’’آ خری لمحات میں احساس ہو گیا تھا کہ موت بہت قریب ہے مگر نہ مایوسی نہ لا پرواہ! علاج پر یقین تھا اور دلچسپی لے رہی تھیں‘‘
یہ ان کی بیٹیوں کے تاثرات تھے۔ٹھہرئیے! میں آپ کو بتائوں یہ ذکر کب اور کہاں کا ہے! فروری کی ایک خوشگواراور خنک صبح تھی اور ہم ایک درمیانے درجے کے مہمان کمرے میں بیٹھے تھے۔ یہ ایک تعزیتی نشست تھی!
ایک شاندار خاتون جو چند دنوں پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوئی تھیں ان کی چار بیٹیوں اور دو بہووئں کے علاوہ ان کی ایک کولیگ بھی موجود تھیں۔ جی ہاں یہ ذکر ہے زبیدہ صلاح الدین کا المعروف بیگم صلاح الدین! شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے ’نام ہی کافی ہے‘!
ایک سماجی کارکن، سابق کونسلر!ایک مصلح۔۔۔ نہیں بلکہ ایک ادارہ کہنا زیادہ منا سب ہوگا! اس وقت ہم ان کے گھر میں ان کی گھریلو زندگی کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ ایک پسندیدہ بھا وج، بہترین نند، آ ئیڈیل ماں۔۔۔ غرض زندگی کا ہر کردار بہترین طور پر گزارا ۔اور اس ملاقات کا مقصد تعزیت کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کے پہلوئوں کا ایک سر سری جائزہ لینا تھا۔
میں رات گئے ہی لاہور سے لوٹی تھی ۔ نیند کاخمار اور تھکن ! مگر غزالہ کے ساتھ پروگرام طے تھا اور پھر وہی بات کہ میں جن سے خواہش کے باوجود نہ مل سکی تھی ان کے حوالے سے نشست کیسے چھوڑ دیتی ؟ لہذا ایک طویل سفر کے بعد ہم ان کے گھر پہنچے تو گو یا رخصت ہونے والی کی خوشبو ہر سو بکھری ہوئی تھی۔ ہم سب وقت اور ماحول سے بے نیاز ان کی یاد میں کھوئے ہوئے تھے۔
ابتدائی زندگی آبائی علاقہ اندور ،سی پی انڈیا میں گزری ۔ 1951 ء میں پھوپھی زاد بھائی سے شادی ہوئی جو سرکاری ملازم تھے۔ شوہر کے ساتھ زبردست ہم آ ہنگی تھی۔ انہی کے ذریعے جماعت اسلامی سے متعارف ہوئیں۔ چونکہ علاقائی حالات کی وجہ سے انہیں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی تھی لہذا اس کی طلب انہیں ہمیشہ بے چین رکھتی اور جہاں بھی موقع ملتا وہ اس پیاس کو بجھانے کی کوشش کرتیں۔ معلوم ہوا کہ ناظم آ باد میں ہاجرہ آپا قرآن پڑھاتیں ہیں وہاں جانا شروع کردیا۔ کافی فاصلہ بھی تھا اوراس زمانے میں کوئی ٹرانسپورٹ بھی نہ ملتی تھی۔ بہت دقتوں سے وہ جاتیں اور سیراب ہوکر آ تیں اور جو کچھ سیکھتیں واپس آکر بچوں سے ڈسکس کرتیں۔
1975 ء میں رکنیت ملی۔ گویا مقصد زندگی عملی سانچے میں ڈھل گیا۔ 1979 ء سے 1987ء تک کونسلر رہیں اور یہ دور کراچی کی ترقی کا ایک سنہری باب ہے۔ الخدمت کے ذریعے تو انہوں نے اپنی سماجی سر گر میوں کو ایک فریم ورک میں پرو دیا ورنہ وہ اس سے بہت پہلے ہی ایک سماجی کارکن تھیں ۔ ایک طرف مادی اور جسمانی ضروریات کی فراہمی میں مدد گا ر تو دوسری طرف روحانی ،اخلاقی اور دینی محرومیوں کو دور کرنے کی کوشش !
’’ایک دفعہ اتنی سخت بیمار پڑیں کہ زندہ رہنا مشکل تھا۔ صحت یابی کے بعد اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ اب اپنی زندگی دین کے کام میں وقف کر دوں گی اور اپنے سے کیے گئے عہد کی پاس داری زندگی کی آ خری سانس تک کی۔۔۔‘‘ تحریکی زندگی میں کوئی رخصت نہ لی۔ نظم کی طرف سے نصا ب کی بے پناہ پا بند تھیں ۔
اس سلسلے میں ان کا طریقہ کار کیا تھا ؟ وہ گر میوں کی چھٹیوں سے قبل قریبی اسکولوں میں جا کراپنا گھر کا نمبر لکھادیتیں کہ قرآن کی کلاسز ہوں گی اور لڑکیاں بمع والدہ یا بہن وغیرہ کے آ جا تیں ۔ اس دوران وہ کم از کم تیسواں پارہ ترجمے کے ساتھ ازبر کرادیتیں ۔ باقی پورے سال بھی ہر عمر کی خواتین مستفید ہوتی رہتیں ۔ ان میں بوڑھی خواتین کی بھی بڑی تعداد ہوتی۔ اور چونکہ ان کے نام نہ لیے جا سکتے تھے لہذا ان
کو ان کے بالوں کی رنگت سے یاد رکھا جاتا تھا۔ لال بالوں والی خالہ! ان کی بیٹیوں نے بتایا ۔ وہ دودو آ یات پڑھا تیں ۔اس کالفظی تر جمہ اور تشریح کے ذریعے قرآن سے جوڑ دیتیں ۔
ان کا شیڈول کیا تھا ؟ (ٹائم منجمنٹ آ ج کی خواتین کا بہت بڑا مسئلہ ہے ذرا ان سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کر تے ہیں)۔
بہت سخت! صبح نو بجے تک تما م کام مکمل کر کے ناشتہ ، صفائی ،کھانا پکا کر( آ فس کے لیے لنچ بھی بنا دیتی تھیں )قرآن کی کلاس کا آ غاز کردیتی تھیں۔ ظہر اور کھانے سے فار غ ہوکرتین سے چھ بجے ملاقاتیں! ( اف! اتنا ٹائٹ! ) اپنے لیے کیا وقت بچتا ہوگا؟ کوئی وقت نہیں تھا۔ چلتے پھرتے بھی تربیتی امور حل کر تی رہتی تھیں۔ ہر دم نصیحت! ڈاکٹرز تک کو نصیحت! ’’وہ کھڑے کھڑے بھی نیند پوری کرلیتی تھیں اور بعض دفعہ چولہا جلاتے جلاتے آنکھ لگ جاتی اور ماچس سے انگلیاں جھلس جاتی۔۔۔‘‘سلیقہ مند اور محنتی! مردانہ سلائی تک گھر میں ہوتی تھی۔ تھکن کے نام چڑ تھی۔
ان کی گھریلو زندگی کیسی تھی ؟ خاندان والوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟ (یہ جاننا بہت ضروری تھا کیونکہ اکثر بہت بڑے بڑے کام کر نے والے قریب کے لوگوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ! )گھر اور خاندان کے لیے وہ جزو لاینفک تھیں ۔ہر ایک سے بے لوث محبت کرتی تھیں ۔ سسرال میں سب سے بڑی تھیں ۔صرف رشتے میں نہیں بلکہ تعلقات اور معاملات میں بھی ۔ سب کو بہت خوش اسلوبی سے نبھا یا ۔ ایک بہت بڑے کنبے کی نہ صرف جسمانی اور مادی بلکہ روحانی ،جذباتی اور اخلاقی ضروریات کی بھی فکر مندی کر تی تھیں۔پسندیدہ بھاوج؍ پسندیدہ نند۔ہر رشتہ میں آ ئیڈیل تھیں ۔خاندانی معاملات میں عیب جوئی انہیں سخت نا پسند تھی۔ دعوتیں ضرور کر تی تھیں۔ سسرالی رشتوں کو خصو صی جوڑنے کی فکر ہوتی تھی۔
بچوں کی تر بیت کا کیا انداز تھا ؟ اس سوال کے جواب میں سب بہنوں کا متفقہ جواب تھا ۔ بہت مہر بان!ہمارے ساتھ کھیلتی تھیں بچوں کے ساتھ کٹھ پتلی کاتما شادیکھاکرتیں ان کی نا راضگی کا اظہار خاموشی ہوتا تھا۔ سب سے بڑا ہتھیار بات نہ کر نا ہوتا تھا۔ایک دفعہ پکنک میں بیٹیا ںپانی میں بھیگیں تو ان کا بس یہ کہنا کہ آج میری تربیت پانی میں بہہ گئی۔۔۔کس قدر دلنشین انداز تھا !تمام بچوں کو یکساں توجہ دی۔ کبھی فرق نہ کیا ۔سعد سب سے چھوٹا تھا۔ دوران سبق اس کو اپنے پاس بٹھا لیتیں اور میٹھی روٹیاں کھلاتی جاتیں۔ ظا ہر ہے اس کی تر بیت بہت اعلٰی ہوئی جو اس کی شخصیت میں شامل ہوگئی ۔نوباتوں والی حدیث سعد کو ایسے یاد تھی جیسے چھوٹے بچے نر سری کی نظمیں پڑھتے ہیں۔ سعد کی بات پر موضوع بدل گیا ۔ بہنیں بھی اس کی معصوم یادیں تازہ کر نے لگیں!خوبصورت اور تکلیف دہ!
سعد جو گھرکا لاڈلا ! اس نے شروع سے ہی ماں کے ساتھ قرآن کاسفر طے کیا لہذا اسے قرآن سے خصوصی شغف تھا۔وہ پیدا ہواتو 70 ء کے انتخابات کا معرکہ تھا۔ امی پولنگ ایجنٹ تھیں تو ہم بہنیں اس کو سنبھالتے رہے۔۔۔ وہ جہادافغانستان میں شریک ہواتھا۔ GCTمیں خصوصی تعلیم کے لیے گیا تھا۔ 21؍فروری 1991ء میں لسانی تنظیم کے ہاتھوں شہید کردیا گیا۔ اسکی شہادت کے دن فجر کے وقت انہوں نے اولاد کی آ زمائش سے بچنے کی دعا مانگی اور اسی دن بیٹے کی شہادت کا تمغہ ملا۔ اس موقع پر انہوں نے لوگوں سے لپٹنے سے اجتناب کیا کہ کہیں صبر جمیل میں کوئی دڑار نہ پڑ جائے! اولاد کے کھونے سے بھی زیادہ کڑا امتحان لوگوں کے تبصرے تھے۔۔۔ بچے کو سیاست کی نظر کردیا! اہل حق ہمیشہ ایسے ہی آزمائے جا تے رہے ہیں۔ اور یہ قربانی کی قبولیت کا مظہر ہے کہ وہ جو اپنی عمر کے بیسویں سال میں اللہ کے نام کے لیے قربان ہوگیا تیئس سال بعد بھی اس کا نام زندہ ہے! یہ نام آج بھی خاندان والوں کی پہچان ہے!ایک قابل فخر شناخت۔۔۔ سعد بن صلاح الدین! قبیلے کی آ نکھ کاتارہ! 7 7ء میں بھٹو کے خلاف PNA کی تحریک کے دوران بھی آ زمائش رہی۔ پی پی پی نے دھمکی دی ہوئی تھی۔ گھروں میں چھاپے پڑ تے تھے۔ الحمد للہ اس خوف کی فضا میں بھی اپنے ایمان اور نظر یے کی حفاظت کی۔
ساتھیوں اور ہم جولیوں میں وہ کیسی تھیں ؟ بے پناہ محبت کر نے والی! مددگار!بے لوث محبت اور بے غرض شفقت! ماتھا چومنا ان کی عادت تھی ان کا انفاق کیسا تھا؟مالی تنگی کے وقت بھی ایثار بے مثل تھا۔ جسارت کی ترویج کے لیے اپنی چوڑیاں بیچیں ! سعودی عرب جب بیٹی کے گھر جاتیں تو الخدمت کے لیے مالی وسائل بڑ ھانے کی خصو صی کو ششیں کر تیں ۔ وسائل بڑھانے کے لیے اچار ، مربے وغیرہتیار کر کے فروخت کرواتیں۔ ضروریات میں تر جیحات کاتعین کیسے کر تی تھیں ؟ان کا کہنا تھا کہ بازار جا کر ضرورت نہ نکالو بلکہ ضرورت کے مطابق خریداری کرو!نئے لباس سے زیادہ لباس للتقوٰی کی فکر رہتی تھی۔
بچوں کی شادیوں کے موقع پر ان کا معیار کیا ہو تا تھا ؟ تقریبات اور رسومات میں کتنا حصہ لیتی تھیں ؟ اولاد کی خوشی غمی ان پر کتنااثر انداز ہوتی تھی؟ اپنے بچوں کی شادی کے موقع پر دینداری مانگی۔عقائد کا خاص خیال رکھا۔ رسم ورواج کاتو پہلے ہی بائیکاٹ کرتی تھیں ۔کوئی بد عت نہ ہو،اس کی فکر رہتی تھی۔ رمضان میں خواتین کے لیے تراویح کا آ غاز ان ہی کا مر ہون منت ہے۔ ہر مہینے تین روزوں کی سنت ، اعتکاف پر کار بند رہیں ۔ اپنے انتقال سے پہلے والے مہینے بھی نفل روزے رکھے۔
ہماری گفتگو ختم نہیں ہورہی تھی کہ روانگی کا وقت آ گیا۔ واپسی سے پہلے ان کے انڈسٹریل ہوم دیکھا ۔ ماشاء اللہ ان کاصدقہ جاریہ ہے۔ہر چیز توازن کے ساتھ! لوگوں کے دیے گئے سامان کو انتہائی توجہ ، ذمہ داری اور اما نت داری کے جذ بے کے ساتھ renew کر کے مستحقین تک پہنچانا! کام مشکل ہے مگردعائو ں کے تحفے اسکو راحت افزا بنا دیتے ہیں ۔اللہ واقعی ان کی قدر دانی کرے۔
تین چار گھنٹے کی اس نشست میں ایک اسّی سالہ زندگی کا ہر زاویہ سے جائزہ لینا کار محال ہے تو اسے انہیں صفحات کے محدود الفاظ میں قید کر نا نا ممکن ! بس کہنا یہ ہے کہ چراغ سے روشنی مستعارلی جاتی ہے کہ اس سے اپنے حصے کی روشنی پھیلانی ہے !
بہت اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔لکھنے کا ایک نیا انداز میرے سامنے آیا۔سیکھنے کو بیت کچھ ملا۔خواہش ھے کہ میں بھی آپ لوگہن کی طرح لکھوں