بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
اپنی جھگی کی دیلیز پر بیٹھی بھوری آنکھوں میں آنسوں چھپائے گھاگھرا کرتی پہنے وہ اپنے تین سالہ بیٹے کو لیے نجانے کس کی راہ تک رہی تھی۔ خوف اس کی آنکھوں سے چیخ رہا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹا اب نہیں بچے گا۔وہ خود بھی بھوکی تھی، پر اسے اپنی بھوک کی نہیں اپنے بیٹے کے بے حرکت جسم کی فکر تھی۔ اس کے گائوں میں سارے بچے تو آہستہ آہستہ مر رہے تھے۔ اب اسے یقین تھا کہ اس کا بچہ بھی مر جائے گا۔ کیسی قیامت ہے میرے مولا کہ ایک ماں خود ہی اپنے بچے کو موت کی آغوش میں دینے کے لیے وقت کا انتظار کررہی تھی اور اس کا بچہ مر گیا۔
یہ تھر کے ایک دور دراز گائوں روہی راڑو کی کہانی ہے اور تھر میں جاری قحط سالی نہ جانے کتنے معصوم بچوں کو نگل چکی ہے۔ یہ تھر کے ہر گھر کی کہانی ہے جہاں بھوک سے بلکتے معصوم پھول بن کھلے مرجھا گئے۔موت ہے کہ ایک ایک کرکے سب کو نگل رہی ہے۔ ایسے میں کچھ خاندان اپنے وجود کو کھینچ کرمیرپورخاص ،سانگھڑ،بدین اور دوسرے علاقوں کو نقل مکانی پر مجبور ہیں۔بارش زندگی ہے اس کا ادراک تھریوں سے زیادہ اور کوئی نہیں کر سکتا ، جس کی ایک بوندسے تھری جھوم اٹھتے ہیں ، بارش ہو گئی تو ان کے نصیب جاگ اٹھے اور نہ ہو تو قحط سالی کا بھوت انہیں نگلنے کو تیار ہوتا ہے۔
اکثر لوگوں کے ذہن میں صحرائے تھرکا خاکہ تھر کی کوئل مائی بھاگی (بھاگ بھری) کے گائے ہوئے گانے ’’کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی‘‘ (میں نیم کے نیچے بے یار و مددگار کھڑی ہوں) اْبھرتا ہوگا۔ سندھی زبان سے واقفیت نہ رکھنے والے بھی اس گانے کے بول سن کرمفہوم ضرور سمجھ سکتے ہیں۔ تھر کا نام سن کرسب سے پہلا خیال ذہن میں بھوک اور پیاس ہی کا آتا ہے۔ تھری بچے ہوں یا خواتین اور بزرگ، یہاں کے باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں،تھری سہولیات تو کجا زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ پینے کا پانی چاہے گدلا ہی کیوں نہ ہو، انہیںمیسر نہیں، علاج معالجہ اور مناسب رہائش جیسے الفاظ شاید ان لوگوں نے کبھی سنے بھی نہ ہوں۔ یہاں زندگی بلاشبہ کسی بوجھ سے کم نہیں ہے۔
ابھی تو حکمرانوں کے سر سے سندھ فیسٹول کاخمار بھی ٹھیک سے نہیںاْترا کہ تھر کے قحط نے چمک دمک دھندلا دی۔ تھر میں قحط سالی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات پہلی بار نہیں ہوئی ہیں۔گزشتہ تین سالوں کے سرکاری اعدادوشمار پیش کے مطابق پانچ سال سے کم عمر 469 بچوں کی اب تک اموات ہوچکی ہیں، جن میں سے 140 کی 2010ء میں، 195 کی 2011ء میں اور 2012ء کے دوران مختلف امراض اور اس علاقے میں طبّی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے 134 کی اموات ہوئی تھیںاور اب حالیہ قحط سالی کے نتیجے میں130سے زائد معصوم بچوں کی اموات ہو چکی ہے۔ تھر میں کام کرنے والی این جی اوزتین ماہ قبل ہی قحط سالی کی نشاندہی کر چکی تھیں لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ شاید اس لیے کہ حکومت سندھ فیسٹول کی تیاریوں میں مصروف تھی۔
بچوں کی اموات کی خبروں کے بعد تمام تر امدادی کاروایوں کا مرکز مٹھی بنا ہوا ہے لیکن، تھر تو بہت وسیع علاقہ ہے جس کے دوردراز علاقوں میں کوئی امدادی کاروائی نظر نہیں آتی اور اسی وجہ سے، قحط سے متاثرہ لوگ ابھی تک میرپورخاص، سانگھڑ، بدین اور دوسرے علاقوں میں نقل مقانی کرنے پر مجبور ہیں۔تھر میں کام کرنے والے سوشل ورکر خالد سیف نے بتایا کہ تھر کے بیشتر علاقے اب بھی امدادی ٹیموں کی پہنچ سے دور ہیں،جہاں کوئی امدادی کاروائی نہیں کی جارہی۔ خالد سیف نے بتایا کہ تھر کی موجودہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ تھر کے باسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ نہ انہیں صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی علاج معالجے کی کوئی سہولت۔ جس سال بارشیں ہوتی ہیں، اْسی سال میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے، ورنہ کنویں کا کڑوا اور ناقابلِ استعمال پانی پینا تھریوں کی قسمت ہے۔ ساتھ ہی، غذا، پانی اور دوا کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ مائیں بیمار ہوجاتی ہیں اور ان کے بچے بیمار پیدا ہوتے ہیں، مویشی مرجاتے ہیں، بچوں کو نہ ماں کا دودھ ملتا ہے اور نہ مویشیوں کا۔ مٹھی میں قائم سول اسپتال کی صورتحال جانوروں کے شفاء خانے سے بھی بدترہے۔ جہاں تھریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بستروں کی جگہ چارپائیاں رکھی ہوئی ہیں۔ خالد سیف کہتے ہیں کہ اتنے بڑے سانحے کے باوجود سندھ حکومت مٹھی تک محدود ہے۔ تھر کے دوردراز گوٹھ گولیو، مورانو، کیہڑی، تانیلو، گنگا لچ ، سگروڑ، تانیلی، ڈاندو بھیل، وہیلنجا اور کاری ہرسمیت بیشتر گوٹھوں میں اب تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ سکی ہیں۔ جماعت الدعوۃ سمیت ایک دو این جی اوز نے یہاں کا اب دورہ کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے امداد کی تقسیم کے لیے کوئی ٹرانسپورت بھی مہیا نہیں کی ہے اور مختار کار ٹرانسپورٹ کرایہ کی مد میں امدادی سامان میں سے کچھ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ وزیر اعظم کے دورے کے باوجود سول اسپتال کی حالت نہیں بدلی جا سکی۔
وزیر اعظم کی آمد پر10سال میں پہلی میں دوبارہ سول اسپتال کی دیواروں پر سفیدی کی گئی اور حیدرآباد کے اسپتال سے بستر لائے گئے اور اب بھی ایک بستر پر تین تین بچے موجود ہیں۔سرکاری سطح پر امداد کی تقسیم غیر منصفانہ ہے ۔ ماہر امراض اطفال اور ہینڈز نامی فلاحی ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الغفار بلوکہتے ہیں کہ تھر میں جو کچھ ہوا وہ نیا نہیں ہے ۔تھر کے لوگ بارشوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں بارش برس جائے تو ان کی زندگی کی گاڑی یوں ہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اگر نہ برسے تو انہیں قحط سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بار بچوں کی اموات زیادہ ہوئی ہیں اور حکومت کا یہ کہنا کہ بچوں کی اموات نمونیا اور ڈائریا سے ہوئی ہیں کسی حد تک ٹھیک بھی ہے اور غلط بھی کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بچے جن میں غذائی قلت ہوان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے اور وہ مختلف بیماریوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے اور انتقال کر جاتے ہیں۔ڈاکٹر غفار بلو نے بتایا کہ ہم نے حکومت کو موجودہ صورتحال کی جانب بہت پہلے توجہ دلائی تھی لیکن حکومت نے سنی ان سنی کر دی۔ ماضی میں ہم نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ تھر میں ایک 100کلو میٹر کی نہر بنائی جائے جس سے اس نہر کے آ س پاس بسنے والے فائدہ اٹھائیں، فصلیں اگائیں، اپنے مال مویشی پالیں۔ قحط سالی کی نتیجے میں امداد تقسیم کر دینا پیسہ دے دینا یہ عارضی حل ہیں۔ اگر اس مسئلے کے کا پائیدار حل چاہیے تونہر قائم کرنی ہوگی۔
پروفیسر ڈاکٹر غفار بلو کہتے ہیں کہ قومی اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے 72 فیصد گھرانے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ 2011 میں یونیسف کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں لاکھوں بچے خوراک کی کمی کے باعث شدید خطرے میں ہیں۔ سندھ کے شمالی حصوں میں خوراک کی کمی کے شکار بچوں کا تناسب 23.1 فیصد جبکہ اسی صوبے کے جنوبی حصوں میں یہ تناسب 21.2 فیصد ہے۔ ڈاکٹر غفار بلو کہتے ہیں کہ سندھ میں اب بارشیں جولائی کے مہینے میں ہوں گی اور تھر میں گرمی کی شدت ابھی سے شروع ہو گئی ہے۔ اس گرمی کے نتیجے میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ صوبائی حکومت کی گزشتہ 5برس کارکردگی دیکھتے ہوئے ہمیں مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تھر کی 20یونین کونسلیں اس وقت آفت زدہ ہیں۔ ہمارے 150ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل اسٹاف تھر میں کام کر رہے ہیں۔ سیو دی چلڈرن کے سندھ کے مینیجر اقبال ڈیتھو نے بتایا کہ تھر کی موجودہ صورتحال حکومت کی پبلک اور سوشل پالیسی کی کمزوری ظاہر کرتی ہے ۔جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سب کی توجہ کا مرکز مٹھی شہر رہا ہے کسی نے بھی تھر کے دور دراز علاقوں پر کوئی توجہ نہیں دی نہ ہی ان علاقوں کے لیے کچھ کیا ہے۔ گزشتہ 5سال میں کتنے صحت مراکز قائم کیے گئے یا کتنے صحت مراکز کی صورتحال کو بہتر بنایا گیا ہے۔ حاملہ خواتین جنہیں دن میں 4 بار کھانے کو دیا جانا چاہیے ان کے پاس ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ انوائرمینٹل رپورٹراور تجزیہ کار امر گریڑو نے بتایا کہ تھر کے لو قحط سالی کے نتیجے میں نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں اور دوسرے علاقوں میں محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں اور مال مویشیوں کا پیٹ بھرتے ہیں ، بد قسمتی سے ماضی میں آنے والے سیلاب کے باعث اس بار تھرکے لوگوں کو دوسرے علاقوں میں بھی روزگار نہیں مل سکا اور انہیں واپس تھر آنا پڑا، اس بار بچوں کی اموات بہت زیادہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے میڈیا پر بھی شور ہوا ہے۔ انہوں کہا کہ اگر حکومت تھر کے باسیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے سنجیدہ ہے تو یہاں کے لوگوں کے لیے روزگار فراہم کرے، سڑکیں بنائے اور مویشیوں کے لیے چارہ پیدا کرے ۔تھر میں سنگ مرمر ، چائنا کلے موجود ہے۔ سندھ کے 70 فیصد مویشی تھر میں ہیں اور تھر کول بھی یہاں ہے، ایسے میں حکومت تھر کے لوگوں کومستقل بنایدوں پر گندم آدھی قیمت پر فراہم کرے اور اس سے اہم اور بنیادی کام یہ ہے کہ تھر کے لیے ایک نہر کھدواکر اس مسئلے کو ٓہمیشہ ہمیشہ کے لیے نمٹا دیا جائے۔
فیس بک تبصرے