درجنوں لوگ گائوں ودیہاتوں میں روز بھوک کے ہاتھوں مفلسی کے ہاتھوں، بیماریوں کے ہاتھوں سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔ وہ تو میڈیا نے تھر کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیلادیں۔ اور حکمرانوں نے اپنے آقائوں کے ڈر سے تھر کا رخ کیا کہ انکی بین الاقوامی امداد نہ روک لی جائے۔ غریب کی قسمت میں تو موت ہی لکھی ہے۔ جیتے بھی ہیں تو مرمر کر ہی جیتے ہیں۔ کبھی سیلابی پانی بستیوں کو نگل لیتا ہے تو کبھی بھوک۔ اسلئے کہ حکومت تو ڈیڑھ ارب روپے فیسٹول پر خرچ کرچکی اب غریب عوام کیلئے گندم اور علاج کا بندوبست تو اسکی’’ ثقافتی ترجیحات‘‘ میں شامل نہیں ہے نا! امن وامان کا مسئلہ ہو یا مہنگائی کا یا زمینی، آسمانی آفات کا۔ ہم حکمرانوں کو برا بھلا کہ کرفارغ ہوجاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس ملک میں بہترین مادی اور انسانی وسائل ہیں اس چارموسموں کی دھرتی میں ’’بھوک‘‘ کیوں اگتی ہے؟ وہاں آن کی آن میں ڈیڑھ سو بچوں نے کیوں مائوں کی گودوں سے روٹھ کر قبروں کو آباد کرلیا ہے۔ اسلئے کہ جب اللہ کی زمین پر جاگیردارفرعون بن کر قابض ہوجائیں گے تو ان بستیوں میں بھوک ہی اگے گی۔ لیکن فرعون کا نوحہ کرنے سے کب فرعونیت سے نجات ممکن ہے۔ اس قوم کو فرعون سے نجات دلانے کیلئے موسیٰ ؑ کی ضرورت ہے لیکن جب قومیں اپنے بار بار آزمائے ہوئے ظالم ترین لوگوں کو اپنا آقا خود منتخب کریں، جب غلامی سے نجات پر آمادہ ہی نہ ہوں، جب بار بار وہی بدکردار اور عیش پرست لوگ عوامی نمائندہ بن کر اسیمبلیوں میں جائیں۔ اس قوم میں موسیٰ ؑ نہیں اتراکرتے اس قوم کی ’’فصلوں‘‘میں ’’یونہی بھوک‘‘ اُگا کرتی ہے اور انکے سروں پر یونہی موت کا عفریت سوار رہتا ہے!
ہ تو میڈیا نے تھر کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیلادیں۔ اور حکمرانوں نے اپنے آقائوں کے ڈر سے تھر کا رخ کیا کہ انکی بین الاقوامی امداد نہ روک لی جائے
بالکل درست تجزیہ کیا
حقائق واقعی بہت الم ناک ہیں۔