مثال

husband-killed’’جمعہ کا دن کس قدر تیزی سے ڈھلتاہے‘‘ گاڑی کا ہارن دروازہ پر کیا بجا ۔دل ، دماغ میں بحث چھڑ گئی ۔ وقت پر قابو پانے کی حسرت دل میں گھٹ کے رہ گئی۔ ’’عورت کی زندگی کا محور گھر، بچوں کے سوا کیا ہو؟گیٹ سے سر نکالے تینوں لاڈلوں کو جھانکتے دیکھ کر اپنی فطرت دہرائی۔ ہائی روف کے شفاف شیشوں سے پاک ٹیلی کام کی عمارت باہر موٹر سائیکل سوار متحدہ کے جھنڈے لہراتے نظر آئے، تشویش کے گہرے بادل امڈنے لگے ۔ شہر کراچی کے لئے برا شگون۔۔۔ کیا ہوا ہے؟ صدا اندر باہر گونجی۔ مگر اگلی چورنگی سے پہلے ہی فلک شگاف بل بورڈ نے سوچ کا زاویہ بدل ڈالا۔ دو گھنٹے ہم خیال ساتھیوں کی سنگت میں چٹکی بجاتے گذر گئے، فکر کا لمحہ اس وقت سوارہوا جب ناگن چورنگی پر فائرنگ کا پیغام آیا ۔ ’’ اچھا تو ناراضگی فساد میں بدل گئی، کاش تصادم کے صلح میں تبدیل ہونے کی خبرکبھی نشر ہو!‘‘ مونو سیکنڈ میں ذہن نے نتیجہ اخذ کر کیا۔

واپسی میں بوجھل دل مردہ زندہ کی فہرست بنانے میں لگا رہا، بات چیت ہوں ہاں سے آگے نہ بڑہی۔ عزیزم نوشین کے گھر کے لئے گاڑی مڑی تو دور تک چھایا سناٹا کچھ دیر پہلے بیتے واقعات کی کہانی سنارہا تھا۔دونوں اطراف میں بند مارکیٹ ،افراتفری میں گرے ٹھیلے ،کانچ کی کرچیاں من او ر تن یکساں لہو لہان کر گئے۔ آخر ہوا کیا جو یوں آنافانا زندگی سہم گئی؟

گھر کا محاذ حسب توقع گرم ملا۔ آئینی سربرہ ایعنی مجازی خد ا اور معصوم رعایایعنی بچے باہم شیرو شکر ٹی وی پر میچ سے لطف اندوز ہورہے تھے، سب ہمارے ارد گرد جمع ہوئے کہ دو ڈھائی گھنٹوں کے حالات سنیں اور سنائیں۔ ہم نے’’امتحانی ایمرجنسی‘‘ کے نفاذ کا اعلان چائے کے ساتھ کر دیا۔یوں عینک کے اوپر سے گھورنے پر نشست بادل نخواستہ سمیٹ لی گئی۔نماز مغرب کے بعد کتابوں سمیت بیٹھنے کا حکم جاری کر دیا۔ بچوں کے امتحانات اور مائوں کی ذمہ داریاں!

مغرب کے بعد تفصیلات آگئیں، خبر کیا تھی ضد، نفس پرستی کی کہانی، لب سڑک بیوی پر تشدد کرتا شوہر رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک! اعصاب کوشل کر کے رکھ دیا۔ کیسے زوج ہیں؟ ایک دوسرے کا لباس نہیں؟ کس معاشرے کے افراد ہیں؟ کون سی تہذیب کی نمائندگی کررہے ہیں؟ سوالات کی بوچھاڑ نے آدبوچا۔ پسند کی شادی کو محض چار ماہ ہوئے تھے کہ ایک فریق کو دنیا سے جانا پڑا اور دوسرے کو شفا خانہ میں مرہم پٹی کی غرض سے داخل کیا گیا۔ چار ماہ کا مختصر عرصہ آپ جناب عورت اور مرد نسل انسانی کی دو اکائیاں جن کے مابین خوبصورت ر شتہ خلوص، وفا اور خوف الہی کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، پنپتا ہے، پھلتا پھولتا تو برگ وبار لاتا ہے۔ انسانوں نے تاریخ میں کئی بار ان جذبوں سے منسلک کہانیاں تحریر کی ہیں۔ مگر وقت کے ساتھ معیار کے پیمانے ہی بدل گئے اور کس قدر بدل گئے؟

ایک طرف سائنس اور دوسری جانب سے اردو کی کاپیاں کتابیں آنکھوں کے آگے لہرانے لگیں توسوچوں کو بریک لگا۔
’’ پہلے میرا۔۔۔ نہیں پہلے میرا‘‘
’’ صبر، باری سے۔۔۔ اردو بعد میں ۔۔۔‘‘ زندگی میں ہر لمحہ فیصلہ کر ناپڑتا ہے۔
’’ ٹھیک ہے میںبھی زور زورسے پڑھوں گی ،اس سے آپ کو بھی اطمینان رہے گا ‘‘ احتجاج تو عوام کا حق ہے مگر کس قدر دانشمندی سے ذمہ داری ماں پر ڈالدی۔’’بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے۔‘‘
فورس (طاقت)، انرجی (توانائی )کے سوالات رجسٹر کے صفحات پر تحریر ہوئے، بار ہا دہرائے۔ مگر کیا یہ مسائل سائنس سے زیادہ انسانی زندگی کے نہیں؟کون طاقت و توانائی کا سرچشمہ ہے؟گھر میں ؟ملک میں ؟ سماج میں؟ دنیا میں؟عورت یا مرد؟کب اس بحث
کا نتیجہ نکلے گا ؟اور کیا نکلے گا؟ سر بیچارہ مبتلائے درد کے علاوہ کچھ نہ کرسکا۔

’’ امت کی افضل ترین خاتون ام ا لمو منین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔ ‘‘ اچانک ٹی وی لائونج سے بلند ہونے والی آواز نے جیسے ساری الجھنوں کو یک لخت سلجھادیا ۔ذہن کی بند کھڑکیاں ایک جھٹکے سے کھل گئیں۔ صدیوں پہلے ایک بیوی اور شوہر کے درمیان ہونے والی گفتگو جذبوں کو گرمانے لگی ۔محمد بن عبداللہ کانپتے، کپکپاتے گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔ بی بی خدیجہ سہارا دیتی ہیں، تمام ماجرا سن کر بہترین الفاظ میں آپ ﷺکی تسلی کا سامان کرتی ہیں ۔ ’’ اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا۔ ‘‘ سب سے پہلے ایمان لاتی ہیں ،شدید مخالفت میں دل وجان سی ساتھ نبھاتی ہیں،شعب ابی طالب میں کٹھن ماہ وسال گذار کر بھولے سے شکوہ شکایت زبان سے ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ ظہور اسلام سے پہلے بھی اپنے دولت ،جائیداد،کاروبار ی معاملات میں شوہر پر مکمل بھروسہ کرتی ہیں۔ سپردگی، اطاعت کے الفاظ شرمندہ دکھائی دیتے ہیں۔ اتنی دلداری! کیسی قدر دانی! کیا آج کے دور میں کائنات کے آخری سروں تک کوئی مثال اتنی اجلی نظر آتی ہے؟ مشرق ومغرب میں دور دور تک ایسا گھرجہاں زن و خاونداتنے بلند کردار ہوں، اور کسی کانہیں ہمارا اثاثہ ہیں، اورایسی خاتون جو صنف نازک کے لئے مثال بنے کوئی اور نہیں ہماری ماں ہیں۔

فیس بک تبصرے

مثال“ پر 3 تبصرے

  1. “Ummat ke afzal tareen Khatoon” ye 5th class ke Urdu ke Sind text book board ke kitab ma ha! zabardast! Kitna bar wqt parh rahee thee bacchi!

  2. بیت ھی اچھے انداز مین ایک سچے واقعے کو پیش کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔لکھنے کا ایک نیا انداز سامنے آیا۔

  3. قدردانی اور دلداری، کا سوچتا کون ہے ۔ اس تعلق میں پر شخص اپنی عقل کے مطابق مفادات تلاش کرتا ہے،
    اور عورت مرد کے تعلق میں نفسا نفسی آجائے تو اس تعلق کی آن ہی ختم ہوجاتی ہے ۔

Leave a Reply