آبی حیات، چرندپرند، بیماروں، بوڑھوں، معذوروں، مختلف بیماریوں کے عالمی دن۔ مقصد انکی طرف توجہ دلانا کہ 364 دن عدم توجہی میں گذرگئے تو اس دن ’’ماں‘‘ کی اہمیت ’’باپ‘‘ کی اہمیت بزرگوں کی اہمیت، زمینی مخلوق کی اہمیت یا ماحول کی اہمیت کو محسوس کرلیں۔ اب ضروری ٹھرا کہ ایک دن ’’عورتوں‘‘ کے بھی نام ہو۔ مرد اپنا عالمی دن نہیں مناتے اسلئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سال کا ہر دن ان کا ہے۔ وہ ایک دن کو کیوں اپنے لئے مختص کریں! ہم منائیں یا نہ منائیں آج ساری دنیا کی عورتیں اپنا ’’عالمی دن‘‘ منارہی ہیں۔ کن ایجنڈوں کے تحت منارہی ہیں؟ کن عورتوں کے مفادات اس عالمی دن سے وابستہ ہیں؟ یہ الگ بحث طلب عنوانات ہیں۔ اخبارات کے خاص ضمیمے، بڑے ہوٹلوں میں سیمینار، کانفرنسیں، قراردادیں، سفارشات جن عورتوں کے حقوق کے شور اٹھتے رہتے ہیں ان بے چاری معصوم عورتوں کی اکثریت کو پتہ ہی نہیں کہ ان کے حقوق کیلئے بھی کوئی دن متعین ہے۔
8مارچ کے حوالے سے لکھنے کیلئے بار بار قلم اٹھاتی ہوں۔ صفحہ پر سمیعہ اعجاز کی شبیہ ابھر آتی ہے جسکی ایک چھوٹی سی خبر تھی یکم مارچ کے اخبار میں۔ جہاں اخبار کے پہلے صفحات پر ہرروز مرنے والے درجنوں افراد کی خبریں، لاشیں، بم بلاسٹ کے مناظر، اجتماعی جنازے ہوں وہاں کسی ایک جان سے گذرنے والی کی خبریں کیا ’’خبریت‘‘ ہوتی ہے بھلا؟ وہ ایک خبر تھی کہ ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کی سال سوم کی طالبہ سمعیہ اعجاز کو بھائی نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ بھائی کے منع کرنے کے باوجود وہ کسی لڑکے سے فون پر بات کررہی تھی۔ کتنی چھوٹی اور غیر محسوس سی خبر ہے۔ پھر ہے بھی کسی کا خانگی مسئلہ۔ ہاں بھائیوں کو حساس ہونا ہی چاہئے۔ نہ معلوم اصل کہانی کیا ہو۔ چلیں اگے بڑھتے ہیں۔ لیکن میری بیٹیاں مجھے آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ یونیورسٹی سے آکر وہ سارا وقت اسکی باتیں کرتی ہیں، میری ایک بیٹی اس سے دوسال سینئر ہے ایک دوسال جونیئر۔ وہ روزدن میں کئی بار اس کو دیکھتی تھیں۔ اس سے پوائنٹ کی بس میں باتیں کرتی تھیں۔ اس کے بارے میں جانتی تھیں۔ وہ اتنے بڑے سانحے کو ایک ’’اخباری خبر‘‘کے طور پر کیسے بھلادیں۔ اور ہم نے ان سانحات پر بھی رک کر نہ سوچا جن خواتین کے ہم عالمی دن مناتے ہیں۔ وہ خواتین اس معاشرے میں کس کرب سے دوچار ہیں۔
بین السطور سماج کیلئے کیا پیغام اور کیا خبریت ہے اس خبر میں؟ میڈیکل کی ایک طالبہ، اس ادارے سے وابستہ جہاں اہل اور ذہین طلباء وطالبات ہی داخل ہوسکتے ہیں، جہاں ایک ایک سیٹ بہت قیمتی ہوتی ہے، جہاں کی ڈگریاں بلیک میں نہیں ملتیں۔ ’’وہ صرف میڈیکل کی طالبہ بھی نہ تھی‘‘ میری بڑی بیٹی اسکے تصور میں کھوئی ہوئی تھی اور برابر بول رہی تھی کہہ رہی تھی ’’وہ زبردست مقرر تھی، وہ کہتی تھی میں پبلک اسپیکر بنوں گی۔ اسمیں کائونسلنگ کی زبردست صلاحیت تھی۔ وہ پوائنٹ کی بس میں تمام طالبات کی کائونسلنگ کرتی تھی۔ وہ امید کی طرف بلاتی تھی، کہتی تھی ہم محبت کرنا سیکھ جائیں تو پاکستان سب مسئلوں سے نکل جائے گا۔ وہ چیزوں کے مثبت رخ پر بہت بات کرتی تھی‘‘ مثبت طرز فکر کو وہ اپنی گفتگو کی بنیادی نکتہ بنائے رکھتی، کہتی ہمیں ہمیشہ مثبت رہنا ہے۔ وہ خود بہت مثبت رہتی تھی، ڈھائی برس میں میں ہمیشہ اسکو مسکراتے ہوئے پایا؟ ہر ایک کو پڑھائی میں مدد دیتی تھی، اسکی کوئی خاص دوست نہ تھی۔ وہ سب کی دوست تھی ورنہ تنہا رہتی تھی۔ وہ کتنا خوشنصیب تھی جب بتارہی تھی کہ نیوائز کو اس نے دبئی میں رنگ ونور کی بارشوں میں کیسے کیسے انجوائے کیا۔ وہ گوگل سے روز دنیا بھر کی خبریں تلاش کرکے لاتی۔ عالمی حالات سے اسکی دلچسپی قابل دید تھی۔ وہ کہتی’’کاش وہ سیاح ہوتی‘‘۔ میری چھوٹی بیٹی بولی’’سب یونیورسٹی میں سارادن اس کی باتیں کرتے ہیں۔ اسکی زندہ دلی سب کو یاد آتی ہے آج گرلز کامن روم میں جب اسکیلئے قرآن خوانی ہوئی، نوٹس بورڈ پر تعزیتی پیغامات لگے تو یونیورسٹی کی فضا کتنی بوجھل تھی۔ اسکی امی اسکے جسدِ خاکی کے پاس بیٹھی دھیرے دھیرے اس سے مسلسل باتیں کررہی تھی شاید انکو لگ رہا تھا کہ سمیعہ آخری بار ان کی باتیں سن رہی ہے۔ ہم اس صدمے کو کیسے بھول پائیں گے۔‘‘ میری دونوں بیٹیاں اسکا ذکر کرتے کرتے آزردہ ہوجاتی ہیں۔ ایک بات جو اسکے تذکرے میں میں نے محسوس کی وہ یہ کہ وہ ’’بہت بولڈ ڈریسنگ‘‘ تھی۔ یہ کسی ایک خاندان کا سانحہ تو نہیں ہے۔ اسطرح کے سانحات میں ذمہ دار ایک فریق بھی نہیں ہے۔
لیکن ہمارا میڈیا ان سانحات کا تجزیہ کرنے پر آمادہ ہے نہ ماہرین نفسیات، نہ ماہرین سماجیات، نہ ہم آنے والے وقت کی تصویر دیکھنے پر آمادہ ہیں۔
کتنا اہم ہے ہماری درس گاہوں کا کردار، وہاں موجود اساتذہ کا کردار، ایک مسلمان ملک کے تعلیمی اداروں میں کوئی ڈریس کوڈ نہیں ہے، لباس کے یا باہمی میل جول کی کوئی اخلاقیات نہیں ہیں، مخلوط تعلیمی ادارے، لڑکے لڑکیوں کیلئے کوئی ضابطے نہیں بنائے گئے۔ جب میری بیٹی پہلے دن یونیورسٹی گئی تو استاد نے کہا ’’آپ سب سہمے ہوئے کیوں ہیں، آپ کو پانچ سال اکٹھے پڑھنا ہے، لڑکے پیچھے کیوں بیٹھے ہیں۔ کل couplesکی صورت میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے کلاس میں بیٹھیں گے۔‘‘جہاں استادوں کی یہ نصحیتیں ہوں۔ جہاں ان کو ئی غرض نہ ہو کہ کلاس کے باہر کیا ہورہا ہے، وہ اپنی بیٹیوں کیلئے وہ سب کچھ پسند کرتے ہوں جو اپنے شاگردوں کیلئے پسند کرتے ہیں۔ جو مذہب کو تعلیم سے اور تعلیمی ادارے سے دور رکھنے پر بضد ہوں۔ پھر اس ’’قتل کے مقدمہ سے‘‘ میں ایک فریق وہ ادارے اور اساتذہ بھی ہیں۔ کیتھولک تعلیمی اداروں میں ڈانس پارٹیز، میوزک، آزادنہ اختلاط کے ماحول مہیا کیئے جاتے ہیں۔ لیکن انکو چرچ کا بھی پابند کیا جاتا ہے اور حضرت عیسیٰیؑ کی تعلیمات پر بھی لیکچر دیئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں اپنی مرضی کی تاریخ پڑھاتے ہیں۔ اور اپنے مذہب اور معاشرے کی طلب کے مطابق افراد تیار کرکے نکالتے ہیں۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جس وقت تعلیم گاہوں کو ’’قتل گاہیں‘‘ کہا تھا اسوقت اتنا کلاسک قتل بھی عام نہ ہوا تھا نہ میڈیا نے اتنی ترقی کی تھی نہ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل تھا۔
جن مخلوط تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو بہت فخر سے ڈاکٹر اور انجنیئر بننے کیلئے بھیج رہے ہیں۔ اور داخلہ نہ ملے تو لاکھوں روپے سیلف فنانس پر سیٹ خریدنے کیلئے سب کچھ نیلام پر لگانے کو تیار ہیں۔ کیا ہم سرعام انکی آخرت کا سودا نہیں کررہے ہیں۔۔۔ اگر گھر میں انکو اسلامی تعلیمات نہیں دیتے اور حیا اور ایمان کے درس سے انہیں لاعلم رکھتے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے محض ڈگریاں نہیں دے رہے نئی نسل کو دہریہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ آپ یونیورسٹی کی سطح کے کسی مخلوط ادارے میں جاکر وہاں کے ماحول کی بے باکی اور اساتذہ کی مجرمانہ چشم پوشی کو دیکھ سکتے ہیں۔ لباس کے معاملے میں کوئی ضابطہ اخلاق کیوں نہیں۔ کیا مسلمان اساتذہ اپنے لیکچر میں پورے پانچ برس میں ایک بار بھی’’درس حیاء‘‘نہیں دے سکتے؟
اور ’’ملالائوں‘‘ کی ماں کے کردار کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ بچیاں جس انداز سے جس تراش خراش کے لباس میں یونیورسٹیز میں آتی ہیں کیا وہ اہل خانہ کی نظروں سے پوشیدہ ہے؟ کیا ہمیں اپنی اولادوں کے دنیاوی اسٹیٹس کی خاطر انکی عاقبت کو داؤ پر لگاتے ہوئے ایک بار بھی نہیں سوچنا ہوگا؟ اگر بچیوں کو اوائلی عمری سے اسلامی اخلاقیات سکھائے جائیں، گھروں کے ماحول میں حیا ہو۔ گھر تو پہلی درسگاہ ہوتا ہے اور ماں پہلی استاد۔ مائوں کی غفلت کا خیمازہ ہم اجتماعی طور پر بھگت رہے ہیں۔ ہم جس اخلاقی دلدل میں من الحیث القوم دھنستے جارہے ہیں اسکی بڑی وجہ ہمارے گھروں میں ماؤں کے اس اسلامی کردار کا فقدان ہے۔ لادینیت ہمارے اندر اپنے پنجے مضبوط گاڑھ چکی ہے۔ دنیا، اسکی شوکت، یہاں عزت اور مرتبے کاحصول ہمیں نیم دیوانگی کے دائروں میں داخل کرچکا ہے۔ کردار باپ اور بھائیوں کا بھی قابل تعریف نہیں۔ جو بھائی پستول اٹھاکر اپنی بہن کی زندگی ختم کرسکتا ہے۔ اسکو یہ فکر بھی ہونا چاہئے کہ بہن کی اخلاقی تربیت میں اسکے گھر کا کیا کردار ہے؟ سمیعہ اعجاز ہمارے معاشرے کا ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے گھر کو عدالت سمجھتے ہوئے اس کیس کا ’’ازخود‘‘نوٹس لے۔ دنیا بھر کی عورتین عالمی یوم خواتین پر جو بھی مقدمے بنائیں ہم مسلمان مائیں اپنے نشیمن کو برق سے بچانے کی فکر کریں کہ استعمار کا اصل ہدف تو ہم ہی ہیں۔۔۔ ایک مسلمان عورت اور اسکا محفوظ خاندان!
Bohat fikar angaze mazmoon ha.! Allah karay aur zore qalam zyada!