اردو ہماری قومی زبان ہے اور اس لحاظ سے ہمیں اس کو فروغ دینا چاہیے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اردو زبان کو فروغ دینے کے بجائے اس کا استعمال کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ تو انگریزی کا پاکستان کی سرکاری زبان ہونا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر عوامل میں اس میں شامل ہیں۔اگرچہ میں کوئی ماہر لسانیات نہیں ہوں اور نہ ہی اردو ادب اور اردو زبان و بیان پر مکمل قدرت رکھنے کا دعوےدار ¾ لیکن کچھ گزارشات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اردو بنیادی طور پر فارسی، ہندی، سنسکرت اور عربی زبان کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر زبان کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے اور بہت کم زبانوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے لیکن اردو زبان کی یہی خاصیت اس کی دشمن بنتی جارہی ہے۔کسی بھی زبان میں نیا لفظ اسی صورت میں شامل کیا جاتا ہے جب کسی چیز کے لیے اس زبان میں مطلوبہ لفظ نہ ملے، مثلاً انگریزی زبان کا لفظ ” پروگرام “اردو میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو میںکوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو کہ اس کے وسیع معنی و مفہوم کو ادا کرسکے، اردو میںاس کے لیے قریب ترین لفظ ”تقریب“ استعمال ہوتا ہے اگرچہ یہ لفظ مناسب ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ انگریزی لفظ ”پروگرام“ کا مکمل مفہوم ادا نہیں کرتا، اس لیے اردو زبان میں یہ لفظ رائج ہوا اور میری ناقص رائے میں بالکل درست ہوا۔
مذکورہ بالا مثال پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی زبان میں نیا لفظ اسی صورت میں شامل ہونا چاہئے یا ہمیں کسی دوسری زبان کا لفظ اسی صورت میں استعمال کرنا چاہئے جب ہماری زبان میں اس کا متبادل لفظ موجود نہ ہو، لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کل بلاضرورت اردو زبان میں انگریزی اور ہندی الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں نہ صرف الفاظ بلکہ اب تو پورے پورے جملے بھی اردو قواعد و انشاءکے بجائے ہندی تراکیب کے ساتھ استعمال کیے جارہے ہیں۔مثلاً جب ہم کسی معاملے کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اس بارے میں کسی سے رائے لینا چاہیں گے تو ہم یوں کہیں گے کہ ” شہر میں اچانک ہنگامے ہونے کے بارے میں جب ہم نے وزیر داخلہ سے دریافت کیاتو ۔۔۔۔۔“ ۔ لیکن آج کل ذرائع ابلاغ میں کچھ اس طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں ” شہر میں ہونے والے ہنگاموں کو لے کر جب ہم نے وزیر داخلہ سے ان کا تجزیہ لیا تو۔۔۔۔۔“ دوسرے جملے میں خط کشید جملہ دراصل ہندی میں استعمال ہوتا ہے۔اسی طرح ہندی زبان میں کئی ”کہ “ کی جگہ اکثر وبیشتر ”کی“ استعمال کیا جاتا ہے ، اور اب ہمارے یہاں بھی یہی ذرائع ابلاغ بالخصوص برقی ذرائع ابلاغ کے میزبان یہ غلطی کررہے۔
اردو حروفِ تہجی میں ”غ “ ” خ “ ” ذ “ اور ’ ’ ز “ کے حروف موجود ہیں، ان کا اپنا تلفط ہے جب کہ ہندی میں ان کا درست تلفظ بہت کم ادا کیا جاتا ہے۔ ہندی ڈراموں، فلموں اور پروگرامات کی کثرت اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی بے توجہی سے ہماری نوجوان نسل بھی ان حروف کا درست تلفظ ادا نہیں کرپارہی ہے۔ اگرپانچویں سے نویں جماعت کے چالیس طلبہ و طالبات سے کچھ جملے زبانی ادا کروائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، وہ جملے یہ ہیں ” میں غلط بات برداشت نہیں کرتا اور حق بات کہنے میں کبھی خوفزدہ نہیں ہوا، سچائی کے لیے میں اپنا خون بھی بہا سکتا ہوں“ یا ” ملازم نے بطخ اور خرگوش کے بچے کوباجرہ کھلانے کے بجائے زیرہ کھلا دیا “ آپ دیکھیں گے کہ نصف بچے یہ جملے اس طرح ادا کریں گے کہ ” میں گلت بات برداش نہیں کرتا اور حق بات کہنے میں کبھی کھوفزدہ نہیں ہوا ، سچائی کے لیے میں اپنا کھون بھی بہا سکتا ہوں“ اور ” ملازم نے بطق اور کھرگوش کے بچے کو باجرہ کھلانے کی بجائے جیرہ کھلا دیا“ ۔ دیکھا جائے تو یہ بچوں کا قصور نہیں ہے بلکہ بچے جو سنیں گے وہی بولیں گے، جب وہ ٹیلویژن پر ہندی ڈرامے اور فلمیں دیکھیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی ان کے سامنے ان حروف کا تلفظ اسی طرح ادا کریں گے تو لامحالہ بچے بھی یہی سیکھیں گے۔
اسی طرح اب ایک اور غیر محسوس طریقے کے ذریعے پاکستان سے اردو کوباہر نکالا جارہا ہے، ابھی لوگوں کا اس کا اندازہ نہیں ہے لیکن اگلے چند برسوں میں اردو کی اہمیت کے لحاظ سے اس کے تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے۔ وہ طریقہ ہے رومن اردو یعنی انگریزی رسم الخط کے ذریعے اردو زبان لکھنا۔ یہ طریقہ کار غیر ملکیوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے تو شائد بہت اچھا ہو لیکن اس کو بہت زیادہ عام کرنا اور اردو کی جگہ استعمال کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ رومن اردو پہلے پہل موبائل فون کے مختصر پیغامات ’ ’ ایس ایم ایس“ اور انٹر نیٹ پر ستعمال کی جاتی تھی اور اس کی وجہ بھی تھی کہ ہمارے معاشرے میں انگریزی زبان بہت زیادہ رائج نہیں ہے جب کہ انٹرنیٹ اور موبائل فونز میں پہلے اردو زبان نہیں ہوتی تھی اس لیے مجبوراً رومن اردو استعمال کی جاتی تھی لیکن اب تو موبائل فونز میں بھی اردو رسم الخط موجود ہوتا ہے اور انٹر نیٹ پر بھی ”یونی کوڈ“کے نام سے اردو رسم الخط موجود ہے اس لیے اب رومن اردو استعمال کرنا غیر ضروری ہے ، لیکن اس کے برعکس اب اخبارات و رسائل میں کئی مصنوعات کے اشہارات اور سڑکوں پر لگے اشتہاری بورڈ اور مصنوعات کے ڈبوں تک پر رومن اردو لکھی جارہی ہے۔ اس وقت کوئی اس بات کی اہمیت کو محسوس نہیں کررہا اور نہ ہی اس کے نقصانات کا اندازہ لگایا جارہا ہے ، اس کے تباہ کن اثرات اگلے دس برسوں میں ظاہر ہونگے جب ہمارے بچے اور نوجوان نسل اردو لکھنا بھی بھول جائے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو کو اس کا جائز مقام دیں، غیر ضروری طور پر غیر ملکی زبانوں کے الفاظ اور جملے اردو کے ساتھ استعمال نہ کریں، جہاں ضرورت ہو صرف اسی جگہ ہم غیر ملکی زبان کے الفاظ استعمال کریں۔ رومن اردو کے بجائے اردو رسم الخط ہی میں اردو لکھی جائے ، ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور اساتذہ کرام اس صورتحال میں اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور اردو زبان کو بچانے کے لیے کوششیں کریں۔
فیس بک تبصرے