8مارچ، بین الاقوامی طور پر عالمی یومِ خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ، گو کہ ابتداً اسے مزدور یا پیشہ ور خواتین کے حقوق کے دن کی حیثیت سےرائج کیا گیا ، لیکن ہمیشہ کی طرح ، اینٹیں چنتی، مزدوری کرتی ، چوڑیاں بیچتی عورت کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔۔ اور ان کے نام پر ، کرولا کے نئے ماڈلوں سے اترنے والی میڈموں کی کانفرنسز سجنے لگیں۔ ہمارے ملک میں تو بس، اخباری مضامین کی سرخیاں خوبصورت ہو گئیں اور بیرونی امداد حاصل کرنے کے ایک دو اور چور دروازے کھل گئے ۔۔ گھر میں قید ہے مشرق کی عورت ، تعلیم کی آزادی نہیں۔ حجاب اور پردہ ظلم ہے ۔ نوکریاں نہیں کرنے دی جاتیں۔ ۔ رٹے رٹائے جملے ، اور ان جملوں کے سرتال پر اپنے ملک اور مذہب کو گالیاں دینے والے استاد محوِ رقص۔۔ مجھے نہ تو کوئی مغربی فوبیا ہے نہ عورت کے حقوق سے مسئلہ، کہ مرے پیامبر ص نے عورت کو جو مقام دیا، دنیا میں اس جیسا کوئی مقام دے ہی نہیں سکتا ۔۔ یہ میرا ایمان ہے ۔ یہاں میں اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں، کہ بعض مقامات پر شارحین نے مذہب کی آڑ لے کر، اپنے سماج کا پیٹ بھرا۔ “ونی” یا ” ستی” یا کاروکاری جیسی لعنتوں کو مہذب معاشرتی روائت سمجھ کر گلے سے لگایا۔۔۔ لیکن حق وہی ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے بتلا اور سمجھا دیا گیا۔۔۔ عین ۸ مارچ کو ہی میں ایک یوروپین کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ پڑھ رہا تھا ۔ جسے اسپیشل یوروبیرومیٹر کے 344 کے نام سے ریلیز کیا گیا ہے ، ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے قانون، آزادی اور تحفظ کے زیرِ اہتمام کی جانے والی اس سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے ۔ کہ ہر چار میں سے ایک عورت ، گھریلو تشدد کا شکار ہے ۔ یورپی یونین کے ستائیس ملکوں سے مجتمع کی جانے والی ان معلومات سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ 78% یورپی گھریلو تشدد کو کامن پرابلم سمجھتے ہیں۔ 2010ء میں جاری ہونے والی اس رپورٹ میں جنسی اور جسمانی تشدد کو گھریلو ناچاقیوں کا سبب قرار دیا گیا۔ علامہ اقبال رح نے فرمایا تھا۔۔۔
کوئي پوچھے حکيم يورپ سے۔۔۔ ہند و يوناں ہيں جس کے حلقہ بگوش
کيا يہي ہے معاشرت کا کمال۔۔۔ مرد بے کار و زن تہی آغوش
میں یقینا یہ نہیں کہوں گا، کہ اس سے ہر وہ جرم جو ہمارے یہاں کیا جاتا ہے وہ مشروع ہو جاتا ہے ۔ یا ہمارے یہاں امن اور محبت کی بلبل سارا سال چہچہاتی رہتی ہے۔ بلکہ اتنا سوچنے پر مجبور ہوں ۔ کہ مغرب جس نے گھر کی عورت کو ” بازاری عورت” بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ، وہ کہاں تک عورت کو مقام دینے میں کامیاب ہوا۔ ایک طرف ریستورانوں ، بار ہوٹلوں، کلبوں ، میں نیم برہنہ اداکاری کو ” اسٹیٹس ” کے خوشنما غلاف میں لپٹا کر تہذیبِ بد کا آغاز کیا ۔ دوسری طرف بچوں کو گھر میں تعلیم وتربیت اور خاندانی نطام سے محروم کرکے ، غیر مربوط اور خود غرض معاشرتی نظام کی داغ بیل ڈالی ۔ میں حیران ہوتا ہوں ، کہ یہاں کوریا میں بھی ایسے سکول موجود ہیں جو بچوں کو ٰETIQUETTE سکھانے کے لئے قائم ہیں ۔ اور کیوں نہ ہوں جب ماں اور باپ دونوں حقوق ، اسٹیٹس اور معاشی ضروریات کا پیٹ پالنے کے لئے دفتروں کمپنیوں کا رخ کریں گے تو بچوں کا بچپنا اور ان کی تربیت تو کسی اور کو ہی کرنا ہوگی۔ اب یہ سوال آپ پر ، کہ “ماں” سے ذیادہ بھی کوئی تربیت کر سکتا ہے یا نہیں۔۔۔ عورت کا سب سے بڑا حق، عزت اور محبت ہے ۔ مغرب نے کہا نہیں، آزادی اور نوکری ہے ۔ نتیجہ اولڈ ایج ہومز، etiquette schools ,سیکس مارکیٹس، گھریلو تشدد، بڑھتی ہوئی شرحِ طلاق اور اوپن میریجز کی صورت میں سامنے ہے ۔۔۔ اور آج عورت عزت اور محبت دونوں سے محروم سی نظر آتی ہے ۔۔۔ چادر اور چاردیواری ، اور میرا مشورقیت کا نظریہ اور کچھ دے نہ دے ، عورت کو عزت اور محبت یقینا دیتا ہے ۔ تعلیم ، اور بشرطِ ضرورت روزگار سے بھی کسے انکار ہے۔ لیکن کیا کیجے ، جب بھی عورت کے حقوق کی بات آئے گی ، مذہب بیزاری ، غرب کی بے عقل تقیلد اور خود فراموش تعبیریں بال کھول کر آ نکلتی ہیں۔۔۔ اور ملائے مسجد و منبر تو یوں بھی پہلے ہی حد سے گزرا ہوا ہے ، کہ کوئی اس کی بات سنے ۔۔اقبال رحمہ اللہ ہی کی بات دوہراوں گا۔۔۔
اس بحث کا کچھ فيصلہ ميں کر نہيں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ يہ زہر ہے ، وہ قند
کيا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھي معتوب
پہلے ہي خفا مجھ سے ہيں تہذيب کے فرزند
اس راز کو عورت کي بصيرت ہي کرے فاش
مجبور ہيں ، معذور ہيں ، مردان خرد مند
کيا چيز ہے آرائش و قيمت ميں زيادہ ،
آزادي نسواں کہ زمرد کا گلوبند۔۔۔
بجا فرمایا ۔