وہ جو کہتے ہیں سوچ سمجھ کر ہی کہتے ہیں۔ کیونکہ غلاموں کو آقا سب کچھ دیتے ہیں مگر سوچنے کی اجازت نہیں دیتے۔ سو ’’وہ‘‘ کہتے ہیں کہ جتنی بڑی بڑی خطرناک اور جان لیوا بیماریاں ہیں وہ سب کھلے دودھ یعنی گوالے کی جہالت کی بنا پر ہوتی ہیں کیونکہ وہ حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتا۔ اور دودھ میں خطرناک چیزوں کی ملاوٹ کی جاتی ہے مقدار بڑھانے کیلئے لہٰذا ہم سب کے گھر ٹیٹرا پیک کے دودھ کے ڈبے آنے لگے۔ان کی پیکنگ سے قبل کے مراحل اور ان ڈبوں کا خالص ہونا تو ہم نہیں جانتے البتہ ’’وہ‘‘ کہتے ہیں کہ یہ خالص دودھ ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ یہ دودھ نہیں ہےTea whitener ہے۔اور وہ بھی وہ اتنی ہی قیمت میں فروخت کرتے ہیں اور ہم دودھ کی قیمت میں اسے خرید لیتے ہیں۔ چونک اپنی جان ہمیںپیاری ہے اور ان کو بھی لہٰذا گوالے کا دودھ اب ہرگز نہیں لیتے۔بلکہ دھی اور ڈیری فارم کی تمام چیزیں اب ٹیٹرا پیک ہی معتبر ہیں ہمارے نزدیک۔
وہ کہتے ہیں کہ مذبح خانوں میں مردہ جانور بھی ذبح ہوتے ہیں اور گدھے کے گوشت بھی فروخت ہوتے ہیں۔ پھر وہاں حفظانِ صحت کے اصولوں کا پاس ولحاظ بھی نہیں اور گوشت سے خطرناک جرا ثیم ہمارے جسم میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ واقعی بظاہر قصاب تعلیم یافتہ بھی نہیں۔لہٰذا ہم نے قصابوں کی دکانوں کا بائیکاٹ کردیا اور اب ہم سب کے گھروں میں meat oneاور میٹرو، میکرو، سے ’’فروزن ‘‘گوشت آنے لگا۔ اب تازہ گوشت کو ہم بھول گئے۔ اور خوشی خوشی جمے ہوئے گوشت کو ہم نے اپنی روایات کا حصہ بنالیا۔ کیونکہ’’وہ‘‘ ہمیں نہیں بتاتے کہ فروزن گوشت کے کتنے نقصانات ہیں لہٰذا ہم نے تازہ گوشت پر باسی گوشت کو فوقیت دے دی کیونکہ’’وہ‘‘ ہم سے زیادہ ہماری صحت کا خیال رکھتے ہیں۔۔۔
وہ کہتے ہیں کہ پانی جن نہروں اور دریائوں سے ہمیں سپلائی ہوتا ہے وہ غلاظتوں کے ڈھیر ہیں اور وہاں گدھے مرے پڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ہماری آمدنیوں کا ایک بڑا حصہ ’’منرل واٹر ‘‘پر صرف ہونے لگا۔ منرل واٹر کے پروجیکٹس پر جتنی سرمایہ کاری کی گئی اگر اتنی پانی کی صفائی پر رقم لگادی جاتی تو غریب کو بھی صاف پانی میسر آجاتا۔ مگر ’’وہ‘‘ ایسا نہیں چاہتے۔ چونکہ وہ ہمارے خیر خواہ ہیں لہٰذا بات ہم انکی ہی مانتے ہیں۔ اب بجٹ کا ایک حصہ منرل واٹر کے لیئے مختص ہوگیا۔ منرل واٹر کی صورت میں کیا مذاق کیا جارہا ہے قوم کے ساتھ۔وہ ہمیں ہرگز نہیں بتائیں گے۔۔ وہ بتاتے ہیں کہ لہسن ادرک کو محفوظ رکھنے کیلئے ان میں تیزاب ملایا جاتا ہے اور دیگر مصالہ جات میں برادہ ودیگر حفظانِ صحت کے خلاف اشیاء ملائی جاتی ہیں۔ گرم مصالحہ میں پپیتے کے بیج وغیرہ ملائے جاتے ہیں۔ اور چائے کی پتی میں رنگے ہوئے چنے کے چھلکے وغیرہ۔ لہٰذا ہم نے مقامی بازاروں کی چکیوں سے پسے ہوئے مصالحہ جات لینا بند کردیئے۔ ہم سب ڈبوں میں بند بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مصالحہ جات خریدنے لگے۔ حالانکہ خطرناک کیمیکل تو ان میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی انکی ملاوٹ ہماری ملاوٹ سے ’’معتبر ‘‘ٹھری۔ اب ہم سب کے گھروں کی ’’شان‘‘انہی کے تجویز کردہ مصالحہ جات، دودھ، گوشت وغیرہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ صابن بالوں کو جڑوں سے اکھاڑدیتا ہے۔ لہٰذا ہم شیمپواستعمال کرنے لگے۔۔۔ بالوں میں بے حساب خشکی ہوئی تو کہا گیا کہ آپکا علاج اینٹی ڈینڈرف شیمپو ہے، جو بہرحال مہنگا ہوگا مگر آپ کے مسئلے کا حل ہے۔ اب ہر گھر میں اینٹی ڈینڈرف شیمپوآنے لگے۔ (جبکہ امی جان کبھی انڈے کبھی دھی، کبھی مہندی اور کبھی سکا کائی، آملہ وغیرہ سے خشکی، سکری کا علاج کرتی تھیں) اور صرف شیمپو ہی نہیں کنڈیشنر آپکے بالوں کی لازمی خوراک ہے، لہٰذا شیمپو اور کنڈیشنرایک ہی برانڈ کا استعمال کرنے لگے حالانکہ جیب پر بھاری ہے مگر ہمارے بالوں کی حفاظت کا خیال تو ہم سے زیادہ وہ رکھتے ہیں۔۔۔
گھر میں ایک صابن آتا تھا جو پورے گھر کی ہر ضرورت کو کافی ہوتا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ آپکے ہاتھوں کی جلد کی ضرورت چہرے سے مختلف ہے لہٰذا ہم ہینڈ واش اور فیس واش سوپ الگ الگ لینے لگے۔ پھر انہوں نے کہا کہ منجن نہیں ٹوتھ پیسٹ آپکی ضرورت ہے سو ’’لقمانی منجن‘‘ چھوڑ ہم نے ٹوتھ پیسٹ لینے لگے۔ تب وہ بولے کہ مائوتھ واش ناگزیر ہے۔ سو اب گھروں میں ایک کی جگہ دس چیزیں آنے لگیں، جیب تو ہلکی ہوتی ہے خرچے سے پر وہ ہم سے زیادہ ہمارے خیر خواہ جو ٹھرے۔
کس قدر جھنجھٹ ہوتی تھی مہمانوں کے آنے پر۔ خاتون خانہ فوراًکچن کا رخ کرتیں چائے یا کھانے کے لوازمات کیلئے مگر اب جھٹ پٹ ڈیپارٹمٹل اسٹور سے کباب، کوفتے، سیخ کباب، سموسے، پیزا اوردنیا جہان کی چیزیں منٹوں میں دستیاب ہوتی ہیں اور کچھ نہیں تو ’’ٹومنٹس نوڈلز‘‘ تو ہر گھر کی ضرورت ہیں۔ پھر دومنٹ میں بھی کچھ بن سکتا تھا؟ مگر ہمارے خیر خواہوں نے ہمارے کلچر کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ اب گھروں میں لسی، شکنجبین،اور تازہ پھلوں کے رس سے کوئی کسی کی تواضع نہیں کرتا۔ کیونکہ جھٹ پھٹ کوک، پیپسی اور ٹیٹرا پیک کے جوس مہمانوں کو تواضع کیلئے ہر وقت حاضر ہوتے ہیں۔ اب ہفتہ بھر میں کئی پروگرام ٹی وی پر آتے ہیں تو ہم کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں کہ کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا استعمال کی اشیاء اسقدر ملاوٹ ہے ان مقامی اشیاء میں حتیٰ کہ بیوٹی سوپ تک شادی ہالوں سے ملحق نالیوں سے برآمد کردہ برتنوں کی چکنائی سے تیار کئے جاتے ہیں اب آخر ی حل یہی ہے کہ تمام اشیاء ’’برانڈڈ‘‘خریدی جائیں کہ جان ہے تو جہان ہے۔۔۔ اب محلوں میں قائم ’’رشید جنرل اسٹور‘‘ اور ’’اکمل کریانہ اسٹور‘‘ بند ہوتے جارہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ہمارااعتماد سپر اسٹورز پر بحال کردیا ہے۔ رشید اور اکمل کے گھر میں چولہا نہ جلے یہ تو ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ بڑے بڑے سپر اسٹورز، لق دق عمارتیں، قدم آدم الماریاں، ان میں سے ابلتا ہوا سامان، ہر شے ہمیں متوجہ کرتی ہے کہ ’’میں بھی تمہاری ضرورت ہوں‘‘ ذرا سا جائزہ لیجئے کتنی چیزیں جو دس سال قبل آپکے گھر میں نہیں آتی تھیں آج آپکی ضرورت بن چکی ہیں۔ یہ سپر اسٹورز اشیائے تعیش کو اشیائے ضرورت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر کتنا اچھا لگتا ہے نا جب ٹرالی بھر کر دھکیلتے ہوئے ہم سیلزمین کے پاس جاتے ہیں اور کمپیوٹرائزڈ رسید وہ مسکرا کر ہمیں دیتا ہے جہاں نہ بھائو تائو کی اجازت ہے نہ قیمتوں کے کم، زیادہ کی بحث۔ رشید اور اکمل کی معاش ہمارا مسئلہ نہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ہم ایک ماڈرن ایج میں داخل ہورہے ہیں۔ یہ سب ’’ان کی‘‘ خیرخواہی ہی تو ہے۔ ناعاقبت اندیش لوگ کہتے ہیں کہ یہ ’’استعماری ایجنڈے‘‘ہیں!
ٹھیک