آپ ﷺمحسن انسانیت ہیں

muhsin-e-insaniatاس میں کو ئی ابہا م نہیں کہ آپ ﷺ محسن انسانیت ہیں۔ آپ ﷺ کی ذات مبا رک کسی تعا رف کی محتاج نہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر جو بے حد و حساب نعمتیں عطا فر ما ئی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت بنی نوع انسانوں کوہدا یت کی راہ دیکھا نا ہے۔ اس سلسلے مین انبیا ء و مرسلین کی آمد کا سلسلہ ہزا روں سال جاری رہا جو آخر کا ر آپ ﷺ کی آمد پر ختم فر ما دیا گیا اور آپ کے ذریعے وہ و مکمل تعلیم و ہدا یت بھیج دی گئی جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جا وید ہے آپ ﷺ کی سیرت طیبہ سے دین اور دنیا کی تفریق کا تصور بھی باطل قرار پا جاتا اور ثابت ہو جا تا ہے کہ انسان کی انفرادی و اجتماعی نیز دنیوی و اخروی فلا ح دین اور دنیا کی یکجا ئی کے تصور میں ہے۔ آپ ﷺ نے دنیا میں رہتے ہو ئے اور اس کے تقا ظے پو رے کرتے ہو ئے دنیا کو ترک کیا ہے اور اس ترک مین نہ دنیا سے فرا ر کی کو ئی صورت مو جو د ہے اور نہ دنیا پرستی کا کو ئی امکان ہے۔ آپ ﷺ کی ذات مبا رک کا سب سے بڑا انقلا بی پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ کو وہ تمام کمالات حاصل ہو ئے جو ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیاء و مرسلین کو حاصل تھے اور وہ کمالات جو ان تمام انبیا ء و مرسلین کو حاصل نہ تھے وہ بھی آپ ﷺ کو فرا ہم ہو ئے۔ مثال کے طور پر حضرت ابرا ہیم ؓخلیل اللہ ہیں، حضرت موسی ؓ کلیم اللہ ہیں، حضرت عیسی رو ح اللہ ہیں مگر ان مین سے کو ئی بھی شا فع محشر نہیں ہے، ان مین سے کسی کو بھی تمام امتوں پر گوا ہ نہیں بنا یا گیا اور ان میں سے کسی کو بھی معرا ج کی سعا دت حاصل نہیں ہو سکی اور آپ ﷺ کی یہ جا معیت آپ کو سردا د رالانبیا ء قرار دیتی ہے۔ انبیا ء کے درمیا ن ااپ ﷺ کی حیثیت سردا ر، کی سی ہے اور آپ کو خاتم الانبیاء قرار دے کر تمام مرسلین کی آمد مو قوف کر دی گئی جس طرح خالق کا ئنا ت کا حق ہے کہ اس کی عبا دت و بندگی کی جا ئے اس طرح آپ ﷺ کی بعثت کا حق ہے کہ جب بھی آپ کا اسم مبا رک لیا جا ئے آپ کے لیے عقیدت و محبت اور وفا داری و ممنو نیت کا اظہار ہو اور یہ اظہا ر درود و سلام سے ہی ہو سکتا ہے۔

ارشا د خدا وندی ہے : اللہ تعا لی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔ سورہ احزاب ۵۶
ایک شخص نے نبی اکرم و سے سوال کیا کہ یا رسو ل اللہ ﷺ، آپ پر سلام کس طرح پڑھنا ہے یہ تو ہم نے جان لیا کہ ہم تشہد میں السلام علیک ایھا النبیی ورحمتہ اللہ پڑھتے ہیں لیکن جب ہم نما ز مین ہو تو آپ ﷺ پر درود کس طرح پڑھیں تو آ پ ﷺ نے درود ابرا ھیم کی تلقین فر مائی : مسند احمد
اللہ تعا لی نے اپنے کلام پاک میں جس طرح مومنین کو جو درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے اس کا مظلب یہ بھی ہے کہ نوع انسانی میں سے جن کو محمد ﷺ کے ذریعے را ہ راست نصیب ہو ئی ہے ان کی قدر پہچا نی جا ئے اور ان کے احسان عظیم کا حق ادا کیا جا ئے۔ جب انسا نیت جہا لت کی تا ریکیوں میں بھٹک رہی تھی نبی پاک ﷺ نے علم کی روشنی عطا فرما ئی۔ جب انسانیت اخلاقی پستی و گرا وٹ کا شکا ر تھی وحشت و حیوا نیت میں مبتلا تھی نبی پاک کی ذات مبا رکہ نے انسانی تہذیب سے آراستہ کیا کفر کی دنیا اسی لیے اس ذات پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات کر کے امت مسلمہ کو خاص مقام عطا فرما یا اور فتو حات سے آراستہ کر کے ملت کا روشن ستا رہ بنایا۔ آپ ﷺ کی دعوت کے ذریعے وہ انقلاب عظیم بر پا ہوا جس کے نتیجے میں رہزن محافظ، ڈاکو امین، غلام با دشاہ، غاصب منصف، اور جاہل ہا دی و رہنما بن گئے۔ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد خدا پرستا نہ حکمت و پا کیزہ اخلاق سے آراستہ جما عت کی تیا ری، لو گو ں کے اخلاق و ان کی زندگی کو بری صفات و برے اوصاف و قدیم رسم و رواج سے پاک کر کے اچھے و پا کیزہ اخلا ق و اوصاف سے بدل دینا تھا اور تعلیم و تزکیہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے ہا تھوں قرا ٓن پا ک کا نزول فر ما کر وہ تما م آیا ت جو نو ع انسانی تک بھیجنی تھی۔۔۔
وہ تمام خرا بیا ں جن سے نفو س انسا نی کو پا ک کرنا تھا۔۔۔
وہ تمام خو بیا ں جن کی نشونما سوسائٹی واور افراد کا ر میں ہونی چاہیے آپ ﷺ کے ہاتھوں امت مسلمہ کی تاسیس کرکے پا یہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ رسول اللہ کی زندگی ہر لحاظ سے اسوہ کامل ہے۔

آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی انقلا بیت کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کی آپ دونو ں جہا ن کے مالک ہو نے کے با و جود دونو ں جہا ن سے بے نیا ز تھے، سادگی و وقا ر کی علامت تھے۔ آپ ﷺ کا تقوی و خوف خدا مثالی تھا آپ ﷺ نے دنیا کی زندگی کو مسا فرت قرار دیا اور امت کو بھی دنیا کی عارضی زندگی میں مسافر بن کر رہنے کی تلقین کی۔ آپ ﷺ کی حیا ت مبا رکہ روشن سورج اور چمکتے چرا غ کی مانند ہے، سورج توا نا ئی حرارت اور زندگی کا ایسا بھر پو ر خزانہ ہے کہ جس کو اللہ نے اپنی پو ری مخلوق کے لیے توا نا ئی کو حصول کا سر چشمہ بنا دیا ہے اس کی شعا ئیں ہر طرح اور ہر رخ سے ضیا ء فگن ہو تیں ہیں با لکل اسی طرح آپ ﷺ کی ذات مبا رک سورج کی روشنی کی مانند یکسا ں طور پر نوع انسانی پر سا یہ فگن ہے، فکر و نظر کے لیے علم ،قلب و روح کے لیے سامان سکون، عمل کے لیے نمو نہ، غرض آپ کی ذات مبارک کے اتھا ہ خزانے انسانیت کی ہدا یت کے لیے مالا مال ہیں۔ محسن انسا نیت کے احسان کی بدولت عورت کو ما ں کی صورت میں، بیوی و بیٹی کی صورت میں اعلی مقا م حاصل ہوا، عزت نصیب ہوئی وہ معاشرہ جس میں لڑکی کی کی پیدا ئش با عث ذلت سمجھی جا تی تھی جہاں لڑکی پیدا ہو تے ہی ما ردی جا تی تھی، زندہ گا ڑ دی جاتی تھی، آپ کی آمد نے بیٹی کی پیدا ئش کو رحمت قرار دیا اور آپ ﷺ کے اس فرمان پر کہ جس نے دو یا دو سے زائد لڑکیو ں کی بہترین طریقے سے پرورش کی وہ روز قیامت میرے برا بر اس طرح بیٹھے گا کہ جس طرح شہا دت کی انگلی اور بیچ کی انگلی ہو تی ہے۔ مزید عرب کے جا ہل طبقے کے مابین ازلی لڑائی و دشمنی کو با ہمی اتفا ق و محبت اور بھا ئی  چا رے کے ذریعے ایک دوسرے کے جا نی دشمنو ں کو آپس میں اخوت کے رشتے میں جو ڑ دیا۔ یہ احسان انسانیت پر صرف آپ ﷺ کا ہی تھا ۔سرکا ر دو عالم کے ذریعے اللہ تعالی نے وہ قوا نین نا فذ فر ما ئے جو انسا نیت کو بربا دی سے ہلا کت و تبا ہی سے امن کی طرف لے جا تا ہے۔ ااپ ﷺ کے پیغام کی بدو لت عرب معاشرے سے جھو ٹ ،چو ری، زنا، قتل و غا رت گری، بد امنی کا خاتمہ ہو گیا، انصاف کا حصول آسان ہو گیا، انسانی تعلقا ت اور معا ملات مثالی بن گئے ،مفاد پرسی کا خا تمہ ہو گیا، غرض معاشرے میں پھیلی تمام برا ئیا ں اللہ کے تفویض کردہ قانون اور قر آن کے اعجا ذ کی وجہ سے دور ہو گئیں، بدوی عربوں کی زندگیوں میں انقلاب آ گیا اور نفس انسانی پر کنٹرول ہو گیا۔

ہر سال ربیع الاول کا مہینہ ذکر رسول اللہ کے زْریعے امت کی زندگی میں نئی روح پھونکنے کا با عث بنتا ہے، خصوصیت سے ۱۲ ر بیع الاول کو آپ کی روح اقدس پر درود و سلام کے نذرانے اور خراج عقیدت کے اظہار کے لیے نعت خوانی کی جا تی ہے، عما رتو ں پر چرا غاں اور گلیو ں کو روشن رکھا جا تا ہے اور یہ سب اس لیے کہ آپ ﷺ سے محبت و عقیدت کا اظہا ر ہو لیکن حب رسول کا تعلق نہ کسی خاص مہینے سے ہے اور نہ ہی کسی خاص مقام اور مو سم سے ہے، حب رسول تو وہ سدا بہار کیفیت ہے جو ایمان کے پہلے لمحے سے زندگی کی آخری سا نس تک مومن کا سر ما یہ زیست ہے ۔آپ ﷺ سے جتنی محبت ہو گی جتنا تعلق ہو گا اتنے ہی اس کے اثرات عمل، اخلاق ،اطا عت و اتبا ع میں نظر آئنگے، محبت کی تعریف اور مفہو م یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے جس پا نی سے وضو کیا ہے اس کو متبرکا اپنے چہرے اور ہا تھو ں پر عمل کر یہ سمجھ لیا جا ئے کہ محبت کا حق ادا ہو گیا بلکہ محبت کا تعلق عمل سے ہے۔ عمل کے بغیر محبت کا دعوی خود فریبی و کدا فریبی ہے، محبت رسول کا پہلا مطا لبہ اطا عت رسول ہے اور صرف قرآن کے احکامات ہی کی نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ہر فیصلے اور ہر علم و عمل کی اطا عت کرنا ایمان کا تقا ظا ہے سورہ محمد آیت ۳۴ میں ارشاد ہے کہ اے لو گو ں جو ایمان لا ئے ہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کر اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔

آج سیرت طیبہ کے ساتھ مومنانہ تعلق کمزور ترین ہو گیا ہے، نعتیں سن کر سر دھنتے ہین آنسو بہاتے ہیں مگر آپ کے ارشا دات پر عمل پیرا نہیں ہو تے۔ اپ ﷺ ہدا یت کا آفتا ب تھے، مثا لی شوہر، مثالی باپ تھے مثالی پڑوسی تھے، صحابہ کرا م آپ ﷺ کی ایک ایک ادا کے مقلد تھے لیکن افسوس آج مسلمانوںمیں اتبا ع سنت محدود ہو کر رہ گئی ہے، جب ڈاڑھی رکھنی ہو تو سیرت یا د آتی ہے، جب کھانا کھانا ہو، نیچے بیٹھنا ہو تو سیرت یا د آتی ہے لیکن جب کسی کو معا ف کرنا ہو تا سیرت طیبہ کو بھو ل جا تے ہیں اپنی طا قت اور حریف کی کمزوری یاد رہتی ہے۔ جب تجا رت کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیںکہ آپ وﷺ کیسے تا جر تھے زیادہ سے زیا دہ ما ل کما نے کی ہوس حلا ل و حرا م سے بے گا نہ کر دیتی ہے کبھی یا د نھیں رہتا کہ آپ ﷺ نوکروں سے کیسے معاملہ کرتے تھے۔ آپ کس ھد تک ایفا ئے عہد کے پا بند تھے، آپ کتنے خوش اخلاق و متواضع تھے، غرض انسانی تعلقات اور معا ملات آج زہر آلود ہو چکے ہیں اور اس کی اہم وجہ سیرت طیبہ سے دوری اور قرآنی تعلیما ت سے منہ موڑنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محسن انسا نیت کے احسان کا عملی شکر کیا جائے اور اپنی زندگی میں انقلاب برپا کیا جا ئے۔

فیس بک تبصرے

Leave a Reply